وجود

... loading ...

وجود
وجود

پٹرول اور ڈالر کو آگ۔۔۔۔ حکمرانوں کی نااہلی کا شاخسانہ

هفته 24 مارچ 2018 پٹرول اور ڈالر کو آگ۔۔۔۔ حکمرانوں کی نااہلی کا شاخسانہ

نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی اور اسحاق دار کی پاکستان سے مفروری کی وجہ سے پاکستانی عوام کو معاشی طور پر مسلسل جھٹکے دئیے جا رہے ہیںپٹرول کی قیمت میں نواز شریف کی نااہلی سے لے کر ابتک ہوش رُوبا اضافہ ہو چکا ہے۔ پٹرول ایک ایسی چیز ہے جس کا اثر فوری طور پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں پوری قوم کو بُھگتنا پڑتا ہے۔ یوں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراط سے کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ عام آدمی کی قوت ِ خرید کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کی وجہ سے پوری قوم کو سزا وہ بھی غریب عوام کو جو پہلے ہی ستر فی صدسے زائد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔اب ڈالر کو پَر لگ گئے ہیں۔ ڈالر کے ریٹ میں روپے کے مقابلے میں یہ اضافہ اِس بات کا غمازی ہے کہ پاکستان میں معاشی مینجرز بہتر طور پر اپنا کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں۔

افراط زر کا سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کو ہوتا ہے کہ اُن کی قوت خرید کھانے پینے کی اشیاء کی خرید کے بابت انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ یوں کھانے پینے کی بنیادی اشیاء دودھ ،روٹی، سبزیاں گو شت وغیرہ اُن کی پہنچ سے دور ہوجاتا ہے۔ حکمران معاشی اشارئیے کی بجائے سپریم کورٹ کے ججز کو ملامت کر رہے ہیں۔ اِسی طرح حکمران اسٹیبلیشمنٹ کو خوب جلی کٹی سُنا رہے ہیں اور یوں حکمران اپنے الیکشن کی تیاری میں مصروف ہیں اور ڈالر، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پوری قوم کو اپنی نا اہلی کی سزا دئے رہے ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ملکی معیشت کو خود ساختہ چُنگل میں پھانس کر وہ سب کچھ دھڑن تختہ کر سکتے ہیں۔جب ملک کے حالات اِس نہج تک پہنچ چکے ہوں تو پھر ظاہری بات ہے کہ کچھ غیر فطری ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ملک میں ڈالر کا انٹر بینک ریٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 115.007 روپے تک پہنچ گیا جو ایک روز قبل 110روپے 57پیسے تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے ا سٹیٹ بینک نے بڑھتے ہوئے ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں اضافے کے باعث کرنسی ڈیلرز نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی فروخت بند کر دی۔ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ شب ڈالر کا انٹربینک ریٹ 115.007 روپے مقرر کیا جو پیر کو 110.57 روپے کے انٹربینک ریٹ کے مقابلے میں 4.437 روپے زائد ہے۔ ڈالر کا انٹربینک ریٹ بڑھنے کی وجہ بیرونی قرضوں میں اضافہ، کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور درآمدات میں اضافہ بیان کی گئی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران کرنٹ اکاونٹ خسارہ ملک کی جی ڈی پی کے 4.8 فیصد تک پہنچ گیا ہے جبکہ درآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 17.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ منگل کے روز بینکوں کے اوقات کے آغاز پر ڈالر کا انٹر بینک ریٹ 116روپے ہو گیا جو 118روپے 25پیسے تک پہنچ گیا۔ اس ضمن میں اسٹیٹ بینک کے حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا بینکوں نے ڈالر کے انٹر بینک ریٹ جاری کیے ہیں جب شام پانچ بجے بینکوں کے اوقات کار بند ہوں گے تو اسٹیٹ بینک ڈالر کا ویٹڈ ایوریج ریٹ جاری کرے گا لیکن رات 9بجے سٹیٹ بینک نے ڈالر کا ویٹڈ ایوریج ریٹ جاری کیا۔

ملک میں ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں اضافے کے ساتھ ہی ایک تولہ سونے کی قیمت میں 700روپے روپے اضافہ ہو گیا جس سے اس کا ریٹ 56ہزار600روپے سے بڑھ کر 57ہزار300روپے تک پہنچ گیا۔ ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں اضافے کے ساتھ ہی مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ ملک کی تمام درآمدات کی ادائیگیوں اور بیرونی قرضوں میں ایک محتاط انداز کے مطابق 800 سے 900 ارب روپے اضافہ ہو جائے گا۔خصوصاً پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ ڈالر کا انٹربینک ریٹ 115.007 روپے ہونے کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کو آگ لگ گئی اور اس کا ریٹ 111.90 روپے سے بڑھ کر 118 روپے سے 119 روپے تک پہنچ گیا جس سے صرف ایک دن میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت فروخت 6.1 روپے سے لیکر 7.1 روپے بڑھ گئی۔ سٹیٹ بینک نے کہا ہے انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر 115 روپے پر بند ہوا۔ انٹربینک ڈالر کی بلند ترین سطح 116.25 اور کم ترین سطح 110.60 روپے رہی۔ جولائی تا فروری 2018ئبرآمدات میں 12.2 فیصد اضافہ ہوا۔ اوورسیز پاکستانیز کی ترسیلات زر میں 3.4 فیصد کی نمو ہوئی۔ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران ترسیلات زر اور برآمدات میں کمی ہوئی تھی۔ بیرونی توازن ادائیگی کی صورتحال بھاری درآمدی بل کی بناء پر دبائو میں ہے۔

کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھنے پر زرمبادلہ کی طلب اور رسد کا فرق پیدا ہوا۔ا سٹیٹ بینک زرمبادلہ مارکیٹوں کی محتاط نگرانی کرتا رہے گا۔ روپے کی قدر میں کمی ڈار کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ایک دن میں5جبکہ چند ماہ میں 11 روپے کی کمی ہوگئی ہے۔ بیرونی قرضے ایک کھرب روپے بڑھ گئے۔ا سٹیٹ بینک کا کہنا ہے ڈیمانڈ بڑھنے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں چار فیصد کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ اسٹیٹ بینک نے اپنے بیان میں کہا ہے جولائی 2017 سے فروری 2018 کے دوران جاری خسارہ 10 ارب 82 کروڑ ڈالر رہا۔ مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے ڈالر کی قدر میں اس اچانک اضافے کی وجوہ سامنے نہیں آسکی ہیں۔ واضح رہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان پر دبا ڈال رہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی قدر کم کرکے ڈالر کی شرح مبادلہ کو حقیقت پسندانہ بنایا جائے اور اسے 115 روپے کے لگ بھگ مقرر کیا جائے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک کا کہنا تھا روپے کی قدر میں کمی، پاکستان کی معاشی نموکے لیے مفید ثابت ہوگی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے وزارت خزانہ کو متنبہ کیا گیا تھا پاکستانی روپے میں کمی کی جائے جس کی وجہ سے پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تحت 3 ماہ کی ادائیگی کے ریزرو سے بھی کم ہو گئے ہیں عوام میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ ڈالر کی بڑھتی قیمت سے مارکیٹ میں بے چینی کی فضا ہے اور ایسی صورت میں ا سٹیٹ بینک اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے عوام کو آگاہ کرے روپے کی قدر میں کتنی کمی کی ہے۔

عوام مجبوری کی صورت میں ڈالر خریدیں بصورت دیگر ڈالر خریدنے سے اجتناب کریں۔حکومت کی جانب سے ایمنسٹی سکیم کے اعلان میں تاخیر کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی ہوئی جو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا باعث بنی۔ حکومت کے آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے کے فیصلے پر ایک سازش کے تحت بینکوں کے ذریعے پاکستانی روپے کی قدر گرائی گئی ہے کیونکہ ملک کے بینکاری نظام کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کی ملکیت ہے۔ پاکستان کا بیرونی شعبہ بحران کا شکار تھا۔ جاری حسابات کا خسارہ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے۔ اس صورتحال میں آئی ایم ایف نے 15 مارچ 2018 کو پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے ہولناک امکانات کا اشارہ دیا جو حقیقت سے بہت دور ہے لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس تباہ کن اور غیر حقیقت پسندانہ رپورٹ کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر گرنی شروع ہوئی جبکہ ا سٹیٹ بینک کے پاس اتنے زرمبادلہ کے ذخائر نہیں تھے کہ وہ مارکیٹ میں مداخلت کرتا۔ پاکستان کے بینکاری نظام کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کی ملکیت ہے جنہوں نے روپے کی قدر گرانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے دیگر ذرائع سے سرمایہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور عالمی کیپٹل مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ لیکن عالمی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے لے تاکہ وہ پاکستان سے اپنے مطالبات منوا سکیں جو اسکے قومی مفاد کے خلاف ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر