وجود

... loading ...

وجود
وجود

تقدیر۔تدبیر۔رضا

جمعه 16 مارچ 2018 تقدیر۔تدبیر۔رضا

تدبیر اور تقدیر دونوں کا سفر ساتھ ساتھ چلتا ہے جب تدبیر اختیار کی جاتی ہے تو تقدیر کے کئی پہلو تدبیر کے ہمنوا بن جاتے ہیں تدبیر ایسے پھول کی مانند ہے جو تقدیر کے جلو میں ہی پنپتی ہے لیکن تقدیر کو نئے آہنگ سے آشنا کروا دیتی ہے اور تدبیر اور تقدیر کے معاملات ایسے ہوجاتے ہیں کہ خالق مخلوق کی اپنائی ہوئی تدبیر کو ہی تقدیر کا درجہ دئے دیتا ہے ۔خوبصور ت سے خوبصورت شے جب گندگی میں گر تی ہے تو اُس کے اردگرد گندگی لگ جاتی ہے۔ بے شک وہ گندگی بعد میں اُتر جاتی ہے۔ لیکن اُس گندگی کا جتنا وقت اُس شے کے ساتھ گزرا ہوتا ہے وہ اُس خوبصورت شے کو بھی کسی حد تک آلودہ کر دیتا ہے خوبصورت شے کی خوبصورتی پر بھی اُنگلیاں اُٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ یوں خوبصورتی کا محور شے کسی طور بھی اُتنی پاکیزہ نہیں گردانی جاسکتی جتنا وہ گندگی میں گرنے سے پہلے تھی۔ لیکن خالق کا اپنے بندئے سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ کہتا ہے جب کافر مرنے بھی لگے اور کلمہ پڑھ کر رب کی واحدنیت کا اقرار کرلے تب بھی وہ اُسے بخش دیتا ہے۔حالانکہ اُس کی ساری زندگی کفر میں گزری ہوتی ہے۔بندے اور خالق کا تعلق اتنا محبت سے بھرپور ہے کہ خالق کفر کی حالت میں کیے گئے اُس کے سارئے گناہ معاف کردیتا ہے۔بندہ خالق کا نائب جو ہے۔ ایک رب کی وحدانیت کا اقرار کافر کو وہ سفر طے کروا دیتا ہے جو کہ بڑا کٹھن ہے۔

بندے کے ساتھ رب کی محبت اتنی عظیم ہے کہ بندہ رب کی رحمتوں کا شمار نہیں کر سکتا۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے رب کے بندوں سے پیار کرنا سیکھ جائیں کیونکہ رب تو بندئے سے بے انتہا پیار کرتا ہے۔ وہ سب کا رازق ہے وہ بلاتخصیص رنگ و ملت و مذہب سب کو روزی عطا کرتا ہے جو اُس کو مانتے ہیں اُن کو بھی دیتا ہے اور جو نہیں مانتے اُن کو بھی دیتا ہے۔ہر انداز اور عمل کا جو بھی ردِ عمل پیدا ہوتا ہے وہ خالق کی ہی رضا بنتا چلا جاتا ہے ۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ خالق اور مخلوق کے رشتے میں کتنی محبت ہے کہ خالق اپنے بندئے کی رضا کو اپنی رضا بنا لیتا ہے۔ محبت کا یہ سفر بندئے اور خالق کے درمیان اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ خالق بندے کی دعا کو رد نہیں کرتا بلکہ لوحِ تقدیر پہ لکھا ہوا بھی بدل دیتا ہے ۔ بندئے کی رب کے ساتھ محبت کا یہ عالم کہ بندہ خود کو فراموش کر دیتا ہے اور اپنی ایک ایک خواہش کو اپنے خالق کی رضا پہ قربان کر دیتا ہے ۔ بندہ پھر خاکی اور نوری کے سفر سے نکل جاتا ہے نہ ہی وہ حیات اور ممات کا محتاج رہ جاتا ہے۔خالق اُس کی روح کی حقیقتوں کو جب اُس پر آشکار کرتاہے تو پھر اِس دنیا یا اُس دنیا میں فرق صرف ایک سفر کا ہی رہ جاتا ہے۔ تب بندئے کو صوفی کہہ لیا جائے ولی کہہ لیا جائے ۔ اللہ کا دوست کہہ لیا جائے۔ ایک ہی بات ہے۔ دُکھ کو سُکھ بُھلائے اور درد کو چین بدی کا مداوا نیکی سے ہوتا ہے نفرت کو محبت مٹا دیتی ہے خالق کی محبت روح میں نیا جہاں بسا دیتی ہے خالق کے بندوں کی محبت عبد ہونے کا احساس دلادیتی ہے محبت امن محبت سُکھ، محبت چین محبت لازوال روح لازوال محبت کا مسکن روح روح کو موت نہیں آتی محبت کو بھی موت نہیںآتی۔

دل اپنا ہی اپنے اختیار میں نہیں اُس سے شکوہ عبث ہے پہلے خود سے تو کچھ منوا لوں پھر اُس کی جانب نگاہ جائے عشق کی راہ کا سفر انوکھا ہے وہ عشق ہی عشق ہے جس میںمن اور تن ایک جیسا ہو جائے۔عشق کی جیت ہر حال میں ہی ہے وصل بھی کامیابی ٹھرا ہجر بھی کسی امتیاز سے کم نہیںعشق کی جیت تو ہر حال میں ہی ہے کتنا اعزاز بخشتا ہے یہ عشق اِس کی حقیقت ہر حال میںبقا ہی بقا، وفا ہی وفا۔خواب ادھورئے کس کام کے جب راہوں کا تعین ہی نہ ہو تب منزلِ مراد کی کیا حقیقت اِس گورکھ دھندے سے نکلنا نہ یا نکلنا بے معنی ہے خود کی پہچان ہوئے بغیر ۔قبر کا تصور اُس وقت کیا جائے جب اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیاں منائی جارہی ہوں۔ جب اپنے گھر میں سکون کے ساتھ محو خواب ہو۔جب ساری حیاتی کا حاصل سمجھی جانے والی منزل مل جائے تو اُس وقت جب ابدی گھر پکار رہا ہو اور انسان یہ سوچے کہ بس میں نے اب قبر میں اُتر جانا ہے۔تب زندگی کی بناوٹی خوشیاں کتنی پھیکی پڑ جائیں ۔ شائد تب زندگی کے ہونے یا نہ ہونے کا مطلب بھی سمجھ میں آجائے۔ صوفیاء کے ہاں تو زندگی کا مقصد صرف ایک سفر ہے۔جس لمحے سورج کی کرنیں خالق کا پیغام کائنات میں بکھیرتی ہیں کوئل کی من بھاتی آواز خالق کی خدائی میں رنگ بھرتی ہے جب چاند اندھیری گُھپ رات میں ٹم ٹماتا ہے جگنو بھی اِس روشنی کا ننھا مسافر ہوتا ہے اِن لمحوں میں بندئے ا مانگتے ہیں کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں جو اپنے لیے سب کچھ خالق سے ہی طلب کرتے ہیں۔تدبیر اور تقدیر کے سفر میں بندے اور خالق کی رضا تب ایک ہی بن جاتی جب بندہ بندگی کے پیمانے پہ پورا اُترتا ہے۔بندگی پہ پورا اُترنا اتنا مشکل نہیںہے بس جو خالق کی رضا اُس کو بندہ اپنی رضا بنالے۔ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہی ہے کہ بندہ خالق کا قُرب پاسکتا ہے لیکن اُس کے لیے اتنی سے بات ہے کہ خالق کے بندوں کا قُرب حاصل ہوجائے۔ یہ ہی اللہ کے نیک بندوں کا دستور ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مغربی فلسفہ و تہذیب اور مسلم امہ کا رد عمل وجود هفته 20 اپریل 2024
مغربی فلسفہ و تہذیب اور مسلم امہ کا رد عمل

مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر