وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان میں برگد کا سب سے بڑا اور قدیم ترین درخت

بدھ 28 فروری 2018 پاکستان میں برگد کا سب سے بڑا اور قدیم ترین درخت

برگد کے درخت صدیوں پرانی تاریخ کے امین ہیں۔ بہت سے قصے کہانیوں اور علاقائی ثقافت سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ کہیں اسے بوڑھ پکارا جاتا ہے تو کوئی بوہڑ کے نام سے اس کی شناخت کرتا ہے۔ اسے انگریزی زبان میں بینین (Banyan) کہا جاتا ہے جو گجراتی لفظ ’’بنیا‘‘ سے ماخوذ ہے۔ بنیا کا لفظ ہندو تاجروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ بنیا کہلانے والے ہندو تاجر اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے دور دراز علاقوں میں جایا کرتے تھے۔ گرمی سے بچنے اور تھکاوٹ اتارنے کے لیے برگد کے درختوں کے نیچے لیٹ جایا کرتے تھے۔ یہ بھی روایت میں ہے کہ ہندو بنیے، برگد کے درخت کے نیچے اپنی دکانیں سجایا کرتے تھے۔

انسان کی اس دنیا میں آمد کے بعد ماں کے علاوہ ممتا کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوئی تو انہی جیسے درختوں سے نصیب ہوئی۔ دیہی پس منظر میں ٹھنڈی چھاؤں فراہم کرنے میں سب سے نمایاں برگد کے درخت ہوتے ہیں۔ برگد کے یہ درخت ناموافق حالات میں بھی اپنا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ یہ بقاء￿ کی جنگ لڑتے ہیں اور جیت جاتے ہیں۔

بہت سے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ چٹیل دیواروں سے بھی ان کے تنے نکل ا?تے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ہی برگد کے درخت سے ریشوں جیسی لمبی شاخیں پھوٹتی ہیں اور جھالر کی مانند درخت کے چاروں طرف پھیل جاتی ہیں جس سے برگد کی سحر ناکی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ شاخیں تناور ہوکر زمین میں مل جاتی ہیں اور یوں ایک نیا بوہڑ کا درخت وجود میں ا?جاتا ہے۔ یہ جڑیں نئے درخت پیدا کرنے کے علاوہ اسے سہارا دینے میں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ برگد سے پھوٹتی ان جڑوں کو بچے ’’برگد کی داڑھی‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

ہندو مت اور بدھ مذہب کے پیروکار برگد کو مقدس سمجھتے ہیں۔ تاریخی حوالوں سے یہ ثابت ہے کہ بعض ہندو طبقات قدیم برگد کے درختوں کی پوجا کرتے ہیں، دودھ سمیت دیگر اشیاء کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ گوتم بدھ مسلسل 6 سال سے برگد کے درخت کے نیچے ہی بیٹھے تھے جبکہ انہیں نروان ملا اسی لیے اسے بدھ کا درخت بھی کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ سکندراعظم جب دنیا کو فتح کرنے کا عزم لے کر نکلا تو اس نے7 ہزار فوجیوں کے ساتھ برگد کے درخت کے نیچے کئی دن تک پڑاؤ جاری رکھا۔

یہ چند سال قبل کی ہی تو بات ہے کہ پاکستان بھر کے دیہاتوں میں بوہڑ کے درختوں کے نیچے چوپالیں لگا کرتی تھیں جہاں لوگ دن بھر کے کام کاج کے بعد فراغت کا وقت گزارتے۔ یہ ایسی محفلیں ہوتیں کہ جن میں رنگوں و امنگوں،خوشیوں و قہقہوں کا امتزاج ہوتا۔ لوگ اپنے مسائل سمیت حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے، بوڑھے اور ضعیف افراد حقہ گڑگڑاتے اور بچوں کو قصے کہانیاں سناتے، داستان گوئی کو بام عروج انہی چوپالوں کے ذریعے ملا تھا۔ برگد کی چھاؤں میں لگی چوپالوں کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے قابض برطانوی حکمرانوں کی جانب سے قانونی کاروائیوں کے لیے کچہریاں بھی برگد کے نیچے ہی لگائی جاتیں۔ اب بھی برصغیر پاک و ہند کی عدالتوں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں برگد کا درخت لازمی طور پر دکھائی دے گا جبکہ پرانے تھانوں، اسپتالوں اور سرکاری عمارتوں کی حدود میں بھی برگد کا درخت لازمی ملے گا۔

پورے برصغیر میں برگد کے درختوں کی بہتات ہے۔ اسکول ہوں یا سرکاری عمارات، تجارتی مراکز ہوں یا سڑک کنارے بنے ہوٹل و چائے خانے یا پھر صوفیائے کرام کے مزارات، یہ سب ّآپ کو برگد کے قدآدم اور وسیع درختوں سے ڈھکے نظرآئیں گے۔ خاص طور پر سڑکوں کے آس پاس یہ بہتات سے پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے اپنے دور اقتدار میں پشاور سے کلکتہ تک مشہور شاہراہ بنوائی تو اس نے مسافروں کی سہولت اورآرام کی خاطر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برگد کے درخت لگوائے اور ساتھ پانی کے تالاب بنوائے۔

چند سال قبل تک برگد کے یہ درخت ہر گاؤں کی پہچان ہوتے تھے۔ دورجدید کا اے سی بھی وہ سکون کہاں فراہم کرسکتا ہے جو برگد کی چھاؤں کے نیچے بچھی چٹائی و چارپائی پر بیٹھ کر میسر ہوتا تھا۔ کھیلنے کے لیے بچوں کی پسندیدہ جگہ وہ ہوتی جہاں برگد کا درخت ہوتا۔ برگد کے درخت پر چڑھ کر اچھل کود اور پنچھیوں کو پکڑنے کی ناکام سی کوشش، برگد کی چھاؤں میں بیٹھ کر مٹی کے گھروندے اور کھلونے بنانا، گلی ڈنڈا اور بنٹے کھیلنا، بچیاں شٹاپو کھیلتیں، مائیں بچوں کو گود میں بٹھا کر ان کے سر میں تیل ڈال کر مالش کرتیں، پینگیں جھولنا، الغرض برگد کے درخت سے اتنی یادیں وابستہ ہیں کہ جن کا شمار ہی ممکن نہیں۔

برگد کے ان درختوں پرپرندوں کے گھونسلے ہوتے ہیں اور صبح و شام کے وقت یہ پنچھی اپنے سریلے گیتوں سے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ چڑیاں، طوطے، بلبل، لالیوں اور کوئل سمیت درجنوں قسم کے پرندے برگد کا سرخی مائل پھل کھاتے ہیں۔ انہی پرندوں کے ذریعے برگد کا بیج ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے اور یوں مختلف علاقوں میں بوہڑ کے نئے درخت اْگ جاتے ہیں۔

بوہڑ کے نرم پتوں کو توڑا جائے یا پھر اس کی جلد کو ادھیڑا جائے تو اس سے سفید رنگ کا مائع خارج ہونا شروع ہوتا ہے جسے شِیرِ برگد کہتے ہیں۔ بچپن میں شرارتی بچوں کا محبوب ترین مشغلہ یہی ہوتا تھا کہ وہ برگد کے پتے توڑ کر اور اس کی جلد کو ادھیڑتے اور دودھیا مادے کو ایک دوسرے پر پھینکنے کی کوشش کرتے کیونکہ شیر برگد کسی انسان کی جلد پر گر جاتا تو اس جگہ سیاہ نشان پڑجاتا۔

برگد پر سرخی مائل پھل بھی لگتا ہے جو پک جائے تو میٹھا ہوتا ہے۔ دیہاتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ اسے کھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کیونکہ اس پھل کو باعث صحت سمجھا جاتا ہے جبکہ طبی ماہرین اس پھل کو مضر صحت سمجھتے ہیں۔ برگد کے درخت کی چھال، اس سے خارج ہونے والے دودھیا مادّے، شاخوں اور ریشوں کو زمانہ قدیم سے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور جدید طب کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بعض مخصوص امراض کا علاج اس کے ذریعے ممکن ہے۔ برگد کے درخت سے حاصل ہونے والے طبی فوائد پر ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔

جن دوستوں کا بچپن دیہاتوں میں گزرا ہے، ان کی حسین یادیں لازماً برگد کے درخت سے جڑی ہوں گی۔ میرے ذہن کے نہاں خانے میں بھی کچھ ایسی ہی دھندلی یادیں ہیں۔ گاؤں کی ایک بڑھیا تھی جو برگد کی چھاؤں میں بیٹھی حقہ پیا کرتی تھی، سب سے پیار کرتی، محبتیں رونقیں اسی سے تھیں۔ گاؤں کی رنگینیوں میں سب سے نرالا رنگ اس کی باتوں میں تھا۔ ہم شرارتیں کرتے اور وہ ہمیں ڈانٹا کرتی۔ اس کی ڈانٹ ہمارے لیے ماں کی لوری جیسی تھی۔ پھر یوں ہوا… کہ وہ بڑھیا نہ رہی، برگد کی چھاؤں نہ رہی، حقے کی گڑگڑاہٹ کہیں کھوگئی۔ اس بڑھیا کے جانے سے گاؤں کی رنگینیاں بھی رخصت ہو گئیں، مادہ پرستی کا ایسا دورشروع ہوا کہ معمولی سے فوائد کے لیے انسان نے اپنا ابدی سکون غارت کرنا شروع کردیا، صدیوں پرانے برگد کٹنے شروع ہوگئے۔

یہ سلسلہ گاؤں تک محدود نہیں رہا۔ قیمتی اثاثوں کی حیثیت رکھنے والے برگد کے درختوں کو بے دردی سے کاٹا جارہا ہے۔ ان میں سے بہت سے برگد قدیم قومی ورثے کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم حکمرانوں اورعوام کی بے حسی سے یہ قدیم درخت ختم ہورہے ہیں۔ پہلے یہ درخت بکثرت پائے جاتے تھے لیکن اب ان کی تعداد بتدریج کم ہورہی ہے لیکن اب بھی بہت سے ایسے برگد کے درخت پاکستان میں موجود ہیں جنہیں تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

ایسا ہی ایک تاریخی و ثقافتی اہمیت کا حامل برگد کا درخت سرگودھا کے علاقے مڈھ رانجھا میں واقع ہے جو حکومتی عدم دلچسپی اور عوام کی بے حسی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے۔ مڈھ رانجھا میں ابل اور موری وال گاؤں کے قریب اور رانجھے کے شہر تخت ہزارہ کے نواح میں واقع قدرت کا انمول ترین اور عظیم الشان برگد کا درخت اپنی مسحور کْن خوبصورتی کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے اور لوگوں کو دور سے ہی اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔

محبت کی سرزمین تخت ہزارہ اور مڈھ رانجھا کے قریب موجود، یہ برگد پاکستان کا سب سے بڑا، لمبا اور قدیم درخت ہے کہ جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ برگد 4 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا تھا جو حالات اور انسانوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے 3 ایکڑ سے بھی کم رقبے تک محدود رہ گیا ہے۔ اس برگد کو ایشیاء کا سب سے بڑا برگد کا درخت بھی سمجھا جاتا ہے تاہم اس حوالے سے ابہام موجود ہے۔

دنیا میں سب سے بڑا برگد کا درخت سری لنکا میں ہے جس کے 350 بڑے اور 3000 چھوٹے تنے ہیں۔ تاہم مڈھ رانجھا اور سری لنکا میں پائے جانے والے برگد کی ایک بات مشترک ہے کہ دونوں کے اصل تنے کی شناخت ممکن نہیں۔یہ درخت کب وجود میں آیا؟ اس بارے میں کوئی واضح تاریخی حوالہ موجود نہیں۔ مختلف روایات کے مطابق کئی صدیوں قبل گجرات کے شاہ ولی دولہ کے حکم پر ان کے مرید بابا روڈے شاہ نے یہ درخت لگایا تھا۔ ان بزرگ نے پودے سمیت خود کو دریائے چناب کے حوالے کردیا اور مڈھ رانجھا کے قریب دریائی لہروں نے انہیں کنارے تک پہنچادیا۔ یوں یہ پودا اپنی منزل مقصود تک پہنچا۔ بابا روڈے شاہ نے پھر یہیں ڈیرہ لگالیا۔ مقامی لوگ ان کے لیے دودھ لاتے جس میں سے کچھ دودھ پینے کے بعد باقی اس برگد کی جڑوں میں ڈال دیتے۔ بابا روڈے شاہ سے منسوب قبر ابھی تک برگد کے نیچے موجود ہے اور علاقہ مکین اب بھی ان بزرگ سے عقیدت رکھتے ہیں۔

اس درخت کی شاخوں کا جال بنا ہوا ہے۔ پہلی نظر میں تو یہی لگتا ہے کہ برگد کے بہت سارے درخت ہیں لیکن ایسا نہیں۔ صدیوں پرانے برگد کی شاخیں اتنی زیادہ پھیلیں کہ ایک جنگل سا وجود میں آ گیا۔ اس برگد کے درخت کی مرکزی شاخ کو شناخت نہیں کیا جاسکتا تاہم مقامی لوگ اس حوالے سے قیاس آرائیاں ضرور کرتے رہتے ہیں۔ اس درخت کی حقیقی عمر کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ گاؤں کے بزرگوں سے جب اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا خاندان کئی نسلوں سے یہاں آباد ہے اور ہم نے اس بوہڑ کو اسی حالت میں دیکھا ہے۔ ہم سے صدیوں قبل ہمارے آبا و اجداد نے بھی اس درخت کو اسی حالت میں دیکھا۔ اسے بہت بار کاٹا گیا لیکن یہ پھر سے پھلنا پھولنا شروع کردیتا ہے۔ البتہ بعض مقامی افراد نے قیاس آرائی کی کہ یہ برگد ایک ہزار سال پرانا ہے۔

دریائے چناب کے کنارے واقع اس کرشماتی درخت کے اوپر اور نیچے ایک الگ ہی دنیا آباد ہے۔ انواع و اقسام کے پرندوں نے گھونسلے بنارکھے ہیں۔ ان کی نت نئی بولیاں کانوں میں رس گھولتی رہتی ہیں۔ امید نو سے بھری صبح، سایہ دار ٹھنڈی دوپہر میں بہت ہی نرالا پن ہے جبکہ اسرار بھری شام کی تو بات ہی الگ ہے؛ اور رات کو تو بس اس درخت پر الوؤں کی راجدھانی ہوتی ہے کیونکہ توہم پرستی، خوف اور ہیبت کی وجہ سے لوگ رات کو اس کے قریب جانے سے کتراتے ہیں۔اس درخت کی سحری انگیزی کا اندازہ وہی لگاسکتے ہیں جو یہاں وقت گزارتے ہیں۔پاکستان میں پایا جانے والا یہ سب سے بڑا برگد دن بھر چہل پہل اور رونقوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔ رومان پرور اور قدرت کے شیدائی لوگوں کے لیے ایسی جگہیں بہت کشش رکھتی ہیں۔ اس کی بے پناہ خوبصورتی لوگوں کو دور دراز سے یہاں کھینچ لاتی ہے اور جو لوگ یہاں آجائیں، وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ لوگ یہاں اآتے ہیں اور برگد کی شاخوں پر کھدائی کرکے اپنا نام اور مختلف فقرے لکھ جاتے ہیں جس سے اس درخت کو نقصان پہنچتا ہے۔برگد کے اس درخت کی خوبصورتی کے چرچے صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، بھارت سمیت بہت سے ایشیائی و مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اس کی شہرت سن کر یہاں سیاحت کے لیے آئے۔ مگر اس قدرتی شاہکار کے تحفظ کے لیے کوئی حکومتی اقدامات نظر نہ آئے تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ دیگر ممالک سے آنے والے لوگ اس بات پر کڑھتے ہیں کہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا اتنا قیمتی ورثہ حکومت کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟ وہ بوجھل دل سے یہ سوچتے ہیں کہ کاش قدرت ہمیں اس تحفے سے نوازتی اور ہم اسے بے توقیری سے بچالیتے۔

قدرت کا یہ حسین شاہکار جہاں حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے وہیں مقامی بااثر لوگوں نے اسے مفت کا مال سمجھ رکھا ہے۔ اس جگہ کو جانوروں کے باڑے میں بدل دیا گیا ہے۔ مخصوص سوچ کے حامل بعض لوگوں نے اس جگہ پر اپنا تسلط جمایا ہوا ہے جن کا جب جی چاہتا ہے، اس درخت کے تنوں کو کاٹ ڈالتے ہیں جبکہ علاقے کے دیگر لوگ بھی اس معاملہ میں شریک جرم ہیں۔ رہی سہی کسر گزشتہ چند سال میں دریائے چناب کے سیلابی پانی نے پوری کردی جس کی وجہ سے اس کا ایک حصہ جڑ سے ہی اکھڑ گیا۔ یہ علاقے کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا قیمتی ورثہ ہے، دیگر ممالک کے لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں اس کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس جگہ کو قبضہ مافیا سے آزاد کروا کر اپنی تحویل میں لے؛ اور اسے قومی ورثہ کا درجہ دے کر تفریحی مقام میں بدل دیا جائے تاہم اب تک حکومتی ذمہ داران کی جانب سے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔


متعلقہ خبریں


لانڈھی میں غیر ملکیوں کو لے جانیوالی گاڑی پر حملہ، 2 دہشت گرد ہلاک وجود - هفته 20 اپریل 2024

پولیس نے کراچی کے علاقے لانڈھی مانسہرہ کالونی میں غیر ملکیوں کو لے جانے والی گاڑی پر حملے کو ناکام بناتے ہوئے 2دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے جبکہ دہشت گردوں کے حملے میں3 افراد زخمی ہوئے، 2 زخمی سیکیورٹی اہلکاروں میں سے 1 اسپتال میں ویٹی لیٹر پر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، ایک...

لانڈھی میں غیر ملکیوں کو لے جانیوالی گاڑی پر حملہ، 2 دہشت گرد ہلاک

بشری بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا،عمران خان وجود - هفته 20 اپریل 2024

بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی اہلیہ بشری بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا ہے۔اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت میں 190 ملین پانڈز ریفرنس کی سماعت کے دوران عمران خان نے جج ناصر جاوید رانا کے روبرو کہا کہ کمرہ عدالت میں اضافی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔ ...

بشری بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا،عمران خان

کراچی میں بھکارن بھیک کی جگہ چھیننے پر عدالت پہنچ گئی وجود - هفته 20 اپریل 2024

کراچی کی بھکاری خاتون بھیک مانگنے کی جگہ چھیننے پر دیگر بھکاریوں کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے عدالت پہنچ گئی۔۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں خاتون بھکاری نے بھیک مانگنے کی جگہ چھوڑنے کیلئے ہراساں کرنے پر تین بھکاریوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی درخواست کی۔ عدالت نے خاتون بھک...

کراچی میں بھکارن بھیک کی جگہ چھیننے پر عدالت پہنچ گئی

مولانا فضل الرحمن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو وجود - هفته 20 اپریل 2024

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں۔پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان احتجاج کریں مگر احتجاج حقیقت پر مبنی ہونی چاہیے ۔مولانا تحقیقات کریں ان کے لوگ غلط ...

مولانا فضل الرحمن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو

خطوط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججز سے تجاویز مانگ لیں وجود - هفته 20 اپریل 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججز کے خط کے معاملے پر اہم پیش رفت، اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہائی کورٹ کے تمام ججز سے تجاویز مانگ لیں۔ذرائع کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے آفس نے تمام ججز سے پیر تک تجاویز مانگ لیں ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ اور ڈسٹرکٹ اینڈ س...

خطوط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججز سے تجاویز مانگ لیں

اس سال ہم حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے،اسلام آباد ہائیکورٹ وجود - هفته 20 اپریل 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حج پر جانے والے تمام افراد کو مکمل سہولیات فراہم کرنے کا حکم جاری کردیا اور کہا ہے کہ اس سال ہم بھی حج کے معاملات کی نگرانی کریں گے اگر کسی نے ٹیکسی سے متعلق بھی شکایت کی تو وزارت مذہبی امور کی خیر نہیں۔تفصیلات کے مطابق حج و عمرہ سروسز فراہم کرنے والی نجی...

اس سال ہم حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے،اسلام آباد ہائیکورٹ

اسمگلروں ، ذخیرہ اندوزوں کے سہولت کارافسران کیخلاف کارروائی کا فیصلہ وجود - هفته 20 اپریل 2024

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم کو تیز کرنے کی ہدایت کردی اور کہا ہے کہ پاکستان سے اسمگلنگ کے جڑ سے خاتمے کا پختہ عزم رکھتا ہوں۔تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اعلی سطح جائزہ اجلاس آج اسلام آ...

اسمگلروں ، ذخیرہ اندوزوں کے سہولت کارافسران کیخلاف کارروائی کا فیصلہ

کلفٹن میں خوفناک انداز میں کار ڈرائیونگ مہنگی پڑگئی، نوجوان گرفتار وجود - جمعه 19 اپریل 2024

کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی حدود میں ڈرفٹنگ کرنا نوجوان کو مہنگا پڑ گیا۔۔کراچی کے خیابان بخاری پر مہم جوئی کرنے والے منچلے کو پولیس نے حوالات میں بند کردیا پولیس کے مطابق نوجوان نے نئی تعمیر شدہ خیابان بخاری کمرشل پر خوفناک انداز میں کار دوڑائی ۔ کار سوار کے خلاف مقدمہ درج کر کے لاک ا...

کلفٹن میں خوفناک انداز میں کار ڈرائیونگ مہنگی پڑگئی، نوجوان گرفتار

ایف آئی اے کی کراچی ائیرپورٹ پر بڑی کارروائی، اسمگلنگ کی کوشش ناکام وجود - جمعه 19 اپریل 2024

ایف آئی اے امیگریشن نے کراچی ائرپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے سگریٹ۔ اور تمباکو سے منسلک دیگر مصنوعات اسمگل کرنے کی کوش ناکام بنا دی ۔۔سعودی عرب جانے والے دو مسافروں کو طیارے سے آف لوڈ کردیا گیا ۔۔ ملزمان عمرے کے ویزے پر براستہ یو اے ای ریاض جا رہے تھے۔ ملزمان نے امیگریشن کلیرنس کے ...

ایف آئی اے کی کراچی ائیرپورٹ پر بڑی کارروائی، اسمگلنگ کی کوشش ناکام

بارش کا 75سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،دبئی، شارجہ، ابوظہبی تالاب کا روپ دھار گئے وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

متحدہ عرب امارات میں طوفانی ہواں کے ساتھ کئی گھنٹے کی بارشوں نے 75 سالہ ریکارڈ توڑدیا۔دبئی کی شاہراہیں اور شاپنگ مالز کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گئے۔۔شیخ زید روڈ پرگاڑیاں تیرنے لگیں۔دنیا کامصروف ترین دبئی ایئرپورٹ دریا کا منظر پیش کرنے لگا۔شارجہ میں طوفانی بارشوں سیانفرا اسٹرکچر شدی...

بارش کا 75سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،دبئی، شارجہ، ابوظہبی تالاب کا روپ دھار گئے

قومی ادارہ برائے صحت اطفال، ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

کراچی میں بچوں کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں بیڈز ۔ ڈرپ اسٹینڈ اور دیگر طبی لوازمات کی کمی نے صورتحال سنگین کردی۔ ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا۔قومی ادارہ برائے صحت اطفال میں بیمار بچوں کے لیے بیڈز کی قلت کے سبب ایک ہی بیڈ پر ایمرجنسی اور وارڈز میں 4 او...

قومی ادارہ برائے صحت اطفال، ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا

سندھ حکومت کا کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

سندھ حکومت کاصوبے بھرمیں کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ، مشیرکچی آبادی سندھ نجمی عالم کیمطابقمیپنگ سے کچی آبادیوں کی حد بندی کی جاسکے گی، میپنگ سے کچی آبادیوں کا مزید پھیلا روکا جاسکے گا،سندھ حکومت نے وفاق سے کورنگی فش ہاربر کا انتظامی کنٹرول بھی مانگ لیا مشیر کچی آبادی نجمی ...

سندھ حکومت کا کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر