وجود

... loading ...

وجود
وجود

عہدِ نو

جمعرات 22 فروری 2018 عہدِ نو

نئے عہد کا گجر بج گیا! شعبدہ بازی کا دور تمام ہوا۔ گردوپیش میں ایک سرشاری کی کیفیت ہے ۔
وقت ایک مختلف رو میں بہتا ہے!نوازشریف تاریخ کی ہی نہیں وقت کی بھی مخالف سمت میں کھڑے ہیں ۔روحِ عصر اُن سے اُوبھ گئی۔وہ عوامی رہنما کہلانے پر مُصر ہے۔ مگر اُن کے نقش قدم جی ایچ کیو کے چار نمبر دروازے پر اُبھرے رہتے ہیں۔ وطنِ عزیز اپنا سب سے بڑا سجدۂ سہو کررہا ہے۔ تاریخ سنور رہی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اپنا فیصلہ صادر کردیا۔ انتخابی اصلاحات کے مقدمے میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کسی بھی نااہل شخص کو سیاسی جماعت کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا۔ نکتہ بالکل واضح ہے کہ ایک نااہل شخص اگر پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا تو وہ کیسے کسی جماعت کی سربراہی کرسکتا ہے؟عدالت کے سامنے سوال تھا کہ بنیادی حقوق میں اخلاقیاتِ عامہ(Public morality)کا کوئی تناظر بنتا ہے یا نہیں۔ عدالت نے واضح کردیا کہ بنیادی حقوق میں اخلاقیات ِعامہ کا التزام رہے گا۔ اس کا قانونی اثر یہ پڑا کہ آئین کی دفعہ 203 کو اب دو دیگر دفعات 62اور 63 کے تحت دیکھا جائے گا۔ اس تشریح نے امکانات کی ایک نئی دنیا کو آباد کردیا ہے۔ ہمارا گردوپیش بدل سکتا ہے۔ ایک ایسے قانونی سماج کا خواب جہاں دولت راج نہ کرتی ہو، جہاں اقتدار اشرافیہ کی دہلیز پر سجدہ ریز نہ رہے۔ جہاں عام لوگ حکمران کے کُرتے کا حساب مانگ سکیں۔ اور حکمران کے ماتھوں پر تیوریاں نہ چڑھتی ہوں۔ انسانی سماج اگر جوبداہی کے احساس سے خالی ہو جائے تو وہاں انسان نہیں حیوان حاکم بن جاتے ہیں۔ ہمارا حال مختلف نہیں۔ مگر نوازشریف ایک اور گیت الاپ رہے ہیں۔ حکومت کے لیے ہی نہیں ، سیاسی جماعت کی قیادت سے بھی نااہل نوازشریف!!

ولیم ایورٹ گلیڈ اسٹون اُن پانچ برطانوی وزرائے اعظم میںشامل تھے جنہوں نے وزیراعظم کے طور پر سب سے لمبا عرصہ گزارا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں اُن کی وزارت عظمیٰ کا عرصہ بارہ برس اور 126دنوں پر محیط رہا۔ یہ فقرہ اُن سے ہی منسوب ہے جسے ایک لہکتا حوالہ بن کرانصاف کے چہرے کوتاریخ کے دورام میں اُجالناہے:

’’ Justice delayed is justice denied.‘‘

مگر یہی برطانوی وزیراعظم ایک فقرے سے بھی دوچار ہوا جو تب زباں زدِ عام تھا:

’’اوپر سے آکسفورڈ اندر سے لیور پول‘‘۔مراد اس فقرے سے ہے ’’ بظاہر عالم لیکن اندر سے تاجر‘‘۔ نوازشریف کے باب میں یہی مضمون ہے۔علم وغیرہ کی کھکھیڑوں میں وہ کیا پڑتے ،باہر سے ایک سیاست دان کے طور پر بروئے کار آتے ہیں مگر ایک تاجر کے علاوہ کچھ نہیں۔ نوازشریف اقتدار کی گھمن گھیریوں میں اپنا رسوخ بڑھا تے بڑھاتے اب ریاست تک سے اوپر اُٹھنے لگے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جن کی انا کے سامنے پاکستان بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ہموار اور استوار انسانی معاشروں میں افراد نہیںادارے اور اُصول حکمران ہوتے ہیں۔ مگر حیوانی معاشروں میں انسان اداروں اور اُصولوں پر بھی حکمرانی چاہتے ہیں۔ نوازشریف ایک ایسا ہی کردار ہے جس سے زمیں بیزار ہوئی۔ سسلین مافیا کے الفاظ شریف خاندان کو بہت کَھلتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وضاحت کی ،یہ لفظ ہم سے منسوب کیا گیا۔ مگر یہ کون لوگ تھے۔ گاڈ فاڈر کا ناول بتاتا ہے : سسلین لوگوں نے حلف اُٹھایا ہواتھاکہ ایک قانونی معاشرے کے متوازی اُن کی اپنی سفاکانہ حکومت ہوگی‘‘۔کیا ہم مختلف ماحول میں ہیں؟ دائیں بائیں موجود سیاسی جماعتوں کے حاشیہ برداروں کو توچھوڑ یے ! بڑے بڑے تجزیہ کار، دانشور اور صاحبانِ فکرونظر بھی غرض کی غلامی میں ادنیٰ نکلے۔

ایک دولت مند اشرافیہ معاشرے کے کچھ طاقت ور عناصر سے مل کراپنے کہن سالہ سماجی اور سیاسی بندوبست رائج رکھنے پر تُلی ہے۔ یہ کھیل قانون کے خلاف ہے ۔ پھر بھی اسے ایک زبردست مہم کے ذریعے عوامی تائید کا حامل بتایا جارہا ہے۔ حکومت ، تاجر، مذہبی اشرافیہ کے چند منتخب لوگ اور ذرائع ابلاغ مل کر عوام کی سوچ کو قابو رکھنے میں کوشاں ہے۔ مگر وقت ایک مختلف رو میں بہتا ہے۔ نوازشریف کے حق میں ایک ایسا بیانیہ دولت کی ریل پیل میں مستحکم کیا گیا کہ عدالتی فیصلوں کو عوامی تائید نہیں مل سکی۔سیاسی جماعت اب بھی برقرار ہے۔ اور نون دراصل نوازشریف کے علاوہ کچھ نہیں۔اب وہ شخص عدالتوں میں رسوا ہوتا ہے جو اقتدار میں آنے سے پہلے نوازشریف کے لیے یہ کہتا پھرتا تھا کہ اگر نوازشریف حکومت میں نہ آئے تو پاکستان کا کیا بنے گا؟اصل سوال ان لوگوں کا دوسرا ہے کہ اگر نوازشریف حکمران نہ رہے تو ہمارا کیا بنے گا؟درحقیقت یہ ایک مختلف پاکستان ہے جسے روایتی ذرائع ابلاغ سے کوئی سروکار نہیں۔ جسے معلومات کے لیے اب دوسرے ذرائع میسر ہیں۔ مسلم لیگ نون ابھی تک اقتدار میں ہے ۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر وہ برقرار رہے گی اس کا فیصلہ ابھی نہیں چند ہفتوں میں ہوگا۔ جب نگراں حکومت قائم ہو جائے گی اور نئی سیاسی صف بندیاں ہونگیں۔پنجاب میں نوازشریف کی عوامی حمایت کا حقیقی تجزیہ بھی تب ہوگا۔ ابھی بہت سے فیصلے آنے باقی ہیں۔ جو نوازشریف کے بارے میں ایک حتمی رائے متعین کریں گے۔جو کل تک کسی اور کے ساتھ تھے، نوازشریف کے ساتھ کل کیوں ہوں گے، جب وہ اُن کے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو جائیںگے۔ ایک نہیں کئی ایک وزراء بھی امید سے اِدھر اُدھر تاک جھانک کر رہے ہیں کہ

کوئی تو ہو جو میری جڑوں کو پانی دے آج کا نوازشریف 1999 سے مختلف ہے۔ تب عمر نے اُن کے مستقبل کی امید کو چاٹا نہ تھا۔ایک حرص ہے جو کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔ مگر ارسٹھ (68)برس میں آتش کہاں جوان رہتا ہے۔ نوازشریف کا بیانیہ ذرائع ابلاغ کی چکاچوند جلوہ گاہ سے نکل کر اب عملی میدانوں میں امتحان کے لیے پیش ہوگا۔ یہی نہیں ، اُن کی عوامی تائید کا بھی درست اندازا لگانے کا ٹھیک وقت سامنے کھڑا ہے۔ اُنہیں سب سے پہلے اُس جماعت کو سنبھالنا ہے جس کی وہ صدارت کے اہل نہیں رہے۔ یہ کیسا جبر ہے کہ ایک شخص جو پارٹی صدارت کا اہل تک نہ رہے، اُ س کے بارے میں یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ نون اُن کے سوا کچھ نہیں۔یہ سیاست دان نہیں دیوتا ہیں۔ یہ پارٹیاں نہیں پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔اوریہ عوام نہیں، ان کے کنزیومرز ہیں۔ تب ہی تو عدالتی فیصلوں کے سامنے یہ اتنے جری ہوتے ہیںکہ ساتھ ہی اعلان کرتے ہیںکہ تم ہمارا کیا بگاڑ لو گے؟

جمہوریت ایسی شعبدہ بازیوں کے ساتھ کبھی اعتبار اوروقار نہ پاسکے گی!نوازشریف مختلف سمت پر کھڑے ہیں اور وقت دوسری سمت میں تیزرفتاری سے بہہ رہا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر