وجود

... loading ...

وجود
وجود

چین اور بلوچ شدت پسندوں کے مذاکرات۔۔

جمعه 02 مارچ 2018 چین اور بلوچ شدت پسندوں کے مذاکرات۔۔

برطانیا کے مؤقر اخبار’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین اور بلوچ شدت پسندوں کے درمیان پانچ سال سے خفیہ مذاکرات جاری ہیں تاکہ، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو محفوظ کیا جاسکے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے ان رابطوں کی تردید ہوچکی ہے اور چین نے بھی ان باتوں کو رد کیا ہے۔ دیکھا جائے اگر چینی حکومت نے ایسی کوئی پیشرفت کی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ چین اور بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیموں کے درمیان رابطوں کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں متعین چینی سفیر یائو ژینگ نے کہا تھا کہ بلوچ شدت پسند اب ان کے لیے یعنی سی پیک کے لیے خطرہ نہیں رہے ۔ چیینیوں کا یہ اظہار اطمینان بلوچ شدت پسندوں سے مذاکرات ظاہر کرتا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کی فورسز بشمول خفیہ ادارے ان شدت پسندوں کی گردن مروڑ چکی ہے۔ مزاحمتی سوچ اور شدت پسند بہر حال وجود رکھتے ہیں ۔ یہ گروہ کہی نہ کہی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو ہی ہوجا تے ہیں ۔ بلوچستان میں اگر دوسرے بد خواہ ممالک کی شہ اور مالی تعاون سے مزاحمت شروع ہوسکتی ہے، تو ایسے میںچین اگر صوبے میں امن کے لیے کوئی مثبت پیشرفت کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس بڑے منصوبے کی حفاظت کو یقینی بنائے۔تاہم پاکستان ایک آزاد و خودمختار ملک ہے۔ لہذا اس ضمن میںپا کستان کی مرضی اور اجازت لازم ہے۔

ماضی میں بلوچستان میں چینی انجینئرز اور دوسرے ہنرمند قتل ہوچکے ہیں۔ دوئم بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان اور چین اقتصادی اور معاشی میدان میں آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کے معاون بنیں۔بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’’پاکستان چین کے تعاون سے بھارت کے خلاف جنگ لڑرہا ہے ‘‘۔ پاکستان اور چین کی یہ قربت امریکا کو بھی کسی طور قبول نہیں۔ امریکا اور بھارت افغانستان میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اس خفت کا بدلہ یہ دونوں ممالک پاکستان سے لے رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کی کوشش ہوگی کہ بلوچ شدت پسندوں کو استعمال کرے ، پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو اور ساتھ ہی سی پیک کا منصوبہ شرمندہ تعبیر نہ ہو۔ امارت اسلامیہ افغانستان اور ایران کے درمیان مسلکی، نظریاتی اور ترجیحات کا اختلاف پوری طرح سے موجود ہے۔ مگر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایران نے امارت اسلامیہ سے تعلقات استوار کررکھے ہیں۔ اسی طرح روس اور امارت اسلامیہ کے درمیان ہم آہنگی موجود ہے باوجود اس کے کہ سویت یونین کے خلاف افغا ن طویل جنگ لڑچکے ہیں۔

23فروری2018ء کو افغانستان کے صوبے ہرات میں تاپی گیس منصوبے کا افتتاح ہوا۔ امارت اسلامیہ افغانستان( طالبان) نے اس کے تحفظ کا اعلان کیاہے۔دراصل اس منصوبے پر پیشرفت طالبان دور حکومت میں ہوئی تھی۔امریکا نے اس کے خلاف فتنہ کاری کی تھی۔پاکستان کے حکمران امریکی حکم کے آگے بچھ گئے تھے ۔ اب یقینی طور پر اس منصوبے کے خلاف وہ گروہ متحرک ہوں گے جو افغانستان اور افغانوں کے مفادات کے خلاف سرگرم ہیں۔ یقینی طور پر ان گروہوں کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ غرضیکہ خود پاکستان کو چاہیے کہ وہ بلوچ شدت پسندوں سے رابطے قائم کرے۔ اس طرح آنے والے دنوں میں امریکی اور بھارتی سازشوں کا سدباب کیا جاسکے گا۔ امریکا افغانستان میں پاکستان کو دھوکہ دے چکا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی پوری توجہ پاکستان کے خلاف منفی پالیسیوں اور منصوبوں پر لگی ہوئی ہے ۔ چنا ں چہ ان حالات میں بلوچستان کے مسئلے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب سے چین پاکستان اقتصادی کاریڈور کا معاہدہ عملی طور سامنے آیا ہے ۔ تب سے حکومتوں،سیاستدان اور سیکیورٹی حکام کی جانب سے یہ کہنا بھی شروع ہوا ہے کہ بلوچ شدت پسند تنظیمیں سی پیک کو ناکامی سے ہمکنار کرنے کے تخریبی منصوبوں پر کاربند ہیں۔ یہ تنظیمیں اگرچہ گوادر پورٹ اور سیندک میں چین کے ساتھ معاہدوں کو بلوچستان کے مفادات کے برعکس سمجھتی ہیں۔ لیکن بلوچستان میں وفاق پر عدم اعتماد اور الحاق کے معاہدے کے خلاف سیاسی و مزاحمتی تحریک کی تاریخ1948ء سے شروع ہوتی ہے کہ جب خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے مسلح مزاحمت کی ٹھان لی اور لشکر تیار کرکے افغانستان ہجرت کرلی تھی۔ بلوچوں نے افغان حکمرانوں کے آگے بھی مزاحمت کی ہے اور انگریزوں کے استعماری منصوبوں کے آگے بھی سینہ سپر ہوکر آزادی اور خودمختاری کا علم بلند کرچکے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد علیحدگی کی پے درپے تحریکیں اٹھیں جس میں علیحدگی کے ساتھ صوبائی خود مختاری کا نعرہ شامل رہا ہے ۔ ستر کی دہائی کی تحریک کے آگے پیپلز پارٹی کھڑی ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے کوئی رعایت نہ کی۔1977ء کے مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو قید کر کے فنا کے گھاٹ اُتار دیا ۔اور حیدرآباد سازش کیس میں مقید سندھی بلوچ ، پشتون اور دوسرے سیاسی لوگوں کو رہا کردیا۔ علیحدگی کی تحریک پس منظر میں چلی گئی۔ افغانستان میں مقیم بلوچ رہنماء پاکستان لوٹ آئے ۔ اس زمانے میںپشتونستان تحریک بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ یعنی یہ دونوں تحریکیں افغانستان کی جانب سے فیڈ کی جاتی تھیں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ سی پیک تو ابھی چند مہینوں کی بات ہے جبکہ بلوچستان میں مسئلہ وفاق کے ساتھ صوبائی خود مختاری کا رہا ہے جس میں کبھی شدت آکر علیحدگی کا نعرہ بھی بلند ہوجاتا تھا۔

میر احمد یار خان، شہزادہ عبدالکریم، نواب خیر بخش مری ، ان کے صاحبزادے ہو ںیا دوسری بہت ساری نامور بلوچ شخصیات ، سب مختلف اوقات میں نظام اورا سمبلیوں کا حصہ رہے ہیں اور آئین پاکستان کا حلف اٹھاچکے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ بنیادی مسئلہ آئین اور قانون پر عملدرآمد کا ہے ۔ خلاف آئین و قانون اقدامات اور فیصلے احساس محرومی کے جذبات اور سوچ پیدا کرتے ہیں اور دشمن ایسے ہی موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ صوبائی خود مختاری تاحال ایک تشنہ مسئلہ ہے۔ اس پر فوری اور کما حقہ عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور جمہوری عمل کو جاری و پروان چڑھنے دیا جانادراصل ملک کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کا زینہ ہے۔نظام مصنوعی حربوں سے چلانے سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔پچھلے دنوں اخبارات میں ایک مقامی خبر رساں ادارے کے متواتر بیانات اور خبریں لگیں کہ صوبے میں نئی حکومت بننے کے بعد عوام کے مسائل حل ہونا شروع ہوگئے۔کیا واقعی معاملہ اتنا آسان تھا جو ماضی کی حکومتیں سمجھنے سے قاصر تھیں۔ ؟۔ ایک خبر سرکار کی جاری کیا ہوئی نظر سے گزری کہ میر عبدالقدوس بزنجو نے حلف اٹھانے کے بعد اپنا پہلا وعدہ پورا کرلیا۔ وعدہ یہ تھا کہ جناح روڈ کا چند سو میٹر حصہ بنانے کی غرض سے اکھاڑ دیا گیا تھا ،پھر تاخیر پے تاخیر ہوتی گئی ۔ یوں بزنجو نے اس کی بلیک کا رپیٹنگ کا حکم دیا ۔ سڑک کی تعمیر کو کارنامے سے تعبیر کیاگیا۔ چنا ں چہ کیا اس طرح کے پست اور سطحی ابلاغ سے بلوچستان اور یہاں کے عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ؟ میںسمجھتاہوں کہ بلوچستان کا مسئلہ اور اس کے مسائل کا حل اگر آسان نہیں تو مشکل بھی ہر گز نہیں ۔البتہ اسے حقیقی بنیادوں پر حل کرنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ الغرض کالعدم بی ایل ایف نے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کی ہے۔ اور دوسری شدت پسندتنظیموں کا اس ضمن میں تردیدی یا وضاحتی بیان نظرر سے نہیں گزرا ہے۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر