وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیرمناظرہ بازوں کے نشانے پر

هفته 24 مارچ 2018 کشمیرمناظرہ بازوں کے نشانے پر

پوری مسلم دنیا اس وقت خون میں لت پت ہے۔لاکھوں شہید ہوئے ہیں اورکروڑوں مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں۔جنگ زدہ علاقوں میں محصور مسلمانوں اور دردر کی ٹھوکریں کھانے والے مہاجرین کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔مسلمان بہو بیٹیوں کی عزتیں داؤ پر لگی ہیں۔فلسطین سے لے کر برما تک اور شام و یمن سے لے کر کشمیر تک اس کو کفار اور مسلمان مل کر قتل کر رہے ہیں ۔کہیں یہ دہشت گردی کے نام پر مارا جاتا ہے تو کہیں مسلکی اور فکری اختلافات کے نام پر ۔دنیا کو خون مسلم کی لت لگی ہے گویا کفار اور بعض مسلمانوں کے منہ کو مسلمانوں کاخون لگا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس ساری منحوس اور انسانیت کش جنگ کا نام بعض کم بختوں نے جہاد رکھا ہے ۔حیرت ہوتی ہے کہ ہم بھی کس دنیامیں پھنس گئے ہیں جہاں عقل و دانش کا جنازہ قاتل ہی نہیں اٹھا چکا ہے بلکہ یہ المناک حالت اس مسلمان کی بھی ہے جو اسی نام پر مارا جاتا ہے ۔عوام الناس اب مسلمان مولویوں کے حالات دیکھ کر تنگ آچکی ہے ۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر مولوی لوگ ایک دوسرے کے خلاف اس قدر مشتعل کیوں ہیں ۔ حیرت یہ کہ یہی مولوی ممبر و محراب پرعام مسلمانوں کو اتحادکی تعلیم دیتا ہے جبکہ یہی شخص اتحاد واتفاق کوپارہ پارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔

’’حقیر مالی مفادات اور واہ واہ‘‘ کے لیے کچھ شر پسند عناصر کشمیر کے خرمن میں آگ لگانا چاہتے ہیں اور اندھوں کو پہلے سے کشمیر میں چہار سو پھیلی وحشتناک آگ نظر نہیں آتی ہے ۔ان شر پسند عناصر کا خیال یہ ہے کہ ’’مناظروں‘‘سے کسی کو شکست دی جا سکتی ہے اور جب کسی کی شکست ہو جائے گی توان کے خیال ہے کہ وہ اپنا مسلک یا مکتبہ فکر چھوڑ کر ان کے دائرے میں آجائے گا ۔ماہرین نفسیات کی تحقیق یہ ہے کہ انسان آخری درجے کاردعمل اس وقت پیش کرتا ہے جب اس کے عقائد پر حملہ کیا جاتاہے یہ دیکھے بغیر کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟کشمیر کے عوام برصغیرکے لوگوں کے برعکس مناظرانہ مزاج سے نفرت کرتے ہیں ۔جب کہ برصغیر پاک و ہند میں عوام مناظروں کو نہ صرف سراہتی ہے بلکہ ان طریقوں سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ کشمیری ہر ایک کا نقط نگاہ بہت ٹھنڈے پیٹوں سنتے ہیں اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنا مسلک یا مکتبہ فکر چھوڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں بلکہ یہ ان کی شرافت اور اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہے ۔بین المسلمین مناظروں کو نفرت کی نظر سے دیکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں داعی کے برعکس مناظر میں ہمدردی کا عنصر غائب ہوتا ہے وہ صرف اپنے مخالف کو کسی طرح ہرانے اور شکست سے دوچار کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے ۔

جموں و کشمیر گذشتہ کئی سو سال سے غیر یقینی صورت حال کے ساتھ دوچارہے ۔یہاں روز نوجوانوں کے جنازے اٹھتے ہیں ۔ روزبچوں سے لے کر بوڑھوں تک انسان گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں ۔یہاں معرکہ آرائیوں سے گھر اجڑتے ہیں ۔ احتجاجوں اورہڑتالوں نے یہاں کے رہنے والوں کی معیشت تباہ کر کے رکھدی ہے ۔کشمیری ان حالات سے پہلی مرتبہ دوچار نہیںہوئے ہیں بلکہ یہ اب ان کا معمول بن چکا ہے جبکہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ جنگ کے برعکس امن چاہتا ہے اورلڑائیوں کے بجائے پرسکون زندگی تلاش کرتا ہے ۔ ستر برس کے قلیل وقت میں پانچ لاکھ انسانوں کی لاشیں اٹھانے والی قوم کو امن اور خوشحال دینا ترجیح ہونی چاہیے نہ کہ ایک جنگ سے دوسری جنگ کی طرف منتقل کرنا۔مسلمان بحیثیت مجموعی کئی مرتبہ غیروں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو چکے ہیں مگر ہر تباہی میں اس کے اپنے بھی پیش پیش تھے اور ہیں۔آپ بنو اُمیہ کے دور سے لے کر آج کی شام ،عراق ، یمن ،افغانستان ،فلسطین اور کشمیرکی جنگ کو لے لیجیے ہر جگہ مسلمانوں کی بربادی میں آپ کو مسلمان بھی کافر وںکے دوش بہ دوش نظر آئیں گے اور پھرالمیہ یہ کہ ہر فرد اپنے موقف کی بھی تاویل کرتا ہوا نظر آئے گا۔

یہ قوم حالت جنگ میں ہے اس کو ایک جنگ سے دوسری جنگ کی طرف لے جانے کی کوشش کا مطلب اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ اس مظلوم ترین قوم کو بہ یک وقت دو جنگوں میں پھنسا کر مکمل طور پر فنا کے گھاٹ اتارا جائے !جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو پہلے ستر برس پر پھیلی جنگ سے نجات دلائی جائے ۔مناظروں سے کبھی کسی بھی فرد نے نا ہی اپنا مسلک ترک کیا نا ہی مکتبہ فکر بلکہ الٹا اس کا منفی اثر یہ پڑتا ہے کہ فریقین میں مزید شدت اور سختی پیدا ہو جاتی ہے ۔محبت نفرت میں اور پیار بغض میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔سازشوںاور خفیہ طریقوں کے ذریعے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔زچ کرنے والے مضامین اور کتابیں لکھی جاتی ہیں ۔دق کرنے والے بیانات ریکارڈ کرائے جاتے ہیں ۔دونوں طرف کی نفرت عروج پر پہنچنے کے بعد ایک دوسرے کے مال و جان کو حلال کیے جانے کے فتوے دئے جاتے ہیں ۔مفتی صاحبان پہلے فاسق و فاجر اور پھر کافر و مرتد ہو نے کے فتوے لکھ کر شائع کرتے ہیں ۔نوجوانوں کے خون کو مزید گرمانے کے لیے ’’شعلہ بیان مقررین‘‘روتے بلکتے ہو ئے اپنے عقائدوایمان اور اسلاف کے ناموس کے تحفظ کی دہائی دینے لگتے ہیں ۔’’کافر اور مرتد ‘‘قرار دینے کے بعد مخالفین کی لڑکیا ں حلال بلکہ لونڈیاں بنانے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے ۔زندہ رہنے کی صورت میں غازی اور مرنے کی صورت میں ’’شہیدِ اعظم‘‘قراردیکر طوفانِ بدتمیزی کو جنم دیا جاتا ہے ۔ (جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر