وجود

... loading ...

وجود

شبِ زندگی سے آگے

اتوار 18 مارچ 2018 شبِ زندگی سے آگے

غلام حسین ساجد
صابر ظفر سے میرے تعلق کو بیالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ شروع کے دوچار برسوں کے بعد ہم کبھی ایک شہر میں نہیں رہے مگر ان سے فکری نسبت کا رشتہ روزبروز مضبوط تر ہورہا ہے اور اس کا سبب ہے ان کی صلاحیت اور اس صلاحیت کی نمود کا ایک مسلسل اور لامختتم ظہور۔ اردو غزل کو موضوعاتی، فکری اور تجربی تنوع کے لیے اسے زرخیز کرنے میں صابر ظفر کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اس قدر تسلسل اور جمالیاتی صباحت کے ساتھ کہ اس پر صرف داد ہی دی جاسکتی ہے۔

’’ ابتدا‘‘ سے ’’ لہو سے دستخط‘‘ تک کے اڑتیس شعری مجموعوں میں صابر ظفر نے اپنا سروکار زیادہ تر صنفِ غزل سے رکھا ہے۔ میں نہیں جانتا، وہ اب تک کتنی غزلیں کہہ چکے ہیں مگر غزل ان کے اظہار کا ایسا وسیلہ بن گئی ہے کہ انہیں کسی اور صنف سخن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کا اب تک کا شعری سفر اس بات کا گواہ ہے کہ وہ غزل کی روایتی شباہت کو مسخ کیے بغیر اس میں ایک نئی کیفیت ایک نیا رنگ بھر دینے پر قادر ہیں اور ان کی پیش رفت نے اس صنفِ سخن کو ثروت مند بنایا ہے۔

یسا تبھی ممکن ہوتا ہے، جب شاعر کے زبان و بیان پر لگے ہر نوع کے قفل کھل چکے ہوں۔ طلبِ اظہار اور طرزِ اظہار میں یکتائی در آئی ہو اور شعر کہنا سانس لینے کی طرح ایک غیر محسوس عمل بن چکا ہو اور اس کے غیاب میں کی گئی مشقت ایک غیر مرئی انعام بن کر کلام کی تاثیر اور ندرت کا حصہ بن گئی ہو۔

پچھلے کئی برس سے وہ غزل میں مسلسل کئی طرح کے تجربے کرتے چلے آرہے ہیں۔ میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ ان میں سے اکثر تجربات کا تعلق غزل کی عمومی روایت سے زیادہ عصرِ حاضر کی موجودہ صورتِ حالات کی نقش گری سے ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا کچھ کر دکھانا اور وہ بھی غزل کے پیرائے میں، نہ صرف یہ کہ مشکل کام ہے بلکہ ایک وہبی شاعر اور تغزل کی روایت میں اپنا مقام رکھنے والے شاعر کے لیے گھاٹے کا سودا بھی ہے کہ عام طور پر ہمارے یہاں مزاحمتی شاعری کو اخباری بیانیے کی طرح ایک بے تاثیر چیز گردانا جاتا ہے اور یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے کہ اس نوع کے کلام میں ہڈیوں میں رچ بس جانے والی تاثیر اور روح کو اپنے قابو میں کرتے حزن کا ذخیرہ کم کم ہی ہوتا ہے۔

ایسا ہے مگر ایک سچے شاعر کے لیے صرف اپنے غنائی امیج کو برقرار رکھنے کے لیے موجود کی ثقالت اور جبر سے منہ پھیر کر گزر جانا بھی تو ممکن نہیں۔ اس کی حساسیت اگر اسے موجود کی جبریت کے خلاف احتجاج بلکہ جنگ پر آمادہ نہیں کرتی تو اس میں اور ایک اندھے اُلّو میں فرق ہی کیا ہے؟ ایک سچا شاعر چاہے بھی تو اپنے عصر کی ناموافقت اور ناہمواری سے پہلو تہی نہیں کرسکتا۔اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے کہ کسی قوم کو باطنی قوت کا ظہور اسی کی زبان سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخِ عالم میں سچے شاعروں نے ہمیشہ باطل کی سرکوبی اور حق کی سربلندی کے لیے آواز بلند کی ہے۔

صابر ظفر ہماری فکری روایت کے سرخیل ہیں۔ اس وقت ہم اور ہمارا خطہ جس قسم کے آزار سے برسرِپیکار ہے ، وہ ہم جانتے ہیں، یہ آزار ہمارے وجود کو بھی نگل رہا ہے اور ہماری آزادی کو بھی۔ صابر ظفر نے اس آزار اور اس کے صد پہلو اثرات کو صر ف محسوس ہی نہیں کیا۔ اس کی بیخ کنی کرنے کی بھی ٹھانی ہے اور ’’زندان میں زندگی امر ہے‘‘ سے ’’ گردش مرثیہ‘‘ تک ایک تسلسل کے ساتھ اپنے زندہ شاعر ہونے کا ثبوت دیاہے۔

’’ شہادت نامہ‘‘ ان کی مزاحمتی بلکہ رجزیہ شاعری کا نیا مجموعہ ہے۔ کیونکہ اس میں ظلم اور جبر کی قوتوں کے روبرو احتجاج کی لے کم کم بلکہ کم و بیش مفقود ہے اور ان کو للکارنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی للک کہیں بڑھ کر۔

’’ زندان میں زندگی امر ہے‘‘ کا تعلق شاعر کی قوتِ متخلیہ سے تھا جو شاعر کی حساسیت کے ظہور کے ساتھ اس بات کی دلیل بھی تھا کہ کسی شخص کے زندانی ہونے کے لیے اسے کسی زنداں میں محبوس کردینا ضروری نہیں بلکہ جبر کا دائرہ پھیلتے پھیلتے بعض اوقات زنداں سے باہر زندگی کرتے اذہان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس کتاب کی علامتی سطح ہمارے موجود کی عمومی کیفیت پر ایک ایسا سوال تھی، جس کا جواب شاید ہم سے کسی کے پاس موجود نہیں کہ یہ کتاب ہماری محدود ہوتی آزادی اور عالمی استعماراتی قوتوں کی ہر لمحہ نمود کرتی پیش قدمی کا ایک بلیغ استعارہ تھی۔ مگر صابر ظفر نے اسی پر بس نہیں کی۔ اس نے صرف مریض کی نبض ٹٹولنے ہی کو کافی نہیں سمجھا’’ گردشِ مرثیہ‘‘ میں اس نے علامت اور استعارے کو تج کر براہِ راست اظہار کی روش کو اپنایا، جس کا دوسرا قدم ’’ لہو سے دستخط‘‘ ہے۔ ایسا کرنا کچھ آسان نہ تھا کہ ایک شاعر کے لیے استعارے سے حقیقت کی منزل پر اترنا ایک طرح سے اپنے رومانوی تاثر کو مسخ کرنے بلکہ مٹانے کی طرح ہے، جس سے اس کے تمام تر شعری سفر کے معدوم ہونے کا راستہ نکلتا ہے مگر صابر ظفر نے کسی خطرے کی پروا کی ہے نہ اپنے غزل گو اور نرم خو ہونے کے پرلطف تاثر سے محروم ہونے سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی اپنے شعری سفر کی معدومیت کے ڈر کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ کیونکہ وہ اور اس کی شاعری کسی نوع کی دائمیت کی طلبگار ہے نہ کسی طرح کی معدومیت کے خوف سے ہراساں۔ وہ بلھے شاہ کی طرح ’’ آئی صورتوں سچا‘‘ ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔

’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ کا فکری حوالہ ہمارا بلوچستان ہے۔ میں نے جب تک بلوچستان کو گھوم پھر کر نہیں دیکھا تھا، میں اس درد اور رنج کو محسوس کرنے سے عاری تھا جو اپنوں کے ہاتھوں زخم کھا کر کسی قوم کی نفسیات کا حصہ بنتا ہے۔ بلوچستان اور اب شاید جنوبی پنجاب بھی ایک ایسا سلگتا ہوا خطہ ہے، جس کی آگ کو بیرونی طالع آزمائوں اور اندرونی ہوس پرستوں نے ہر لمحہ ہوادی ہے۔ اس قدر کہ اس کی تپش اب ایوانِ اقتدار کے درودیوار تک آپہنچی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک خوش گو شاعر کے کلام تک۔

نادر شاہ عادل نے ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ کے پیش لفظ میں کیا خوب لکھا ہے کہ مزاحمتی شاعری کے باب میںبلوچستان اور اس کے شہیدوں کے لیے صابرظفر کی شعری تخلیق ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ بلوچستان کا شعری آشوب ہے۔ تنِ داغ داغ کی روح فرسا کہانی ہے۔ ایک داستانِ خونچکاں اور معروضی محاکمہ ہے، جو ستم شعار آمروں اور بزدل و مصلحت کش جمہوری حکمرانوں کے نظمِ حکمرانی کے جبرو استبداد کا کچا چٹھا ہے۔ ان بے نوا صحرانشینوں کا نوحہ ہے، جو رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے۔ میں اس پر صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ’’ لہو سے دستخط‘‘اور اب ’’شہادت نامہ‘‘اس امر کی فکری دلیل ہے کہ جبر و استبداد کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں اور اس آگ کی لپٹیں اب ہماری روحوں کو جھلسانے لگی ہیں۔

صابر ظفر آتش مزاج ہیں یا نہیں۔ میں نہیں جانتا مگر ان کی غزل کا مزاج ہر لمحہ آتشیں ہورہا ہے۔ یہ شاعر کی کایا کلپ کا مسئلہ نہیں ایک خطے کی کایا کلپ ہوتے چلے جانے کی علامت ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ امر ہر گز ہرگز خوش کن نہیں کہ اس سے ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور ناداری کے ساتھ ساتھ ہماری یکجہتی اور آزادی کے پارہ پارہ ہونے کی خبر بھی ملتی ہے جو اپنی جگہ پر روح فرسا اور حزینہ کیفیت کے فروغ کا استعارہ ہے۔ کاش صابر ظفر کے ’’ شہادت نامہ‘‘ کے بعد اربابِ اختیار کی آنکھیں کھل جائیں اور من و تو کی یہ خلیج مٹ سکے۔

’’گردشِ مرثیہ‘‘سے ’’ شہادت نامہ‘‘ تک کی شاعری کا جغرافیائی خطہ بلوچستان ہے۔ اگرچہ صابر ظفر نے ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ میں سرائیکی، ’’ اباسین کے کنارے‘‘ میں خیبرپختون خواہ اور ’’ رانجھا تخت ہزارے کا‘‘ میں مرکزی پنجاب کی فکری روایت اور ثقافت کو موضوع بنایا ہے مگر اس کی نوعیت جمالیاتی ہے اور اس سے ان خطوں کے بارے میںایک اسرار بھری یگانگت کا تاثر ابھرتا ہے مگر بلوچستان کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور جدوجہدِ آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی یہ تین کتابیں جنہیں شاید Trilogy کہنا مناسب نہ ہو ، ایک ہی آزار کا پتا دیتی ہیں، جسے شاید ’’ بلوچ المیہ‘‘ کا نام دینا درست ہو۔ یہ شاعری کا نہیں، شاعری سے آگے کا معاملہ ہے اور خود شاعر بھی اس امر سے نا آگاہ نہیں:

جو ہے بات کہنے والی، وہ ہے شاعری سے آگے
سنو ان کہی سے آگے، چلو سرکشی سے آگے
سبھی جہد کار میرے، سبھی جاں نثار میرے
تمہیں صبحدم ملیں گے، شبِ زندگی سے آگے

یہ دو شعر تو میں نے اپنی بات کی تائید میں درج کیے وگرنہ میں اس کتاب سے یہاں اشعار درج کرتے چلے جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ میرے خیال میں ’’ شہادت نامہ‘‘ غزل کا مجموعہ ہوتے بھی کچھ اس کے سوا بھی ہے۔ دراصل ’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہوسے دستخط‘‘ اور ’’شہادت نامہ‘‘ ایک خیال کی کڑیاں اور ایک وجود میں سمٹی کتابیں ہیں۔ اس نوع کی پہلی کتاب غالباً ’’ عناصر‘‘ تھی، جسے مظفر علی سید نے نظم سے قریب تر قرار دیا تھا اور اس لہجے کی برقراری کو ضروری قرار نہیں دیا تھا۔ کچھ ایسا ہی میرا خیال اس کتاب کے حوالے سے ہے کہ میں اسے ناانصافی اورجبر کی شدت کو للکارتی صدا سمجھتا ہوں، جس کی تندی بلوچستان کی آہستہ خرام اور ذات مست کاریزوں کے برعکس ایک تند مزاج دریا کی سی ہے، جس کا تھم جانا لازم ہے۔ مگر یہ دریا شاید تھمنے کا نہیں اور بلوچستان میں امن، انصاف اور خوشحالی کے قدم پڑنے تک اسے تھمنا بھی نہیں چاہیے۔

صابر ظفر نے جس لسانی تجربے کا آغاز ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ سے کیا تھا۔ اس کی ایک مثال ’’ شہادت نامہ‘‘ بھی ہے۔ ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ ،’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ اس لحاظ سے بھی اہم کتابیں ہیں کہ یہ غزل کی زبان اور لہجے کے حوالے سے ہمارے روایتی تصور کو ردّ کرتی ہیں۔ جہاں شاعر برتی ہوئی مانوس لفظیات کو برتنے میں تحفظات کا شکار ہو، وہاں لسانی حوالے سے غیر مروج اور ایک خاص خطے سے مخصوص لفظیات کا استعمال میں لانا اور اسے اپنے جمالیاتی عمل کا حصہ بنانا کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ کام کوئی جرات مند شاعرہی انجام دے سکتا تھا اور صابر ظفر نے اس عمل کو تسلسل سے جاری رکھ کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ شعری مکاشفے کی حقانیت کو بڑھاوا دینے میں وہ کس قدر جرات مند اور بے خوف ہے۔

توں کا انتخاب کیا ہے جس ãḻ


متعلقہ خبریں


دوحا مذاکرات کامیاب ،پاکستان اور افغانستان فوری جنگ بندی پر راضی وجود - پیر 20 اکتوبر 2025

مذاکرات کی میزبانی ریاستِ قطر نے کی جبکہ جمہوریہ ترکیہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا،دونوں ملک ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کرینگے، معاہدہ طے پانے پرقطراورترکیہ کے شکرگزار ہیں ،خواجہ آصف مذاکرات 13 گھنٹے تک جاری رہے، 25 اکتوبر کو استنبول میں ملاقات کا فیصلہ، دونوں فریقوں نے دوطرفہ...

دوحا مذاکرات کامیاب ،پاکستان اور افغانستان فوری جنگ بندی پر راضی

پیپلز پارٹی اراکین کا حکومتی اتحاد سے نکلنے کا مطالبہ، آصف زرداری کی درخواست پر حکومت کو ایک ماہ الٹی میٹم وجود - پیر 20 اکتوبر 2025

سی ای سی اراکین وفاق، پنجاب حکومت،ن لیگ کے روییپر کھل کر برسے ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے اراکین کی جذباتی گفتگو ،، پی پی قیادت چٹکی بجا کر وفاق میں حکومت گرا سکتی ہے پارٹی قیادت حکم دے وفاق، پنجاب میں ن لیگ کو تگنی کا ناچ نچا دیں، ن لیگ بار بار کی سیاسی ٹھوکروں کے باوجود کچھ نہ...

پیپلز پارٹی اراکین کا حکومتی اتحاد سے نکلنے کا مطالبہ، آصف زرداری کی درخواست پر حکومت کو ایک ماہ الٹی میٹم

خیبر پختونخوا میں تبدیلی سرکار صرف تباہی لیکر آئی، حافظ نعیم وجود - پیر 20 اکتوبر 2025

پاکستان اور افغانستان میں جنگ بندی خوش آئند، طالبان حکومت انڈیا کی ہمدرد نہ بنے حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگانا چاہتی ہے،طلباء سے خطاب جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ 12 سال سے خیبر پختونخوا میں تبدیلی کی حکومت ہے لیکن یہاں کوئ...

خیبر پختونخوا میں تبدیلی سرکار صرف تباہی لیکر آئی، حافظ نعیم

ٹماٹر کی قیمت سن کر شہریوں کے چہرے سرخ ،فی کلو 700 روپے تک جاپہنچا وجود - پیر 20 اکتوبر 2025

فیڈرل بی ایریامیں 650، گلشن اقبال، برنس روڈ میں 700 روپے کلو میں فروخت 322 روپے سرکاری نرخمقرر ،انتظامی نااہلی ، دکانداروں نے مہنگائی کا بازار گرم کردیا ملک بھر میں ٹماٹر کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں اور ٹماٹر کی قیمت سن کر شہریوں کے چہرے سرخ ہوگئے ہیں۔کراچی سمیت ملک بھر میں ٹم...

ٹماٹر کی قیمت سن کر شہریوں کے چہرے سرخ ،فی کلو 700 روپے تک جاپہنچا

غزہ میں جنگ بندی کے بعد بھی کشیدگی برقرار وجود - پیر 20 اکتوبر 2025

امریکا کا حماس پر حملے کی تیاری کا الزام، فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے دوٹوک تردید کردی حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ توڑنے والی ہے، امریکی محکمہ خارجہ کابیان مسترد حماس نے امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم جلد ہی اسرائیل ...

غزہ میں جنگ بندی کے بعد بھی کشیدگی برقرار

دشمن کی ہرپراکسیخاک میں ملادیں گے،فیلڈ مارشل وجود - اتوار 19 اکتوبر 2025

دوبارہ جارحیت کی کوشش پر دشمن کی توقعات سے کہیں زیادہ سخت جواب ملے گا،پاکستان خطے کو استحکام دینے والی طاقت، معمولی شرانگیزی کا بھی جواب دے گا،معرکہ حق میں دفاعی صلاحیت کا لوہا منوایا قوم کو یقین دلاتا ہوں اس مقدس سرزمین کا ایک انچ بھی دشمن کے حوالے نہیں ہونے دیں گے، بھارت کی جغ...

دشمن کی ہرپراکسیخاک میں ملادیں گے،فیلڈ مارشل

پی ٹی آئی وکلاکو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم وجود - اتوار 19 اکتوبر 2025

ملزمان کئی بارعدالت میں طلب کیے گئے لیکن پیش نہ ہوئے،ضمانتی کو بھی نوٹس بھجوا دیا گیا عمران خان کیخلاف عدت میں نکاح کیس کے دوران خاور مانیکا پر مبینہ تشدد کے الزامات پی ٹی آئی وکلا وارنٹ گرفتاری کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے کیس کی سم...

پی ٹی آئی وکلاکو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم

وفاق کو ترقیاتی منصوبوں پرسندھ حکومت کے تحفظات سے آگاہ کردیا،بلاول بھٹو وجود - اتوار 19 اکتوبر 2025

کراچی کیلئے کام کیا جائے تو خوش ہوں گے، ترقیاتی کام اٹھارویں ترمیم کے مطابق ہوں، شہداء کی یادگار پر حاضری ہمسائے ملک سے ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہیں، کچھ معاملات کو شفاف طریقے سے حل نہیں کیا جاتا ،میڈیا سے گفتگو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ترقی...

وفاق کو ترقیاتی منصوبوں پرسندھ حکومت کے تحفظات سے آگاہ کردیا،بلاول بھٹو

بھارت قیامت تک جنگ میں شکست کو بھلا نہیں سکتا،وزیراعظم وجود - اتوار 19 اکتوبر 2025

اللہ نے چار دن کی جنگ میں پاکستان کو عظیم فتح سے نوازا، تینوں افواج نے تاریخ رقم کی مریم نواز اور ان کی ٹیم نے عوام خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی، سیاسی رہنماؤں سے ملاقات وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اللہ نے چار دن کی جنگ میں پاکستان کو عظیم فتح سے نوازا، بھارت قیامت تک اس ...

بھارت قیامت تک جنگ میں شکست کو بھلا نہیں سکتا،وزیراعظم

افغانستان سمیت جو بھی حملہ کریگا جواب ملے گا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وجود - اتوار 19 اکتوبر 2025

پاکستان کے خلاف کوئی بھی جارحیت کریگا تو ہم فوج کے ساتھ کھڑے ہونگے 8 لاکھ افغان مہاجرین واپس گئے، 12لاکھ اب بھی ہیں، سہیل آفریدی کی گفتگو صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ افغانستان سمیت جو بھی حملہ کرے گا اس کو بھرپور جواب ملے گا۔پشاور میں صحافیوں سے ...

افغانستان سمیت جو بھی حملہ کریگا جواب ملے گا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

افغان حکومت کی درخواست ، عارضی جنگ بندی میں توسیع وجود - هفته 18 اکتوبر 2025

پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان سیزفائر میں توسیع پر اتفاق ہوگیا، پاکستان نے افغان طالبان کی درخواست آئندہ اڑتالیس گھنٹوں کیلئے منظور کرلی ہے۔پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان عارضی جنگ بندی کو دوحہ میں جاری مذاکرات کے اختتام تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اعلی سطح کے مذاکرا...

افغان حکومت کی درخواست ، عارضی جنگ بندی میں توسیع

سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ،مزید ممالک جلدشامل ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ وجود - هفته 18 اکتوبر 2025

سعودی رہنماؤں کے ساتھ بہت اچھی گفتگو ہوئی،غزہ جنگ کے دوران ابراہیمی معاہدوں میں شریک ہونا ممکن نہیں تھا مگر اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں،مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں ایران کی طاقت کم ہوگئی ہے،خطے میں ایک نئی سفارتی صف بندی ابھر رہی ہے جس میں سعودیہ کی شمولیت امن اور استحکام کے نئ...

سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ،مزید ممالک جلدشامل ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ

مضامین
غزہ: زندگی کی آوازیں لوٹ آئی ہیں مگر کب تک؟ وجود پیر 20 اکتوبر 2025
غزہ: زندگی کی آوازیں لوٹ آئی ہیں مگر کب تک؟

بھارتی تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ سے امتیازی سلوک وجود پیر 20 اکتوبر 2025
بھارتی تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ سے امتیازی سلوک

بدلے کی آگ میں جلتا مودی خطے کے امن کے لیے خطرہ وجود پیر 20 اکتوبر 2025
بدلے کی آگ میں جلتا مودی خطے کے امن کے لیے خطرہ

پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران

دہشت گرد کی گرفتاری وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
دہشت گرد کی گرفتاری

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر