وجود

... loading ...

وجود

شبِ زندگی سے آگے

اتوار 18 مارچ 2018 شبِ زندگی سے آگے

غلام حسین ساجد
صابر ظفر سے میرے تعلق کو بیالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ شروع کے دوچار برسوں کے بعد ہم کبھی ایک شہر میں نہیں رہے مگر ان سے فکری نسبت کا رشتہ روزبروز مضبوط تر ہورہا ہے اور اس کا سبب ہے ان کی صلاحیت اور اس صلاحیت کی نمود کا ایک مسلسل اور لامختتم ظہور۔ اردو غزل کو موضوعاتی، فکری اور تجربی تنوع کے لیے اسے زرخیز کرنے میں صابر ظفر کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اس قدر تسلسل اور جمالیاتی صباحت کے ساتھ کہ اس پر صرف داد ہی دی جاسکتی ہے۔

’’ ابتدا‘‘ سے ’’ لہو سے دستخط‘‘ تک کے اڑتیس شعری مجموعوں میں صابر ظفر نے اپنا سروکار زیادہ تر صنفِ غزل سے رکھا ہے۔ میں نہیں جانتا، وہ اب تک کتنی غزلیں کہہ چکے ہیں مگر غزل ان کے اظہار کا ایسا وسیلہ بن گئی ہے کہ انہیں کسی اور صنف سخن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کا اب تک کا شعری سفر اس بات کا گواہ ہے کہ وہ غزل کی روایتی شباہت کو مسخ کیے بغیر اس میں ایک نئی کیفیت ایک نیا رنگ بھر دینے پر قادر ہیں اور ان کی پیش رفت نے اس صنفِ سخن کو ثروت مند بنایا ہے۔

یسا تبھی ممکن ہوتا ہے، جب شاعر کے زبان و بیان پر لگے ہر نوع کے قفل کھل چکے ہوں۔ طلبِ اظہار اور طرزِ اظہار میں یکتائی در آئی ہو اور شعر کہنا سانس لینے کی طرح ایک غیر محسوس عمل بن چکا ہو اور اس کے غیاب میں کی گئی مشقت ایک غیر مرئی انعام بن کر کلام کی تاثیر اور ندرت کا حصہ بن گئی ہو۔

پچھلے کئی برس سے وہ غزل میں مسلسل کئی طرح کے تجربے کرتے چلے آرہے ہیں۔ میں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ ان میں سے اکثر تجربات کا تعلق غزل کی عمومی روایت سے زیادہ عصرِ حاضر کی موجودہ صورتِ حالات کی نقش گری سے ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا کچھ کر دکھانا اور وہ بھی غزل کے پیرائے میں، نہ صرف یہ کہ مشکل کام ہے بلکہ ایک وہبی شاعر اور تغزل کی روایت میں اپنا مقام رکھنے والے شاعر کے لیے گھاٹے کا سودا بھی ہے کہ عام طور پر ہمارے یہاں مزاحمتی شاعری کو اخباری بیانیے کی طرح ایک بے تاثیر چیز گردانا جاتا ہے اور یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے کہ اس نوع کے کلام میں ہڈیوں میں رچ بس جانے والی تاثیر اور روح کو اپنے قابو میں کرتے حزن کا ذخیرہ کم کم ہی ہوتا ہے۔

ایسا ہے مگر ایک سچے شاعر کے لیے صرف اپنے غنائی امیج کو برقرار رکھنے کے لیے موجود کی ثقالت اور جبر سے منہ پھیر کر گزر جانا بھی تو ممکن نہیں۔ اس کی حساسیت اگر اسے موجود کی جبریت کے خلاف احتجاج بلکہ جنگ پر آمادہ نہیں کرتی تو اس میں اور ایک اندھے اُلّو میں فرق ہی کیا ہے؟ ایک سچا شاعر چاہے بھی تو اپنے عصر کی ناموافقت اور ناہمواری سے پہلو تہی نہیں کرسکتا۔اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے کہ کسی قوم کو باطنی قوت کا ظہور اسی کی زبان سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخِ عالم میں سچے شاعروں نے ہمیشہ باطل کی سرکوبی اور حق کی سربلندی کے لیے آواز بلند کی ہے۔

صابر ظفر ہماری فکری روایت کے سرخیل ہیں۔ اس وقت ہم اور ہمارا خطہ جس قسم کے آزار سے برسرِپیکار ہے ، وہ ہم جانتے ہیں، یہ آزار ہمارے وجود کو بھی نگل رہا ہے اور ہماری آزادی کو بھی۔ صابر ظفر نے اس آزار اور اس کے صد پہلو اثرات کو صر ف محسوس ہی نہیں کیا۔ اس کی بیخ کنی کرنے کی بھی ٹھانی ہے اور ’’زندان میں زندگی امر ہے‘‘ سے ’’ گردش مرثیہ‘‘ تک ایک تسلسل کے ساتھ اپنے زندہ شاعر ہونے کا ثبوت دیاہے۔

’’ شہادت نامہ‘‘ ان کی مزاحمتی بلکہ رجزیہ شاعری کا نیا مجموعہ ہے۔ کیونکہ اس میں ظلم اور جبر کی قوتوں کے روبرو احتجاج کی لے کم کم بلکہ کم و بیش مفقود ہے اور ان کو للکارنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی للک کہیں بڑھ کر۔

’’ زندان میں زندگی امر ہے‘‘ کا تعلق شاعر کی قوتِ متخلیہ سے تھا جو شاعر کی حساسیت کے ظہور کے ساتھ اس بات کی دلیل بھی تھا کہ کسی شخص کے زندانی ہونے کے لیے اسے کسی زنداں میں محبوس کردینا ضروری نہیں بلکہ جبر کا دائرہ پھیلتے پھیلتے بعض اوقات زنداں سے باہر زندگی کرتے اذہان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اس کتاب کی علامتی سطح ہمارے موجود کی عمومی کیفیت پر ایک ایسا سوال تھی، جس کا جواب شاید ہم سے کسی کے پاس موجود نہیں کہ یہ کتاب ہماری محدود ہوتی آزادی اور عالمی استعماراتی قوتوں کی ہر لمحہ نمود کرتی پیش قدمی کا ایک بلیغ استعارہ تھی۔ مگر صابر ظفر نے اسی پر بس نہیں کی۔ اس نے صرف مریض کی نبض ٹٹولنے ہی کو کافی نہیں سمجھا’’ گردشِ مرثیہ‘‘ میں اس نے علامت اور استعارے کو تج کر براہِ راست اظہار کی روش کو اپنایا، جس کا دوسرا قدم ’’ لہو سے دستخط‘‘ ہے۔ ایسا کرنا کچھ آسان نہ تھا کہ ایک شاعر کے لیے استعارے سے حقیقت کی منزل پر اترنا ایک طرح سے اپنے رومانوی تاثر کو مسخ کرنے بلکہ مٹانے کی طرح ہے، جس سے اس کے تمام تر شعری سفر کے معدوم ہونے کا راستہ نکلتا ہے مگر صابر ظفر نے کسی خطرے کی پروا کی ہے نہ اپنے غزل گو اور نرم خو ہونے کے پرلطف تاثر سے محروم ہونے سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی اپنے شعری سفر کی معدومیت کے ڈر کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ کیونکہ وہ اور اس کی شاعری کسی نوع کی دائمیت کی طلبگار ہے نہ کسی طرح کی معدومیت کے خوف سے ہراساں۔ وہ بلھے شاہ کی طرح ’’ آئی صورتوں سچا‘‘ ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔

’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ کا فکری حوالہ ہمارا بلوچستان ہے۔ میں نے جب تک بلوچستان کو گھوم پھر کر نہیں دیکھا تھا، میں اس درد اور رنج کو محسوس کرنے سے عاری تھا جو اپنوں کے ہاتھوں زخم کھا کر کسی قوم کی نفسیات کا حصہ بنتا ہے۔ بلوچستان اور اب شاید جنوبی پنجاب بھی ایک ایسا سلگتا ہوا خطہ ہے، جس کی آگ کو بیرونی طالع آزمائوں اور اندرونی ہوس پرستوں نے ہر لمحہ ہوادی ہے۔ اس قدر کہ اس کی تپش اب ایوانِ اقتدار کے درودیوار تک آپہنچی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ایک خوش گو شاعر کے کلام تک۔

نادر شاہ عادل نے ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ کے پیش لفظ میں کیا خوب لکھا ہے کہ مزاحمتی شاعری کے باب میںبلوچستان اور اس کے شہیدوں کے لیے صابرظفر کی شعری تخلیق ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ بلوچستان کا شعری آشوب ہے۔ تنِ داغ داغ کی روح فرسا کہانی ہے۔ ایک داستانِ خونچکاں اور معروضی محاکمہ ہے، جو ستم شعار آمروں اور بزدل و مصلحت کش جمہوری حکمرانوں کے نظمِ حکمرانی کے جبرو استبداد کا کچا چٹھا ہے۔ ان بے نوا صحرانشینوں کا نوحہ ہے، جو رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے۔ میں اس پر صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ’’ لہو سے دستخط‘‘اور اب ’’شہادت نامہ‘‘اس امر کی فکری دلیل ہے کہ جبر و استبداد کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں اور اس آگ کی لپٹیں اب ہماری روحوں کو جھلسانے لگی ہیں۔

صابر ظفر آتش مزاج ہیں یا نہیں۔ میں نہیں جانتا مگر ان کی غزل کا مزاج ہر لمحہ آتشیں ہورہا ہے۔ یہ شاعر کی کایا کلپ کا مسئلہ نہیں ایک خطے کی کایا کلپ ہوتے چلے جانے کی علامت ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ امر ہر گز ہرگز خوش کن نہیں کہ اس سے ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور ناداری کے ساتھ ساتھ ہماری یکجہتی اور آزادی کے پارہ پارہ ہونے کی خبر بھی ملتی ہے جو اپنی جگہ پر روح فرسا اور حزینہ کیفیت کے فروغ کا استعارہ ہے۔ کاش صابر ظفر کے ’’ شہادت نامہ‘‘ کے بعد اربابِ اختیار کی آنکھیں کھل جائیں اور من و تو کی یہ خلیج مٹ سکے۔

’’گردشِ مرثیہ‘‘سے ’’ شہادت نامہ‘‘ تک کی شاعری کا جغرافیائی خطہ بلوچستان ہے۔ اگرچہ صابر ظفر نے ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ میں سرائیکی، ’’ اباسین کے کنارے‘‘ میں خیبرپختون خواہ اور ’’ رانجھا تخت ہزارے کا‘‘ میں مرکزی پنجاب کی فکری روایت اور ثقافت کو موضوع بنایا ہے مگر اس کی نوعیت جمالیاتی ہے اور اس سے ان خطوں کے بارے میںایک اسرار بھری یگانگت کا تاثر ابھرتا ہے مگر بلوچستان کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور جدوجہدِ آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی یہ تین کتابیں جنہیں شاید Trilogy کہنا مناسب نہ ہو ، ایک ہی آزار کا پتا دیتی ہیں، جسے شاید ’’ بلوچ المیہ‘‘ کا نام دینا درست ہو۔ یہ شاعری کا نہیں، شاعری سے آگے کا معاملہ ہے اور خود شاعر بھی اس امر سے نا آگاہ نہیں:

جو ہے بات کہنے والی، وہ ہے شاعری سے آگے
سنو ان کہی سے آگے، چلو سرکشی سے آگے
سبھی جہد کار میرے، سبھی جاں نثار میرے
تمہیں صبحدم ملیں گے، شبِ زندگی سے آگے

یہ دو شعر تو میں نے اپنی بات کی تائید میں درج کیے وگرنہ میں اس کتاب سے یہاں اشعار درج کرتے چلے جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ میرے خیال میں ’’ شہادت نامہ‘‘ غزل کا مجموعہ ہوتے بھی کچھ اس کے سوا بھی ہے۔ دراصل ’’ گردشِ مرثیہ‘‘، ’’ لہوسے دستخط‘‘ اور ’’شہادت نامہ‘‘ ایک خیال کی کڑیاں اور ایک وجود میں سمٹی کتابیں ہیں۔ اس نوع کی پہلی کتاب غالباً ’’ عناصر‘‘ تھی، جسے مظفر علی سید نے نظم سے قریب تر قرار دیا تھا اور اس لہجے کی برقراری کو ضروری قرار نہیں دیا تھا۔ کچھ ایسا ہی میرا خیال اس کتاب کے حوالے سے ہے کہ میں اسے ناانصافی اورجبر کی شدت کو للکارتی صدا سمجھتا ہوں، جس کی تندی بلوچستان کی آہستہ خرام اور ذات مست کاریزوں کے برعکس ایک تند مزاج دریا کی سی ہے، جس کا تھم جانا لازم ہے۔ مگر یہ دریا شاید تھمنے کا نہیں اور بلوچستان میں امن، انصاف اور خوشحالی کے قدم پڑنے تک اسے تھمنا بھی نہیں چاہیے۔

صابر ظفر نے جس لسانی تجربے کا آغاز ’’ سانول موڑ مہاراں‘‘ سے کیا تھا۔ اس کی ایک مثال ’’ شہادت نامہ‘‘ بھی ہے۔ ’’ گردشِ مرثیہ‘‘ ،’’ لہو سے دستخط‘‘ اور اب ’’ شہادت نامہ‘‘ اس لحاظ سے بھی اہم کتابیں ہیں کہ یہ غزل کی زبان اور لہجے کے حوالے سے ہمارے روایتی تصور کو ردّ کرتی ہیں۔ جہاں شاعر برتی ہوئی مانوس لفظیات کو برتنے میں تحفظات کا شکار ہو، وہاں لسانی حوالے سے غیر مروج اور ایک خاص خطے سے مخصوص لفظیات کا استعمال میں لانا اور اسے اپنے جمالیاتی عمل کا حصہ بنانا کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ کام کوئی جرات مند شاعرہی انجام دے سکتا تھا اور صابر ظفر نے اس عمل کو تسلسل سے جاری رکھ کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ شعری مکاشفے کی حقانیت کو بڑھاوا دینے میں وہ کس قدر جرات مند اور بے خوف ہے۔

توں کا انتخاب کیا ہے جس ãḻ


متعلقہ خبریں


27 ویں ترمیم بنیادی حقوق پر ڈرون حملہ، جمعہ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان وجود - بدھ 19 نومبر 2025

جمعہ کی نماز میں ہم سب اس ترمیم کی مذمت کرینگے،ہمارا قانون ہر اس چیز کی مخالفت کرتا ہے جو اسلام کیخلاف ہو، ترمیم نے قانون کو غیر مؤثر کر دیا،ہر کوئی سیاہ پٹیاں باندھے گا،اپوزیشن اتحاد ہم ایک بڑی اپوزیشن اتحاد کانفرنس بلا رہے ہیں جس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں گے، بدتمیزی نہیں ہ...

27 ویں ترمیم بنیادی حقوق پر ڈرون حملہ، جمعہ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان

کالعدم تحریک لبیک کے 23 ارب روپے سے زائدکے اثاثے منجمد وجود - بدھ 19 نومبر 2025

92 بینک اکاؤنٹس سمیت تمام ڈیجیٹل اکاؤنٹس جام کر دیے گئے، 9 فنانسرز کے خلاف مقدمات درج ، ٹھکانوں سے جدید اسلحہ، گولیاں، بلٹ پروف جیکٹس اور دیگر سامان برآمد ، ترجمان پنجاب حکومت دیگر صوبوں میں کارروائی کیلئے وفاق سے درخواست کرنے کا فیصلہ،سوشل میڈیا پر ملکی سلامتی کیخلاف مواد پر...

کالعدم تحریک لبیک کے 23 ارب روپے سے زائدکے اثاثے منجمد

فارم 47کی حکومت کو آئین میں ترمیم کرنے کا حق نہیں، حافظ نعیم وجود - بدھ 19 نومبر 2025

28ویں 29 ویں اور 30ویں ترامیم کے بعد حکمران قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے ترامیم ملک و قوم کیلئے نہیں چند خاندانوں کے مفاد میں لائی گئیں،میٹ دی پریس سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت 27ویں ترمیم کی گونج ہے، اس کے بعد 28ویں 29 وی...

فارم 47کی حکومت کو آئین میں ترمیم کرنے کا حق نہیں، حافظ نعیم

کراچی میں بے ہنگم ٹریفک کی ذمہ دار صوبائی حکومت ،آفاق احمد وجود - بدھ 19 نومبر 2025

موٹر سائیکل سواروں کابھاری چالان ظلم ،دھونس ، دھمکی مسئلے کا حل نہیں،جرمانوں میں کمی کی جائے ہیوی ٹریفک چالان اور بندش احسن اقدام ، لیکن یہ مستقل حل نہیں،چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ مہاجر قومی موومنٹ (پاکستان) کے چیئرمین آفاق احمدنے کہا کہ کسی قانون کا بننا اور اسکے نفاذ کا طر...

کراچی میں بے ہنگم ٹریفک کی ذمہ دار صوبائی حکومت ،آفاق احمد

حکومت کو گرانا ہے ورنہ پاکستان ڈوب جائیگا،اپوزیشن اتحاد وجود - منگل 18 نومبر 2025

نئی تحریک شروع پارلیمنٹ نہیں چلنے دینگے،حزب اختلاف کی نئی تحریک کا مقصد موجودہ حکومت کو گرانا ہے،حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہی ہے عوام کی بالادستی ہونی چاہیے تھی،محمود خان اچکزئی حکومت نے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تو پھر بیٹھ کر اس کا علاج کریں گے ،تحریک اقتدار کیلئے نہیں آئین...

حکومت کو گرانا ہے ورنہ پاکستان ڈوب جائیگا،اپوزیشن اتحاد

سندھ میںنیا صوبہ بنے گا ایم کیو ایم وجود - منگل 18 نومبر 2025

پیپلزپارٹی نے بلدیاتی بل پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی، بلدیات سے متعلق ترمیم آئے گی اور منظور ہوگی، کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اسے چارہ نہیں دو گے تو کیسے چلے گا،مصطفیٰ کمال ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے بلدیاتی نظام سے متعلق ب...

سندھ میںنیا صوبہ بنے گا ایم کیو ایم

تحریک عدم اعتماد کامیاب، فیصل ممتاز راٹھور نئے وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب وجود - منگل 18 نومبر 2025

36 اراکین نے فیصل ممتاز کے حق میں جبکہ 2 اراکین نے مخالفت میں ووٹ دیا پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ سولہویں وزیراعظم ہوں گے،حلف آج بروز منگل متوقع تحریک عدم اعتماد کامیاب، فیصل ممتاز راٹھور نئے وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب ہو گئے۔آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں اراکین کی تعداد 54...

تحریک عدم اعتماد کامیاب، فیصل ممتاز راٹھور نئے وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب

وزیراعظم کا شالیمار ایکسپریس کی اپ گریڈیشن کا افتتاح وجود - منگل 18 نومبر 2025

وفاقی حکومت ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں کی اپ گریڈیشن کو یقینی بنائے گی،شہباز شریف وزیر ریلوے حنیف عباسی نے اپنی کارکردگی سے مخالفین کے منہ بند کردیے،تقریب سے خطاب (رپورٹ: افتخار چوہدری)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ریلوے کی ڈیجیٹائزیشن اور جدید سہولیات کی فراہم...

وزیراعظم کا شالیمار ایکسپریس کی اپ گریڈیشن کا افتتاح

حسینہ واجد کی سزائے موت دنیا کیلئے عبرت ناک سبق ،حافظ نعیم وجود - منگل 18 نومبر 2025

بھارتی پروردہ نے اقتدار کے پندرہ برسوں میں جھوٹے مقدمات کی سیاست کو فروغ دیا عدالتی فیصلوں کو انتقام کا ہتھیار بنایا اور فسطائیت پر مبنی طرزِ حکمرانی اپنائی،ردعمل کا اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے حسینہ واجد کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے پر اپنے ردعمل...

حسینہ واجد کی سزائے موت دنیا کیلئے عبرت ناک سبق ،حافظ نعیم

ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے،فضل الرحمان وجود - منگل 18 نومبر 2025

مسئلہ فلسطین پر پاکستان اور بنگلا دیش کے مسلمانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں مسئلہ فلسطین پر امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق ہے، فلسطین کانفرنس سے خطاب امیر جے یوآئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے۔مسئلہ فلسطین پر امت مسلمہ میں اتحاد و ...

ہم نے حکمرانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے،فضل الرحمان

جنگ مسلط کرنیوالوں کو مئی جیسا جواب ملے گا، فیلڈ مارشل وجود - پیر 17 نومبر 2025

پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی طرح جواب دیں گے جیسے مئی میں دیا تھا،بھارت کیخلاف جنگ میں جذبہ ایمانی سے فتح ملی ، اللہ کے حکم کے مطابق فرائض کی انجام دہی کرتا ہوں جس طرح نبی کریم ﷺکو اللہ نے کامیابی دی، اسی طرح ہمارے لوگوں کو کامیابی دی، جنرل عاصم منیر کا ایوان ص...

جنگ مسلط کرنیوالوں کو مئی جیسا جواب ملے گا، فیلڈ مارشل

بشریٰ بی بی کے بیٹے موسیٰ مانیکا کوگرفتار کرنے کا حکم وجود - پیر 17 نومبر 2025

معمولی تنازع کے دوران گھریلو ملازم پر تشدد کے کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری موسیٰ مانیکا کو 19 نومبر کو عدالت میں پیش کیا جائے،جج کا پاکپتن صدر پولیس کو حکم خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے چھوٹے بیٹے موسیٰ مانیکا کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔رپورٹ کے مطابق موسیٰ مانیکا 17 جول...

بشریٰ بی بی کے بیٹے موسیٰ مانیکا کوگرفتار کرنے کا حکم

مضامین
دہلی دھماکہ: اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف وجود بدھ 19 نومبر 2025
دہلی دھماکہ: اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف

کیڈٹ کالج پرحملہ اور افغانستان وجود بدھ 19 نومبر 2025
کیڈٹ کالج پرحملہ اور افغانستان

ہندوتوا بیرون ملک پنجے گاڑ رہی ہے! وجود منگل 18 نومبر 2025
ہندوتوا بیرون ملک پنجے گاڑ رہی ہے!

اقبال کے شاہین کی زندہ تصویر وجود منگل 18 نومبر 2025
اقبال کے شاہین کی زندہ تصویر

بہار الیکشن ۔ہندوتوا نظریہ کی جیت ۔مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیاں وجود پیر 17 نومبر 2025
بہار الیکشن ۔ہندوتوا نظریہ کی جیت ۔مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیاں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر