وجود

... loading ...

وجود
وجود

شوپیان میں ایک اورقیامت برپا

هفته 17 مارچ 2018 شوپیان میں ایک اورقیامت برپا

اس سانحہ میں دو ’’مجاہدین‘‘جبکہ چار سوئلین شہید ہو گئے ۔اس طرح اور چھ نوجوان اس چھوٹی سی قوم کے قتل کیے جا چکے ہیں ۔قوم کے رگ و پے میںقوموں کی بے بسی کے اسباب بہت سارے ہوتے ہیں مگر ہمارا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم ابھی تک نا ہی ایک قوم ہے نا ہی اُمت !ہم بکھرے ہوئے وہ پروانے ہیں جنہیں اس چراغ کا بھی پتہ نہیں ہے جس کے گرد ایک پروانہ زندگی کی بہاریں نچھاور کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ان جانوروں کی طرح مارے جا رہے ہیں جنہیں دوسروںکے کھونے کا غم چند لمحات تک تو ضرور ہوتا ہے مگراس کے بعد وہ کھانے پینے میں مصروف ہو کراپنوں کے کھونے کا غم تک بھول جاتے ہیں ۔گذشتہ تقریباََ ڈھائی سو سال سے کشمیریوں پر ہر پچاس یا سو سال کے بعد کوئی نہ کوئی آکر حکومت کرتا ہے ۔ مزے لوٹنے کے بعد وہ چلا جاتا ہے مگر دوسرا آکر پھر ’’باپ داداؤں کی جاگیر ‘‘پرآکر اگلوں سے زیادہ وحشت ناک مظالم ڈھا تا ہے اور ہم اس امید میں جینے کا پھر حوصلہ کرتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمیں ان مظالم سے نجات تو مل ہی جائے گی ۔مگر ہر بار یہ تاریک رات مزید سیاہ ہوگئی اور ہم پھر ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ۔ہماری اجتماعی سوچ ’’قتلِ عام‘‘روکنے پر متفق ہونی چاہیے تھی مگر المیہ یہ ہے کہ دلی میں براجمان چند ٹی وی اینکرس کی طرح ہم خود بھی اس ’’ماراماری‘‘کی تاویل کر کے آپ اپنے ضمیر کو مطمئن کر کے بدترین دھوکے میں رہنا چاہتے ہیں اور جب ایک قوم کو یہ بیماری لگ جائے تو اس کی مال و جان کے تحفظ کی ذمہ داری کوئی دوسرا کیوں اٹھائے ؟

جموں و کشمیر میں عسکریت کے بہانے 1990ء سے جاری قتل عام میں ہم اب تک ایک لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں مارے جانے کے باوجود اس کے روکنے پر متفق نظر نہیں آتے ہیں ! اس میں اہم رول تو بھارت نواز مین اسٹریم کا تو بنتا تھا مگر وہ زبانی جمع خرچ کے سوا اگر کچھ کر بھی پاتے ہیں تو بس اتنا کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مراعات اور جائدادیں حاصل کر کے سات نسلوں تک عیاشیوں کا سامان مہیا رکھے جائیں اور بس۔نہیں تو قوم پرستی کے لباس میں ملبوس یہ حضرات کیوں اس نازک مسئلے پر اتنے غیر سنجیدہ ہیں ؟ یہاں روز جنازے اٹھتے ہیں اور روز ماؤں کی گود اُجڑتی ہے یہ جنازے انہی علاقوں سے اٹھتے ہیں، جہاں سے مین اسٹریم کے لوگ اسمبلیوں میں نمائندگی کا دعوی لیکر پہنچتے ہیں ،مگر المیہ یہ کہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود یہ لوگ اطمینان کی نیند کیسے سوتے ہیں ایک ناقابل یقین تصور ہے ۔یہ جس طرح سارا ملبہ دلی پر گرا کر اپنا دامن بچا لینے کی ناکام کوشش کرتے آئے ہیں اُ س میں ایک وقت تک انہیں فائدہ تو مل رہا تھا مگر اب صورتحال بالکل بدلتی جا رہی ہے ۔اس نئی صورت حال میں قوم کے ساتھ یہ صرف تب کھڑے نظر آتے ہیں جب اقتدار کی دیوی انہیں اپوزیشن کی کرسیوں پر بٹھاتی ہے نہیں تو انہیں اس بات کا ذرا برابر غم نہیں ہوتاہے کہ قوم مرے یا جئے اور بھارتی غلبے کے ستر برس میں آپ کو اسے کچھ بھی مختلف نظر نہیں آئے گا ۔عسکریت پسند نوجوانوں کا مارا جانا یہاں سرے سے اب کوئی اشو ہی نہیں رہا ہے گویا کہ یہ سب بالکل جائز اور مناسب ہے اور وہ اسی کے سزاوار ہیں ۔چندروزہ زبانی کلامی ہنگامہ اگر ہوتا بھی ہے تو بس اس بات پر کہ کوئی غیر عسکر ی مرد یا عورت جاں بحق ہو جائے ۔وہ بھی اس حد تک کہ ہلاکت کے بعدمذمت،انکوائری ،خاموشی،فراموشی اورامن کی واپسی کی جھوٹی امید اور بات ختم ۔

جہاں عوام الناس کے لیے’’ثابت شدہ کمزور ترین ریاست ‘‘کا حال یہ ہو کہ وہ اُن خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنے سے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہوتی ہو جن کو بے نقاب کرنے سے ریاست کے برعکس غلط کار افراد بے نقاب ہوجائیں وہاں کُنن پوشہ پورہ جیسے ناقابل فراموش جرم کو بے نقاب کرنے کی ہمت حکومت کیسے کر سکتی ہے ؟سینکڑوں ایف،آئی،آرز پر تشکیل شدہ کمیشنز کی فائلیں اب کہاں ہیں اور کن الماریوں میں دھول چاٹ رہی ہیں کسی کو کوئی خبر نہیں ہے ! اس بے اعتباریت کی پورے طور پر ذمہ دار یہاں کی مفلوج انتظامیہ ہے جو خوف میں مبتلا رہ کر کچھ کرنے سے اپنے آپ کو معذور محسوس کرتی ہے ۔اور وہ بڑے سے بڑے حادثے پر بھی ایک عدد بیان دینے کے بعد اپنے آ پ کو بری الذمہ سمجھتی ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور مین اسٹریم اپوزیشن کو حریت کانفرنس کی صف میں کھڑا ہو کر ان سانحات کی مذمت کرنے کے بعد نئے حادثے کے انتظار کرنے کاکیا حق ہے جبکہ وہ اسی ریاست کے کل پرزے ہیں جو ’’افسپا کی بے رحم تلوار‘‘کو آپ ہی کی سفارشات پر اس قوم پر سونت چکی ہے ۔عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے یہ حضرات دن رات صرف بیانات ہی کو اتنے بڑے انسانی المیوں کے لیے کافی سمجھتے ہیں ۔ریاست جموں و کشمیر میں مسلم آبادی 1947ء سے برابر نشانے پر ہے پہلے اس کے لاکھوں فرزندوں کو سن سنتالیس میں قتل کیا گیا اورپھر پاکستان اور بھارت کے بیچ جنگوں اور ہزاروں سرحدی جھڑپوںمیں بے دریغ اور بے حساب مارا گیا اور1990ء سے گویا اس کو مارنے کا لائسنس فراہم کیا گیا ہو ۔بین الاقوامی برادری اپنے تجارتی مفادات کو لیکر خاموش ہے اور مسلم دنیا اپنے مسائل میں اس حد تک پھنس چکی ہے یا پھنسائی گئی ہے کہ اس کو باہر کا ہوش بھی

نہیں ہے ۔خود بھارت کے اندر اس کے خلاف آواز اس لیے بلند نہیں ہوتی ہے کہ بھارتی میڈیا نے پورے ملک کی آبادی کا ذہن کشمیری مسلمانوں کے خلاف زہر آلودہ بنا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب عرصہ سے کشمیریوں کے خاموش قتل عام کے برعکس کھلے عام قتل عام کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور فوج کو کھلی چھوٹ کے بجائے اب مکمل چھوٹ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آتا ہے لہذا اندرون ملک بھی صورتحال کشمیری کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ،ایسے میں لے دے کے خود کشمیری ہی رہ جاتے ہیں جن کی لیڈر شپ کو اس انسانی المیہ کو روکنے پر فوری توجہ دینی چاہیے اس لیے کہ کشمیری قوم ایک چھوٹی سی قوم ہے جن کے ایک لاکھ انسانوں کا صرف تیس برس کے عرصے میں قتل ہو جانا کمر توڑنے دینے والی صورتحال ہے ۔ اس المیہ کے خطرناک اثرات ہمیں مستقبل قریب میںمتاثر کر سکتے ہیں پھر جب مطالبہ حق خود ارادیت کو ہو تو معاملات کو سرسری طور پر لینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ (ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر