... loading ...
ادب ایک آسمان ہے اس میں ہر ایک ستارہ اپنے حصے کی روشنی سے اس آسمان کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ کر رہا ہے۔اس میں ہر روز لاتعدار ستارے ہر شب نمودار ہوتے ہیں اور اپنے محدود وقت تک اپنی روشنی سے اہلِ زمین کو مستفید کرتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ایک ستارے کا وجود چھوٹاسا نظر آتا ہے اس کے باوجود اس کی موجودگی اپنے ہونے کا احساس اجاگر کرتی ہے۔ ستاروں کی روشنی سے ہی آسمان کی جاذبیت برقرار ہے۔ ستاروں کی حرکات سے مسافر اپنے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ جس طرح کہا جاتاہے کہ علم ایک سمندر ہے تو سمندر میں راستوں کی تلاش ستاروں کی جگمگاہٹ کی مرہونِ منت ہے۔آج ادبی آسمان کے ایک ایسے ہی درخشندہ ستارے کافن اور شخصیت میرا موضوع ہے۔
ارم زہراادبی فلک کا وہ ستارہ ہے جس کی ضوفشانی آسمان ادب کی خوبصورتی کو چار چاندلگا رہی ہے۔ ان کی شخصیت تہہ در تہہ ہے اور ہر تہہ اپنے اندر ایک بھر پور حوالہ رکھتی ہے۔ ناول نگار،افسانہ نگار،کالم نگار، کہانی کار اور شاعر ہ کی حیثیت سے ہر پہلو مکمل اکائی ہے۔ان کی تخلیقات میں جذبوں کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے ۔ان کی تحریر یں قاری کو فکروعمل کی دعوت دیتی ہیں۔ ان کا تعلق شعبہ تدریس سے ہے جس کا یہ پوری طرح حق اداکر رہی ہیں ۔ان کے کالموں میں تعلیمی مسائل کو احسن انداز میں اجاگرکیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ارم زہرا کے تین مختلف تخلیقی پہلوئوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ سب سے پہلے ان کے ناول ــ’’چاند میرا منتظر‘‘ پر روشنی ڈالی جائے گی ۔اس کے بعد کہانیوں کے مجموعے ‘‘میرے شہر کی کہانی ‘‘پر اظہارِ خیال ہو گااور سب سے آخرمیں ان کی شعرگوئی پر جائزہ پیش کیا جائے گا۔
’’چاند میرا منتظر‘‘ایسے کرداروں کہانی ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔ارم زہرا کے والدین کا تعلق لکھنؤ سے ہے شاید اسی لئے ان کے ناول میں لکھنؤی تہذیب کی چاشنی اور رکھ رکھائو نظر آتا ہے ۔کہانی میں زبان کی شگفتگی اور سلاست کا حسین امتزاج پیش کیا گیا ہے ۔ مصنفہ نے قدیم تہذیبی ورثے اور فکر جدید کے تغیرو تبدل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے نسل در نسل سوچ کے مدو جزر کو مختلف زاویوں سے قلم بند کیا ہے۔ ناول کا مرکزی خیال روزمرہ زندگی سے ماخوذ ہے ۔ اس میں ہر کردار ایک نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے ۔ ناول کے کردار قاری کو انگلی پکڑ کر اسے ایک ایسی وادی میں لے جاتے ہیں جہاں ہر قدم پر حیرت وہ انبساط کا منظر محوِ انتظار نظر آتا ہے۔
ناول پڑھتے ہوئے قاری کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ پردۂ سیمیں پر کرداروں کو چلتا پھرتا دیکھ رہا ہے۔ جہاں ایک منظر ختم ہوکر دوسر ا شروع ہوتا ہے وہاں کہانی کے تسلسل کو اس طرح مربوط کیا گیا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا دروازہ خود بخود ہی کھل جاتا ہے۔ رشتوں کے تقدس کو اس سلیقے سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر ایک کردار اپنے دائرے میں حرکت کرتاہے۔ جزویات نگاری میں ارم زہرا کو ایک خاص مہارت حاصل ہے ۔ انہوں نے ناول کو اس طرح پیش کیا ہے کہ 400صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود قاری اس کو ایک ہی نشست میں ختم کرنے کی جانب مائل ہونے لگتا ہے ۔ ناول کے کرداروں کو اس طرح کہانی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے کہ کوئی بھی کردار غیر ضروری نہیں لگتا۔
ناول میں جملہ بازی کو خاص اہمیت دی گئی ہے جس سے نہ صرف زبان کی تازگی نکھر کر سامنے آئی ہے بلکہ ارم زہرا کا زبان پر عبور حاصل ہونا بھی ظاہر ہو تاہے۔یہی سب خوبیاں کسی بھی تحریر کو مقبولِ عام کے مقام تک پہچانے میں سیڑھی کا کردار ادا کرتی ہیں۔یہ تمام حوالے ارم زہرا کو ایک بہترین ناول نگار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
اب ذرا کہانی کار ارم زہرا کا ذکر ہوجائے۔ ایک حقیقی قلمکار وہی ہے جواپنے قلم سے عصری مسائل کو سطحِ قرطاس پر لاتا ہے جب یہ آلام ومصائب اخبارات ،رسائل اور کتب کے صفحات پر ابھرتے ہیں تو کسی نہ کسی وسیلے سے اربابِ اختیار تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ قلمکار اِن مسائل کو زیر ِبحث لاکر معاشرے کے درد بانٹتا ہے۔
ارم زہرا کی تصنیف’’میرے شہرکی کہانی ‘‘در اصل پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں وقوع پذیر واقعات و حادثات کا احاطہ کرتی ہے ۔عروس البلاد کہلانے والا رو شنیو ں کا شہر تقریباًربع صدی سے آگ میں جل رہا ہے۔ کبھی ان واقعات کو لسانی رنگ دیا جاتا ہے تو کبھی فرقہ واریت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔لوگ کہتے تھے کہ کراچی ماں کی طرح ہے جو اپنے کسی بچے کو بھوکا نہیں سونے دیتی۔ وہی غریب پرور شہرآج شہرِ بے امان میں تبدیل ہو چکا ہے۔خدا کا شکر ہے آج کراچی کے مسائل حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔
ارم زہرا کی یہ کتاب امن کے ہاتھوں وقت کے دروازے پر دستک ہے۔ یہ کتاب ایسے وقت پر شائع ہوئی ہے جب تمام طبقات کراچی کے مسائل حل کرنے کی خاطر سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں ۔ان حالات میں ارم زہرا کی یہ کاوش روشنیوں کے شہر میں ایک شمع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ارم زہرا نے سچے واقعات کو رپورٹنگ سے زیادہ تخلیقی انداز میں رقم کیا ہے ۔ انہوں نے کہانیوں میں مسائل کی نشان دہی کی ہے اور کہانی جب اپنے اختتام کی حد چھونے لگتی ہے تو اس میں حل بھی تجویز کیا گیا ہے۔
مجھے اس کتاب پڑھ کر حیرت ہوئی کی ارم زہرا نے کرائم رپورٹنگ کو کس طرح افسانوی انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کے باوجود کہانی کا اصل واقعہ اور تحقیقی مواد پورے اہتمام کے ساتھ مہیا کیا ہے۔ اس طرح ارم زہرا نے نئے قلمکاروں کے لئے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ کرائم رپورٹنگ کو افسانوی انداز کا جامہ پہناناایک مشکل کام ہے جسے ارم زہرا نے آسانی سے کر لیا ہے ۔ میںپورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ارم زہرا ایک قدرتی قلمکار ہیں ۔ان کی سوچ کا زاویہ منفرد اور بلند ہے جو مقام انہوں نے حاصل کیا ہے وہ صرف ان کی جداگانہ سوچ کا مرہونِ منت ہے۔ ’’میرے شہر کی کہانی‘‘پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس کتاب کو ضبطِ تحریر میں لانے کے لئے انہوں نے خود کس کرب ناک راستے سے اپنا سفر طے کیا ہے ۔ جہاں ہر قدم پر پائوں کانٹوں سے اُلجھتے ہوں وہاں جہدِ مسلسل سے چلتے رہنا ایک کارنامے سے کم نہیں ۔انہوں نے ہر ایک کہانی کو تحریر کرتے ہوئے کئی دفعہ اپنی پلکوں کی منڈیر ٹشو پیپر سے خشک کی ہو گی۔
اب ارم زہر ا کی شعر ی تخلیقات کا ذکر ہوجائے۔ انہوں نے شعرگوئی کا آغاز نثر نگاری کے ساتھ ہی کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی پہچان نثرنگارکی حیثیت سے ابھی تک لوگوں کے سامنے آئی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ابتدا میں انہوں نے نثر نگاری کو زیادہ وقت دیا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے ار م زہرا تواتر کے ساتھ شاعری سے منسلک ہو چکی ہیں۔انہوں نے محض قافیہ پیمائی نہیں بلکہ ان کے شاعر ی دل سے نکل کر دل میں اُترجاتی ہے۔ انہوں نے غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے درمیا ن ایک توازن کے ساتھ اپنا شعری سفر جاری رکھا ہواہے۔ شعری اصناف میں غزل اور نظم دونوں کی جانب ان کا رحجان یکساں نظر آتا ہے۔
ارم زہرا کی غزل اپنے دور کی نمائندہ ہے جس میں گل وبلبل اور لب ورخسار کا تذکرہ اور عصر ی مسائل کا ذکر بھی ہے ۔ ارم زہرا اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ علامہ اقبال ، فیض احمد فیض اور منیر نیازی جیسے عظیم شعرا نے غزل کے موضوعات کو بند گلی سے نکال کر ایک کھلی فضا میں پھیلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ آج کی غزل صرف ہجرو وصال تک محدود نہیں ہے بلکہ اب جدید غزل کا اسلوب تبدیل ہوچکاہے۔ ارم زہرا نے بھی اس تبدیلی کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس رحجان کو اپنی غزل میں سمویا ہے۔ ارم زہرا نے آزاد نظمیں تخلیق کی ہے ۔ ان کی نظموں کے موضوعات اچھوتے اور دلکش ہیں ۔ ان کی نظم ایک آبشار کی طرح مانوس زمیں سے نکل کر وادیوں کا رخ کرتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی دلوں کی زمیں کو سر سبزو شاداب کرتی ہوئی دور تک چلی جاتی ہے۔
ارم زہرا کا فن ان کی ریاضت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج جب ہر کوئی پہچان کی دوڑ میں شامل ہے تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ارم زہرا اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیا ب نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے دوسروں کے خیالات کی جگالی کرنے کی بجائے اپنا ایک الگ راستہ منتخب کیا ہے۔ ان کا فن وقت کے ساتھ سفر کرتا رہے گا۔ ان کو بلاشبہ نئی نسل کی نمائندہ تخلیق کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ہماری دُعا ہے کا ارم زہرا کا قلم اسی طرح شاہکار تخلیق کرتا رہے۔
مزید 6سیٹیںملنے سے قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی نشستوں کی تعداد بڑھ کر 132ہوگئی حکمران جماعت کا سادہ اکثریت کیلئے سب سے بڑی اتحادی پیپلز پارٹی پر انحصار بھی ختم ہوگیا ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے کلین سویپ سے قومی اسمبلی میں نمبر گیم تبدیل ہوگئی ،حکمران جماعت کا سادہ ...
غریب صارفین کیلئے ٹیرف 11.72سے بڑھ کر 22.44روپے ہو چکا ہے نان انرجی کاسٹ کا بوجھ غریب پر 60فیصد، امیروں پر صرف 30فیصد رہ گیا معاشی تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس نے پاکستان میں توانائی کے شعبے کا کچا چٹھا کھول دیا،2600 ارب سے زائد گردشی قرضے کا سب سے زیادہ ب...
افغانستان، فتنہ الہندوستان اور پشتون تحفظ موومنٹ غیر ملکی ایجنڈے پر گامزن ہے پروپیگنڈا نیٹ ورکس کا مکروہ چہرہ سوشل میڈیا ’ایکس‘ کی نئی اپڈیٹ کے بعد بے نقاب سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا بے نقاب بھارت، افغانستان اور پی ٹی ایم سے منسلک جعلی اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے ۔پاک...
آفس کو پتہ نہیں مجھ سے کیا ضد ہے ، میرا نام لسٹ میں کیوں نہیں آتا؟ وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ آپ کو پتہ نہیں عدالت سے کیا ضد ہے جو پریس میں عدالت کی غلط خبریں دیتے ہیں،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی نومئی کاایک ہی مقدمہ چلانے کی متفرق درخواست بحال دی۔ چ...
دباؤ کی بڑی وجہ لوگوں کا روزگار کی خاطر کراچی آنا ہے ، آبادی ساڑھے 4لاکھ سے 2کروڑ تک پہنچ چکی گریٹر کراچی پلان 1952کراچی ڈیولپمنٹ پلان 1974 مشرف دور کے ڈیولپمنٹ پلان پر عمل نہ ہو سکا گریٹر کراچی پلان 2047 کے حوالے سے شہرِ قائد پر بڑھتا ہوا آبادی کا دبا بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔حک...
آئندہ تین ماہ میں 25شہروں میں احتجاجی جلسے اور دھرنے کریں گے ، عوام کو منظم کرنے کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کو چند لوگوں کے ہاتھوں سے نجات دلائے گی، آئین کی بالادستی و تحفظ کیلئے تحریک چلائیں گے چند لوگوں کو ان کے منصب سے معزول کرکے نظام بدلیں گے ، عدلیہ کے جعلی ن...
عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں احتجاج پر تشدد کو ایک سال ہو گا پاکستان تحریک انصاف کی ریجنل تنظیمیں اضلاع کی سطح پر احتجاج کریں گی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارٹی کے بانی عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں احتجاج پر تشدد کو ایک سال ہونے پر 26 نومبر کو...
اسحٰق ڈار اور کایا کالاس کا کابل کی بگڑتی ہوئی سماجی و معاشی صورتحال پر اظہارِ تشویش ساتویں اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے موقع پر پاکستان اور یورپی یونین کا مشترکہ بیان پاکستان اور یورپی یونین (ای یو) نے ایک مشترکہ بیان میں افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کام کرنے والی ...
اسرائیلی خودکش ڈرون حملے میں 11فلسطینی شہید ،20زخمی ہوئے ،وزارت صحت غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 24 فلسطینی شہید ہوگئے ۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔غزہ شہر کی ایک مصروف شاہراہ پر گاڑیوں پر اسرائیلی خودکش ڈرون حملے میں 11 ...
پیپلز پارٹی ملک میں سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف ہے،وفاقی وزیرسرمایہ کاری اتحادی جماعت الگ ہوتی ہے تو ہماری حکومت ختم ہو جائے گی،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر و رہنما مسلم لیگ (ن) نے اداروں کی نجکاری (پرائیویٹائزشن) کے عمل میں اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو رکاوٹ قرار دے د...
کرپشن، ٹیکس چوری، حقیقی آمدن چھپانے کا کلچر اور پیچیدہ قوانین کم ٹیکس وصولی کی بڑی وجوہات ہیں، وفد نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بجٹ تیاری میں ڈیٹا کے درست استعمال پر زور دیا بجٹ تیاری میں ڈیٹا کے درست استعمال، اور ضمنی گرانٹس کے آڈٹ سمیت مزید مطالبات ،جعلی رسیدوں کو ختم کرنے ک...
شہباز شریف کہتے تھے کرپشن کا ایک کیس بتا دیں، 5300 ارب کی کرپشن کرنے والوں پر مکمل خاموشی ہے، ہمیں ان لوگوں کی لسٹ فراہم کی جائے جنہوں نے کرپشن کی ،رہنما تحریک تحفظ آئین عمران خان کو ڈھکوسلے کیس میں قید کر رکھا ہے،48 گھنٹوں سے زائد وقت گزر گیا کسی حکومتی نمائندے نے آئی ایم ایف...