وجود

... loading ...

وجود
وجود

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اُس کے اثرات

پیر 05 مارچ 2018 سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اُس کے اثرات

یہ مسلمہ اصول ہے کہ ایسی کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جو کہ عدلیہ کے کسی بھی فیصلے کو رد کرنے کے لیے کی جائے ۔ سپریم کورٹ نے پٹیشنز No.37 to 45, 47 to 51 & 54 of 2017 کا فیصلہ جاری کردیا ہے ۔شخصیاتکے لیے قانون سازی عدالتوں کو آنکھیں دکھانے کے مترادف،آئین کو بائی پاس کرنیکے لیے ضمنی آئینی قانون سازی نہیں کی جا سکتی، ایک ایسا شخص جو بادشاہ بننیکے لیے نا اہل ہو اسے یہ کھلا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ بادشاہ گرکے طور پر آپریٹ کرے اورپتلیوں کو نچانے والے کے طور پر دھاگے ہلاتا رہے،ایسے سیاسی اختیارکا استعمال آئین،قانون،حکومت اور اقدار کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوگا۔ سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کیخلاف دائر درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شخصیات کے لیے قانون سازی عدالتوں کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے، آرٹیکل 62،63 پر پورا نہ اترنے والاپارٹی عہدیدار نہیں بن سکتا،آئین کوبائی پاس کرنے کے لیے ضمنی آئینی قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد خان، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماء سید نیئر حسین بخاری،جمشید دستی سمیت دیگر کی طرف سے دائردرخواستوں کا 51 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا۔تفصیلی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 17 (ٹو) اور 62 ون ایف، 63 اور 63 اے کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ نااہل فرد پر نااہلی کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جس دن سے اسے نااہل قرار دیا گیا ہو، لہٰذا ایسی صورت میں نواز شریف کے بطور پارٹی سربراہ پارٹی امور کے لیے کیے گئے تمام اقدامات کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔

عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ مجلس شوریٰ کا بنیادی مقصد اسلام کے اصول کے مطابق کام کرنا ہے اور مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے اور ایسا ہی فرد پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اللہ کی جانب سے دیا گیا اختیار امانت سمجھ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بااختیار ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں ملک کی حکومت چلاتی ہیں، پارلیمنٹ کے امور چلانے کے لیے پارلیمنٹیرینز کا اعلیٰ اخلاق کا ہونا ضروری ہے، آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، ایسوسی ایشن یا پارٹی بنانا ہر شخص کا حق ہے، لیکن اس کے لیے اخلاقیات پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 62،63 پر پورا نہ اترنے والاپارٹی عہدیدار نہیں بن سکتا، انتخابی اصلاحات ایکٹ دو ہزار سترہ کی شق 203کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ سے الگ نہیں کیا جا سکتا،آئین کو بائی پاس کرنے کے لیے ضمنی آئینی قانون سازی نہیں کی جاسکتی، شق 203اور 232کو آرٹیکل 62,63کے ساتھ ملا کر پڑھاجائے، فیصلے میں کہا گیا کہ مسلم لیگ ن پارلیمنٹ میں نشستوں کے حوالے سے سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے،2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کی، اس وقت سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ ن کے صدر تھے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے شخص کو جسے بادشاہ بننے کے لیے نا اہل قرار دیدیا گیا ہو کو یہ کھلا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ بادشاہ گرکے طور پر آپریٹ کرے،ایسے بادشاہ گر جو انتخابی عمل کے ذریعے خود منتخب ہونے کی اہلیت نہ رکھتا ہو،پتلیوں کو نچانے والے کے طور پر دھاگے ہلاتا رہے،ایسے سیاسی اختیارکا استعمال اس آئین،قانون سازی کے عمل،قانون،حکومت اور اقدار کے مذاق اڑانے کے مترادف ہوگا جو ہمیشہ عزیز رہے جس کے لئے مستقل کام ہوا جن کا آئین میں تحفظ کیا گیا ہے،یہ قانون اور انصاف کا بنیادی اصول ہے جو کام براہ راست نہ کیا جا سکتا ہو وہ بالواسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلے میں پاناما لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئی سی آئی جے نے3اپریل 2016 میں پاناما لیکس میں موسیک فونسیکا کی تفصیلات جاری کیں،پاناما انکشافات کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے نشر کیا،سابق وزیراعظم کے بچوں کے نام بھی پاناما لیکس میں آئے،دنیا بھر کے مختلف رہنماؤں نے عوامی ردعمل پر استعفے دیے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے سیاسی رہنماؤں کی طرح نواز شریف نے بھی مختلف مواقع پر وضاحتیں دی،نواز شریف کی جانب سے پارلیمنٹ کے سامنے وضاحت دی گئی،فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے خطاب میںمتضاد بیانات کی بنیاد پر چند پارلیمنٹیرینز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا،سپریم کورٹ نے تفصیلی سماعتوں کے بعد 20 اپریل 2017 کو فیصلہ سنا دیا۔فیصلے میں دو ججز جسٹس، آصف کھوسہ اور جسٹس گلزار نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔20 اپریل کے فیصلے میں تین ججز نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پیش ہو جانے کے بعد عدالت نے 28 جولائی کو فیصلہ سنایا۔28 جولائی کے فیصلے میں دیگر تینوں ججز نے بھی نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے نیب کو شریف خاندان کیخلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد نواز شریف پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل ہو چکے تھے، لیکن قانون میں ترمیم کر کے نواز شریف کو دوبارہ سے پارٹی سربراہ بنایا گیا جس پر مختلف درخواست گزاروں نے عدالت سے رجوع کیا، شخصیات کے لیے قانون سازی عدالتوں کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے، عدالت نے تفصیلی فیصلے میں نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے انکے ا ٹھائیس جولائی کے بعد کیے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیدیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے 21فروری کو انتخابی اصلاحات ایکٹ دو ہزار سترہ کیخلاف دائر درخواستوں پر مختصر فیصلہ سنایا تھا۔سپریم کورٹ کے اِس فیصلے سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ مجلس شوری کو بے شک بالادستی حاصل ہے، وہ قانون ساز ادارہ ہے لیکن مجلس شوری یعنی سینٹ ، قومی اسمبلی اور صدر مملکت یا صوبائی اسمبلیاں ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتیں جو کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو رد کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔ گو قوانین سازی پارلیمنٹ کا حق ہے لیکن اِن قوانین کو آئین کے بنیادی فریم ورک کے خلاف ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے حتمی فیصلہ عدالتِ عظمیٰ کوہی دینا ہے۔ درحقیقت اِس فیصلے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بالادستی قانون کی ہے نہ کہ کسی ادارے کی ۔ اگر کوئی بھی ادارہ آئین کے فریم ورک سے باہر نکلتا ہے تو اُس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ نواز شریف نے خود عدلیہ کے ہاتھوں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروایا اور اب جب کہ وہ خود نا اہل ہوئے ہیں تو وہ ووٹ کی حرمت کی باتیں کر رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کو اپنا بیانیہ بدل لینا چاہیے۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ عدلیہ اور فوج پر تنقید نہ کریں۔ اقتدار کے مقابلے میں قومی یکجہتی اور وقار کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ اللہ پاک پاکستان پر اپنا خاص کرم فرمائے آمین ۔ یقینی طور پر نواز شریف کی نا اہلیت سے ذاتی طور پر نواز شریف کو سخت نقصان ہو گا۔ لیکن ادارے اہم ہیں نہ کہ شخصیات۔ اِس لیے عدالت عظمیٰ ننے انتہائی اہم فیصلہ دے کر انصاف کا بول بالا کیا ہے لیکن عدالتوں کے فیصلے کی اگر حکمران اشرافیہ ہی خلاف ورزی کر تی ہے تو پھر عوام الناس کا عالم کیا ہے۔ پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ حکمران اشرافیہ نے عوام کو یر غمال بنا رکھا ہے ۔ لیکن انشا ء اللہ ایک دن آئے گا کہ حالات بدل جائیں گے، ظلم کے بت پگھل جائیں گے۔ جھوٹ نے مٹ جانا ہے اور سچ کو ہی دوام حاصل ہے۔ پاکستان زندہ آباد۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر