وجود

... loading ...

وجود
وجود

سینیٹ انتخابات ! خسارہ میں کون رہا؟

منگل 20 مارچ 2018 سینیٹ انتخابات ! خسارہ میں کون رہا؟

سینیٹ ممبران کے انتخابات میںجس طرح بھاری رقوم کا استعمال ہوا وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ہر سیاسی قوت نے اپنے اپنے زیادہ سے زیادہ امیدوار کامیاب کروانے کے لیے بھاری سرمایہ خرچ کیا اس سیاسی دنگل میں وہی فاتح ٹھہرے جنہوں نے مہنگے ترین داموں سے”مال خریدا”پہلے بھی ایسے انتخابات میں پیسہ چلنا کوئی اچنبھا بات نہ تھی مگر اس دفعہ تو سیاسی تالاب کی مچھلیوں کا جو ریٹ لگا وہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتااظہر من الشمس ہے کہ سبھی نے دوسرے سے دھوکہ دہی فراڈ سے زیادہ قیمت ادا کی تاکہ” متاع مطلوبہ “حاصل ہو جائے جب سینیٹ کے چئیر مین اور ڈپٹی چئیر مین کا انتخابی طبل جنگ بجا تو جناب زرداری اور ان کے اتحادیوں نے تو خوب بھاگ دوڑ کرنا ہی تھی کہ چھ ماہ قبل ہی وہ بلوچستان کی منتخب قیادت کو ہٹا چکے تھے۔

ن لیگیے ابھی بلوچستان میں ان کی حکومت ختم ہوجانے کے زخم چاٹ رہے تھے اور ادھر مقدمات کا سامنا اور روزانہ پیشیاں بھگتنی پڑ رہی تھیںاس لیے اس قدر تگ و دو نہ کرسکے جو کہ کانٹے دار مقابلہ کی ضرورت تھی اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ عمران خاں کے لیے اپنی ساکھ بچانے کے لیے بہت راستے موجود تھے مگر وہ چونکہ سیاسی دائو پیچوں سے نا واقف ہیںاس لیے ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیااولاً تو جب ان کے 13ممبران سینیٹ جیت چکے تھے تو انہیں جلد بازی میںانہیں لے جا کر چیف منسٹر بلوچستان کے حوالے کیے جانے کی کہاں ضرورت پڑ گئی؟وہ سکون آرام سے گھر بیٹھتے کہ انہیں تو کے پی کے اندر مخالفین نے 16ممبران صوبائی اسمبلی خرید کر بڑا نقصان پہنچایا تھاان کے لیے بدلہ چکانے کا موقع آن پہنچا تھا مگر وہ جلد بازی میں سبھی پتے شوکرکے اپنے سیاسی موقف کابھاری نقصان کر بیٹھے ہیں اگر وہ 13ممبران سینیٹ کو سنبھال کر بیٹھے رہتے تو سبھی اپوزیشنی قوتوں پر واضح تھاکہ اگر یہ13ووٹ انہیں نہ ملے تو ہار یقینی ہو گی ساری پارٹیاں /گروہ بشمول زرداری صاحب وغیرہ براہ راست یا بالواسطہ رابطہ کرتے تو وہ سبھی کو” ٹھونگا” دکھاتے رہتے۔

بالآخر سخت موقف اختیار کرنے کی وجہ سے زرداری صاحب ہوں یا کوئی دوسرا انہیں کہتے کہ بھائی کہ اگر آپ ہمیں ووٹ نہیں دینا چاہتے تو شریفوں کو ہرانے کے لیے ہم ہی آپ کو ووٹ دے ڈالتے ہیںاگر ایسا نہ ہو سکتا تو جب عمرا ن خان صاحب نے بنی گالہ میں اپنے تمام صوبائی اور مرکزی عہدیداروں/راہنمائوں اور سینیٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کرکے یہ متفقہ طور پرطے کرلیا تھاکہ پی ٹی آئی نہ تو ن لیگ نہ ہی پی پی پی کا ساتھ دے گی تو کچھ وقت تو اس پر اسٹینڈ لیتے کہ اب ان کی بال زرادری اور ان کے ساتھیو ں کی کورٹ میں جا چکی تھی اب انہوں نے اپنی جیت کو لازمی بنانے کے لیے پھر عمران خان کی”ترلے منتیں “کرنا تھیںبالآخراگر وہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کے حق میں فیصلہ نہ کرتے تو بھی چئیر مینی اور ڈپٹی چئیر مینی بلوچستان اور فاٹا کے آزاد امیدواروں کو دینا پڑتیں سب ملکر انہیں ووٹ دیکر کامیاب بنا لیتے اس فیصلہ کو پی ٹی آئی اور زرادری کو قبول کرنا پڑتا وگرنہ سارا “بھان متی”کا”اپوزیشنی کنبہ “اکٹھا ہو کر بھی ہار جاتا ان حالات میں پی ٹی آئی کے دیرینہ سیاسی موقف کے مطابق دونوں امیدواروں کو ووٹ دینے والی قباحت نہ ہوتی ایسا ممکن مرحلہ بھی عمران خان صاحب نے گنوا دیاخود ہی بلوچستان پہنچ کر چیف منسٹر کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کر ڈالاکہ ہم بلوچستان کے آزاد امیدوار چئیر مین اور اسی طرح پی پی پی کے امیدوار ڈپٹی چئیر مین کو ووٹ دیںگے تو اس وقت عمران خان “سیاسی خود کشی”فرما رہے تھے ان کے حامی اور پیرو کاروں پر کیا بیتی شاید ان کو توکانوں کان بھی خبرنہ ہوئی ہو گی؟ ۔

اگرعمران صاحب دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کے پارٹی کے متفقہ فیصلے پر قائم رہتے تو آج رسوائی کے دن نہ دیکھنے پڑتے جب یہ اعلان کر چکے کہ ہم بلوچستانی اور پی پی پی کے دونوںامیداروں کو ووٹ دیں گے تو سیاسی کھیل ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا زرداری صاحب جیسے شاطر کھلاڑی نے اس کا بھرپورفائدہ اٹھایاجس کا اظہار سینیٹ کے چئیر مین کے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی”ایک زرداری سب پر بھاری “اور “بھٹو دے نعرے وجن گے”سینیٹ کے ہال کی اوپر والی گیلریوں میں گونجے تو عمران صاحب کے لیے”نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن “والا معاملہ تھا۔پی ٹی آئی کے واحد موجود ممبر قومی اسمبلی نے عمران خان کا نعرہ لگانے کی کوشش کی تووزیر اعظم خاقان عباسی کے بیٹے نے ان کا گلہ ہی دباڈالا زرداری کے نعرے گونجتے رہے اور عمران خان نہ تین میں نہ تیرہ میں رہے پھر ساری رات تو زرداری ہائوسز میں جشن منائے جاتے رہے مگر کسی جگہ سے بھی عمران خان کے کارکنوں کو سنگل نعرہ بلند کرتے بھی نہ دیکھا گیا۔

عمران صاحب “اپنی پیڑھی نیچے سوٹا پھیرو”کہ تم نے کیسی بلنڈر کی ہے اب عوام میں “زرداری ایک بیماری”اور “زرداری تمہارے دن ختم ہیں”جیسے نعرے کس زمین پر لگائو گے مزید پاگل پن کا مظاہرہ اب پھر پی ٹی آئی کرنے چلی ہے کہ اخلاقاً قانوناً آئینی طور پرتو قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف جن پارٹیوں کے ووٹ سب سے زیادہ یا دوسرے نمبر پر ہوں انہی کا بنا کرتا ہے “سیاسی گندے تالاب” سے جلد بازی بغیرسوچے سمجھے و مشاورت کے مچھلیاںپکڑنے چلے ہیںنتیجہ حق میں نہ نکلا تو مزید وقار مجروح ہوگااپنے شدید چاہنے والے کارکنوں کو اتنا تو مایوس نہ کرو کہ وہ سبھی گھر بیٹھ جائیں اور آمدہ2018کی انتخابی جنگ کا آپ نہ چاہتے ہوئے بھی نقصان کر بیٹھیں ایم کیو ایم نے تو نچلا ووٹ نہ دیکر اپنی رہی سہی ساکھ بچالی مگر آپ ایسا بھی نہ کرسکے مگر “سمجھے ہو ئوں کو کون سمجھائے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر