وجود

... loading ...

وجود
وجود

انجام

بدھ 21 فروری 2018 انجام

قصور کا عمران علی اپنے انجام کو پہنچا اگرچہ ابھی حتمی فیصلہ میں کچھ وقت لگے گا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس کا سہراجولوگ اپنے سر باندھ رہے ہیں وہ ذرا سوچیں تو سہی کہ گذشتہ تقریباً 10 سال سے تخت لاہور پر قابض ہیں اور صرف قصور ہی میں گذشتہ مختصر عرصہ میں ریکارڈ کے مطابق 8 بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا، جن کے قتل کا اعتراف بھی مجرم عمران علی نے کردیا جو اعترافات سامنے آئیں ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجرم عمران علی ایک جانب انتہائی سفاک درندہ ہے تو دوسری جانب انتہائی کمزور دل انسان کہ اس طرح سے اعتراف جرم کر رہا ہے جیسے اس نے جرم نہیں کارنامے انجام دیئے ہوں ۔8 بچیوں کا بہیمانہ قتل کرنے کے بعد اتنا کمزور دل ہونا سمجھ سے بالاتر ہے ،پھر مختصر مدت میں جس طرح سے 54 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے وہ بھی حیرت ناک محسوس ہوتا ہے کہ مجرم کیا پکڑا گیاوہ سارے جو منہ میں تالا لگائے بیٹھے تھے اچانک ان کے تالے کھل گئے اور ہر شخص نے ملزم کے گناہوں کا پردہ چاک کیا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان 54 افراد میں سے جن افراد نے ملزم کے پہلے قتل کی گواہی دی ہے وہ اس عرصہ میں خاموش کیوں رہے اگر وہ اس درندے کے پہلے قتل کے بعد ہی قانون کی مدد کرتے اور پولیس کو گواہی ریکارڈ کراتے تو کم از کم 7 بچیاں اس طرح درندگی کا شکار ہونے کے بعد قتل نا ہوتیں ۔54 گواہوں کے بیانات 44 سے 55 گھنٹوں کے درمیان ریکارڈ کر لیے گئے دستیاب اطلاعات کے مطابق اس خصوصی عدالت نے روزآنہ 9 سے11 گھنٹے کیس کی سماعت کی کیس کی سماعت کرنے والے جج اور عدالتی عملہ ہی نہیں سماعت میں شریک تمام افراد ہی انسانی ضروریات کے پابند ہیں جن میں رفع حاجات ،چائے اور کھانے کے وقفہ اور اس دوران کم از کم 2 نماز کے وقفہ شامل ہیں اس طرح کل حقیقی سماعت کا دورانیہ کسی بھی طور 50 گھنٹے سے زائد نہیں بنتا اس عرصہ میں گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ ہوئے ہیں وکیل صفائی اور وکیل استغاثہ نے گواہوں پر جرح بھی کی ہے گویا ایک ایسا نظام چلا ہے جس میں ہر چیز کمپیوٹرز کے انداز میں آگے بڑھی ہے کہیں ایک لمحہ کا بھی ضیاع نہیں ہوا ہے لیکن ابھی اپیل کا مرحلہ باقی ہے اور یہ معاملہ جو بظاہر 7 دن کی انتہائی محدود مدت میں اپنے انجام کو پہنچا ہے درحقیقت ابھی اس کا اصل حقیقی انجام بہت دور ہے ۔

اس فیصلہ کے اعلان کے ساتھ ہی چند سیاستدانوں نے اس کو اپنا کارنامہ قرار دینا شروع کر دیا ہے کہ انصاف ایسے ہوتا ہے میرا یہاں پر ان سیاستدانوں سے یہ سوال ہے کہ یہ ان کا کارنامہ ہے یا فرائض کی ادائیگی جس کی وہ بھاری قیمت وصول کر رہے ہیں۔ملزم عمران جب پکڑا گیا تھا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کرکے اس کا اعلان کیا تھا اس موقع پر زینب کے والد بھی موجود تھے لیکن وزیراعلیٰ نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور سارا اعزاز اپنے نام کیا جبکہ ملزم کو گرفتار کرنا پولیس کے فرائض میںشامل ہے اور فرض کی ادائیگی کوئی کارنامہ نہیں اصل کارنامہ تو وہ ہوتا کہ پہلی واردات کے بعد ہی ملزم گرفتار کیا جاتا لیکن اس وقت بھی وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس بلکہ کسی بھی پریس کانفرنس کی ضرورت نہیں تھی ۔

معزز جج نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ اگرچہ قانون کے دائرے میں تو پورا اترتا ہے لیکن دستور پاکستان کے تحت کوئی بھی قانون قرآن وسنت سے بالاتر نہیں ہو سکتا اور ایک مرتبہ سے زائد سزائے موت کا فیصلہ دینا قرآن کے احکام کے خلاف ہے کسی بھی مجرم کو سزائے موت صرف ایک بار دی جا سکتی ہے کیونکہ دوسری تیسری اور چوتھی سزا کے لیے مجرم کا زندہ اور صحت مند ہونا ضروری ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ سزا پر عملدرآمد کے بعد دوسری ،تیسری اور چوتھی مرتبہ عملدرآمد کس طرح ممکن ہو گا اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتے ہیں کہ میں ہی ماروںگا پھر زندہ کرونگا پھرماروں گا پھر زندہ کرونگا ۔اب مارنا اور مارنے کے بعد زندہ کرنا صرف رب کائنات کی قدرت میںہے اس طرح سنائی جانے والی سزا دراصل خدائی نظام کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی خواہش کا اظہار ہے کسی انسان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی کو زندہ کر سکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ رب کائنات نے عطا کیا تھا کہ وہ مردہ کو زندہ کر دیا کرتے تھے لیکن اس کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو الفاظ استعمال کیا کرتے تھے وہ اس امر کا اظہار تھے کہ زندہ اور مردہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف رب کائنات کو ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے “اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو” اور مردہ اٹھ بیٹھتا ۔اب جج صاحب کیا کرینگے کہ پہلی سزا پر عمل کے بعد باقی سزاہوں پر عمل بھی کراسکیں ایک مرتبہ سے زائدسزائے موت کا حکم کار ربی میں مداخلت ہے اور دستور پاکستان اس کی اجازت نہیں دیتا ۔

قصور کے اس واقعہ کے بعد بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں ایسی بہیمانہ وارداتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے قصور میں تو شدید عوامی ردعمل کے بعد ” مجرم” پکڑا بھی گیا اور خادم اعلیٰ نے اس کی گرفتاری کا سہرہ بھی اپنے سر باندھا لیکن دیگر علاقوں میں ہونے والی وارداتوں میں ملوث کوئی بھی مجرم نہیں پکڑا جا سکا مجرم عمران کو شدید عوامی دباؤ کے نتیجے میں تیز رفتاری سے مقدمہ چلا کر سزا سنا دی گئی لیکن ابھی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے مراحل باقی ہیں اور مجرم کے انجام تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا اصل معاملات یہ نہیں ہے کہ ایک واقعہ میں ملوث ملزم کو سزا دے دی جائے اصل معاملہ یہ ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس کے نتیجے میں جرائم کا حقیقی سدباب ہو سکے موجودہ قوانین سرعام سزاؤں کی اجازت نہیں دیتے اور پھر “حقوق مجرمان “کی نام نہاد تنظیمیں بھی سرعام سزاؤں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں ان تنظیموں کی نظر میں موت کی سزا بھی غیر انسانی ہے ان کا موقف ہے کہ کسی جج کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی مجرم کی موت کا فیصلہ کر سکے ۔

ایسے مسائل کا واحد حل اسلامی نظام عدل میں ہے اسلام کا نظام عدل ظالمانہ نہیں منصفانہ ہے کہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں جس میں ذاتی عناد اور خطاء کا شائبہ بھی موجود ہویہ رب کائنات کا نازل کردہ نظام ہے اسی پر عمل کر کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے سرعام سزائیں انسان میں خوف پیدا کرتی ہیں اور یہ خوف ہی وہ عامل ہے جو انسان کو شیطان بننے سے روکتا ہے اگر کسی نئے ملزم کو نہیں صرف جیلوںمیں سزائے موت کے قیدیوں کو سرعام پھانسیاں دے دی جائیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں کسی کو کسی کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے کی ہمت بھی نا ہو گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر