وجود

... loading ...

وجود
وجود

آخری قسط۔۔۔ متناسب انتخابی نظام… موجود حالات کا تقاضا

پیر 12 مارچ 2018 آخری قسط۔۔۔ متناسب انتخابی نظام… موجود حالات کا تقاضا

یہاں المیہ یہ ہے جس کی بناء پراصل مسائل کا تریاق نہیں ہو پاتا۔جب اقتدار کی مسند پرفائز لوگ حقیقی عوامی حما یت یافتہ نہ ہوں تو پھر عوام کے مسائل بھی اُن کی زبا ن پر نہیں ہوتے اور ضمیر نا م کی چیز بھی اُنہیں ملا مت نہیں کرتی۔پاکستان میں ایسی کئی سیا سی پارٹیا ں ہیں جن کی عوام میں نفوذپزیری قابل قدر ہے کہ لیکن اسمبلی میں اُن کی آواز نہیں پہنچ پار ہی ہے۔یااگر اُن کو سیٹیں ملتی بھی میں تو بہت کم ۔اس حوالے سے پاکستا ن عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری نے کا فی عرصہ سے آواز بلند کررکھی ہے کہ انتخابی نظام بدلا جا ئے۔وطن پاک میں سیا سی جماعتوں میں ڈاکڑ طا ہرالقادری کی جما عت عوامی تحریک،مو لا نا فضل الرحمان کی جما عت جمعیت علما ئے اسلا م (ف) جما عت اسلا می، مولا نا سیمع الحق کی جما عت جمعیت علما کے اسلا م (س)مولاناشاہ احمد نورانی صاحب مرحوم کی جمعیت علما ئے پاکستان، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم مرحوم کی جمعیت علمائے پاکستان،اسی طرح پاکستان سُنی تحریک عمران خان کی تحریک انصاف، انجمن طلبہ اسلام کے سابقین کی جماعت پاکستان فلاح پارٹی، تحریک لبیک پاکستان وغیرہ یہ وہ سیاسی قوتیں ہیں اکہ اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن ہوں تو پھر پورے پاکستان میں کا سٹ ہونے والے ووٹوں کی بنیاد پر یہ جماعتیں اسمبلی میں پہنچ کر اپنا مثبت کردار اِدا کر سکتی ہیں۔اور وفاق کی مضبوطی میں اہم پیش رفت بھی اس طرح ممکن ہے۔

جما عت اسلامی گزشتہ نصف صدی سے انتخابی سیاست میں ہے لیکن اسے جب بھی اسمبلی میں نشستیں ملی ہیں اُس کے لیے اِسکو نواز لیگ کا سہارا لینا پڑا یا جنرل ضیا ء الحق کی آشیر با دحاصل تھی حالا نکہ متنا سب نمائندگی کی بناء پر جماعت اسلامی کی قوت مجتمع ہوسکتی ہے اور نشستوں کی تعداد بھی زیا دہ ہوسکتی ہے۔یہ ہی حال جے یوپی کا ہے پورے ملک میں اسکے چاہنے والے بے شمار ہیں لیکن اس وقت اس کی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی )کے چا ہنے والے پورے ملک میں ہیں لیکن سوائے خیبر پختون خواہ کے اسکی عددی اکثریت کہیں نہیں ہوتی۔اِس نظام میں عوامی نیشنل پارٹی کو بھی تقویت حاصل ہوسکتی ہے۔اس نظام کے تحت بظاہر لسانی،مذہبی قوم پرستوں کے نشستیں لینے کے چانسز بن جاتے ہیں لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ یہ تمام گرو پ قومی دھا رے میں آکر وفاق کی بات کرنے پر مجبور بھی ہوسکتے ہیں اوروفاقی کی مضبوطی میں اپنا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔پاکستانی معاشرے کے کئی رنگ ہیں۔ اِس ملک کی نظریاتی اساس بھی اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر طبقے کو اپنی بات کہنے کا حق ملے لیکن یہ تو تب ہی ممکن ہے جب اِن کی آواز پارلیمنٹ میں پہنچ سکے۔ حقیقی مسائل کا ادراک تب ہی ممکن ہے جب حقیقی نمائندں پر مشتمل اسمبلیاں وجود میں آئے۔

بے روزگاری کے زخموں سے چور چور نوجوان نسل بے یقینی کی کیفیت میں اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔معاشی وسماجی ناانصافیا ں دہشت گردی،ڈاکے لوٹ مار کو جنم دی رہی ہیں ملک میں موجود اشرافیہ طاؤس رباب کی مدھ بھری تانوں پر تھرک رہی ہے اور ملک کے حقیقی نمائندہ عوام ظلم وجبرکی چکی میں پس رہے ہیں۔جس کو دیکھیں وہ پاکستان ٹوٹنے کی بات کررہاہے۔اِس بے چینی کی وجہ ہی یہ ہے کہ حقیقی

نما ئندگی حکومتی ایوانوں تک پہنچ نہیں سکی۔ پس اِس وطن کا وجود،خوش حالی،سماجی ومذہبی رواداری معاشی آسودگی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک نام نہاد جمہوریت پسند لیڈروں کے بجائے حقیقی عوامی نمائندگی کے حامل افراد قوم کی باگ دوڑ نہ سنبھال لیں۔اِس ملک میں دو پارٹی نظام نہ تو پنپ سکا ہے۔نہ کوئی چانس ہے۔اس وقت دُنیا کے تقریبا87ممالک میں متناسب نمائندگی کانظام رائج ہے۔ان ممالک میں ترکی،جرمنی،سری لنکا،سویڈ ن،سوئٹزر لینڈ، ساوتھ افریقہ،روس جیسے ممالک بھی شامل ہے ۔

چنداہم خرابیاں جوکہ موجودہ جمہوری نظام میں موجودہ ہیں۔
1۔95%عوام کو 5%طبقے نے یر غمال بنارکھا ہے
2۔مالی طور پر مضبوط اور بااثر افراد ہی اِس نظام میں الیکشن میں حصہ لے کر کا میابی حاصل کر سکتے ہیں۔
3۔الیکشن جیتنے کے لیے امیدوار خوب رقم لگاتے ہیں اور پھر اُس سے کئی گنا کر پشن کرتے ہیں۔
4۔عا م پڑ ھا لکھا باشعور آدمی جو معاشی طور پر اس قابل نہ ہوکروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ نہ کرسکتا ہو وہ الیکشن کے عمل سے باہر ہے۔
5۔بااثر افراد کی انتخا بات میں کا میابی سے پسے ہوئے طبقے کی آواز دب کررہ گئی ہے۔
6۔عوام کے حقیقی مسائل کیونکہ ان وڈیروں،سرمایہ داروں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اِس لیے اُن کو عوام کے درد کانہ کوئی احساس ہے اور نہ کوئی پرواہ۔
7ََ۔موجودہ جمہوری نظام نے فوج،سول بیوروکریسی اور وڈیرہ شاہی کی ایک مثلث قائم کررکھی ہے جس کی وجہ سے عوام کواپنی حالت بدلنے کے لیے خودہی اُٹھا ہوگا۔
8۔مختلف گروپوں،علاقائی پارٹیوں کی آواز موثر نہ ہونے سے وفاقی اور قومی یک جہتی کوخطرات لاحق ہیں۔بلوچستان میں لگی ہوئی آگ کی وجہ بھی یہی ہے کہ حقیقی عوام حکومت میں نہیں ہوتے۔
9۔موجودہ نظام کی وجہ سے جمہوریت لوٹ مار اور کرپشن کا نشان بن چکی ہے چند سال بعد ہی اِس نظام کے تحت منتخب حکومت عوام کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے،اور لوٖگ پھر تبدیلی کے لیے فوج کا راستہ دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔گھٹن کے ایسے ماحول میں فوج کو چا ر ونا چار حکومتی ایوانوں میں گھسناپڑتاہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان آرمی کو دُنیا کی بہترین پیشہ ورانہ فوج گردانا جاتاہے۔تو پھر ایسی فوج کو مجبور ا ً اگر ا قتدار میں آنا پڑتا ہے تو اِس کا مطلب صاٖف ہے کہ موجودہ انتخابی نظام ہما رے مسائل کا ادراک نہیں رکھتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر