وجود

... loading ...

وجود
وجود

ماتحت عدلیہ میں ہڑتالیں… محرکات اور اثرات

بدھ 07 مارچ 2018 ماتحت عدلیہ میں ہڑتالیں… محرکات اور اثرات

قائداعظم  عظیم رہنماء تھے اور اُنھوں نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ خود وہ وکیل تھے اور پاکستان کو جس طرح اُنھوں نے حاصل کیا اُن کی شب و روز کی تگ وتاز کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ گفتار کے غازی ہی نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔ اُن کی ڈکشنری میں بس یہی لکھا تھا کہ کام کام اور بس کام۔ جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کی قیادت کرنے والے عظیم رہنماء حضرتِ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ہمیشہ سچائی کی پاسداری کی۔ اپنے کلائنٹ سے وہ صرف کام کرنے کی فیس لیتے اگر کام نہ کرنا ہوتا تو وہ انکار فرما دیتے حتیٰ کہ وہ لی ہوئی فیس بھی واپس کر دیتے ۔حضرت قائد اعظمؒ کو بخوبی علم تھا کہ بر صضیر پاک و ہند کے باسیوں کی عادات کیسی ہیں اور اُن کو کس طرح لیڈ کرنا ہے۔ اِس لیے حضرت قائد اعظمؒ نے ہمیشہ سچائی کا سہارا لیا اور اپنی قوم کو سچائی کا سبق دیا اور واضع فرمادیا کہ ہمارا دستور قران ہے اور ہمیں کسی نئے دستور کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں تو چودہ سو سال پہلے نبی پاکﷺ نے دستور عطا فرمادیا تھا۔وکالت اتنا مقدس پیشہ ہے کہ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔

پاکستان میں وکالت مشکل پیشہ ہے وجہ اُس کہ یہ ہے کہ یہاں قانون کی بالادستی کو حکمران اشرافیہ نے خود ہی اپنے پائوں تلے روند ڈالا ہے اور عوام الناس اور اشرافیہ کے لیے انصاف کے تقاضے مختلف ہیں۔ جن حکمرانوں نے ملک میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے اُن حکمرانوں کی طرف سے دن رات اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کی بناء پر عدالتِ عظمیٰ کے ججوں پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ یوں حکمران جنہوں نے قوم کے باپ کا فرض ادا کرنا ہوتا ہے وہی حکمران اپنی قوم کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز ظالم ہیں۔ یوں جنہوں نے راہبری کا حق ادا کرنا تھا وہ قوم کو راہزنی کا سبق سیکھا رہے ہیں اور ایسا سب کچھ دھڑلے کے ساتھ ہورہا ہے اور کسی قسم کی کوئی شرم محسوس نہیں کی جارہی۔ بلکہ حکمران اشرافیہ نے باقاعدہ سوشل میڈیا فورس بنا دی ہے جو سوشل میڈیا پر دن رات عدالت عظمیٰ کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں اور چیف جسٹس صاحب کو ایسے مخاطب کر تے ہیں جیسے وہ چیف جسٹس نہ ہو بلکہ دُشمن ملک کا کوئی فوجی ہو۔فوج کے خلاف خوب سوشل میڈیا پر حکمران اشرافیہ نے اپنے معصوم کارکنوں کے ذریعہ سے شور مچایا اور اب کافی عرصے سے اُن کی توپوں کا رُخ اعلیٰ عدلیہ کی طرف ہے۔ شائد سابق وزیر اعظم صاحب یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ اپنے پیروکاروں کو جس طرح اُنھوں نے سوشل میڈیا پر عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کی توہین کرنے پر مامور کیا ہوا ہے اِن حرکات کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑئے گا۔ اداروں کے خلاف زہر اُگلنے سے ادارے کمزور ہوتے ہیں اور یوں ریاست کمزور ہوتی ہے اور قومی وقار کی دھجیاں بھی بکھرتی ہیں۔

جو کام فوجی آمر کرتے تھے وہ کام تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے صاحب کر رہے ہیں بلکہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بات قائد اعظم سے شروع ہوئی تھی اور قانون کی بالادستی کے تصور سے ہوتی ہوئی سابق وزیراعظم کے رویے تک آپہنچی ہے۔ اصل میں راقم اپنی وکلاء برادری سے یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ قانون کی بالادستی کا جھنڈا ہمیشہ وکلاء نے ہی بلند رکھا ہے قانون کی بالادستی کسی ملازم کے بس کی بات نہیں ۔خواہ وہ جج ہو خواہ وہ وزیر ، مشیر اور یا وہ کوئی جرنیل ہو۔ قانون کی بالادستی کا کام صرف وکلاء برادری کا ہی فریضہ ہے اور اِس مقصد کے لیے وکلاء نے ہر دور کے آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔ مشرف جیسے آمر کو تگنی کا ناچ نچوایا اور مشرف نے انتقام کے طور پر وکلاء کو زندہ جلادیا۔ ماتحت عدلیہ میں عام لوگ انصاف کے لیے آتے ہیں۔ سوائے طلاق اور وراثتی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے کونسا ایسا کیس ہے جس کا فیصلہ عدلیہ کر رہی ہے۔ سالوں تک کیس چلتے ہیں اور یوں عوام عدالتوں میں ذلیل و خوار ہوتی رہتی ہے۔ غریب لوگ ہی عدالتوں میں آتے ہیں با اثر افراد تو کسی کو اپنا حق مارنے ہی نہیں دیتے اِس لیے وہ تو انصاف عدالتوں کے باہر ہی حاصل کر لیتے ہیں لیکن عام آدمی جو کہ طاقت کے زور پر انصاف حاصل نہیں کر پاتا وہ ماتحت عدلیہ کا رخ کرتا ہے یوں دہائیوں تک کیس چلتا ہے۔

وکلاء کی بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے کسی بھی ایشو پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا بہت اہم ہے کیونکہ وکلاء قانون کی بالادستی کا ہر اول دستہ ہیں اِس لیے اِن کیجانب سے ہر معاملے پر آواز اُٹھانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ یوں کسی بھی معاملے کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے ہڑتال کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حالانکہ عدالتوں میں کام جاری رکھتے ہوئے بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اور احتجاجی اجلاس منعقد کرکے زیادہ موثر انداز میں احتجاج ریکارڈ کر وایا جا سکتا ہے۔ جب ہڑتا ل ہوجاتی ہے تو ہزاروں کیس التواء میں چلے جاتے ہیں ۔ اور سائلین بے چارئے مزید شکست خوردگی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک دن آتا ہے کہ اُن کا موجودہ نظامِ انصاف سے یقین اُٹھ جاتا ہے۔ اِس لیے وکلاء برادری کو اہم معاملات میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کیلیے مکمل چُھٹی کرنے کی بجائے احتجاجی اجلاس اور سیاہ پٹیاں بازووں پر باندھ کر اپنے عدالتی امور انجام دینے کا کام کرتے رہنا چاہیے تاکہ عام لوگ بے چارئے اِس سے متاثر نہ ہوں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر