وجود

... loading ...

وجود
وجود

ظفر خان نیازی مرحوم

هفته 20 جنوری 2018 ظفر خان نیازی مرحوم

قیام پاکستان کی معطر اور مقدس ساعتوں کواگرچہ ہمارے علاقے میں بعض لوگ ’’ لوٹیوں والا سال ‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں لیکن پاکستان کے قیام کے ساتھ نعمتوں کی صورت ہمارے اس علاقے کو ایسی نابغہ روزگار شخصیات کا وجود بھی میسر آیا جن کی خوشبو نے ایک عالم کو مہکایا، جن کے سوز وگداز نے ابدیت اور دوامی پائی ۔ سید محمد عالم مرحوم نے اس سرزمین پر اپنی محبت کے لافانی نقوش چھوڑے ہیں ۔وہ ہندوستان کے جدید تعلیم یافتہ اردو دان طبقہ کے نمائندہ تھے ۔بڑے لوگوں کا طرز زندگی بھی موثر اور دلنشین ہوتا ہے ۔سید محمد عالم سے اُن کے ندیم تک سب میانوالی کے محسنین میں شامل ہیں ۔

ظفر خان نیازی جنہیں آج مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ،اُن سے میری پہلی ملاقات عالمزہائی ا سکول میں اُن کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ہوئی تھی جس کے میزبان سید ندیم عالم تھے ۔

میانوالی سے محبت سید ندیم عالم اور ان کے خاندان کی سرشت کا حصہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس ریٹائرڈ نیول کمانڈر نے اپنے گاڑی کی بیک ا سکرین پر جلی حروف میں لکھوایا ہوا ہے’’Love Mianwali ‘‘بلکہ ان سے ملنے والا ہر شخص اِس کی گواہی دیتا ہے ۔یہ محبت بھی ظفر خان نیازی سے اِن کے گہرے تعلق کی ایک وجہ ہے۔کیونکہ ظفر خان نیازی کا کہنا تھا کہ
’’ میانوالی کا تہذیبی رکھ رکھاؤ اپنی پسماندگی کے باجود میرے لیے آئیڈیل ہے اپنی تخلیقات میں جب اعتماد کی بھر پور فضا پیدا کرنی ہو یا پھر ایک بہتر معاشرے کا تصور دینا ہو۔اُس وقت میری چشم تصور میں میانوالی ہوتی ہے ‘‘ ۔

ظفر خان نیازی اپنی پیشہ ورانہ خدمات کے ساتھ ساتھ ایک معتبر شاعر اور مقبول نثر نگار کے طور پر ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔وہ پاکستان بننے سے ایک دن کم ایک سال پہلے 15 ۔ اگست1946 ء کو پیدا ہوئے ۔ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد کوئٹہ چلے گئے ۔ 1984 ء میں وہاں سے واپسی کے بعد راولپنڈی اسلام آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان اور آزاد کشمیر میں خدمات سر انجام دینے کے بعد 2006 ء میں ریڈیو پاکستان سے گریڈ20 میں ریٹائر ہوئے اس کے بعد انہوں ماہنامہ میگزین ’’ بانگ ‘‘ میں بھی خدمات سر انجام دیں ۔

ظفر خان نیازی کی علم اور ادب سے وابستگی کی کئی جہتیں تھیں ۔ وہ شاعر ،نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگار بھی تھے ان کے کئی کھیل پاکستان ٹیلی ویژ ن سے نشر ہوئے ۔ تیرہ تیرہ اقساط پر مشتمل دو پلے ’’ جندڑی نال جہان ‘‘ اور ’’ مستقبل ‘‘نے خاطر خواہ شہرت پائی ۔ پی ٹی وی کوئٹہ سے ان کی کئی منی سیریل آن ایئر ہوئیں ۔درجنوںیاد گار افسانے ان کے کریڈٹ پر ہیں ۔ گذشتہ کئی سال سے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک تھے ۔ ریڈیو پاکستان سے ایک طویل وابستگی کی وجہ سے اہم شخصیات کے انٹرویو کیے لیکن جو سرشاری انہیں غازی علم الدین شہید کی فیملی سے انٹرویو اور ملاقاتیں کرکے ہوئی تھی اُ سے وہ اپنی خوش بختی قرار دیتے تھے ۔ غازی علم الدین شہید کے حوالے سے اُن کی تحریرں میں عقیدت کا رنگ نمایاں تھا اور یہ عاشقان پاک طینت کے چاہنے والوں میں بے حد پسند کی گئیں ۔

’’ خواب کنارے ‘‘ ۔ ’’ آبشار ‘‘ ۔ ’’ برف پوش چمنی ‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں ۔ ’’ پرائی نظمیں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں عالمی ادب کی معروف نظموں کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔ چوکور پہئے ان کی نثری کتاب ہے جو ’’ اختصاریوں ‘‘’’ افروازم (Aphorism ) پر مشتمل ہے ۔
ان کی شاعری ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کی جمالیاتی اور لفظی عکس بندی فطرت سے ان کی وابستگی کا اظہاریہ نظر آتا ہے ۔ ڈاکٹر تبسم توصیف کا کہنا ہے کہ

’’حُسنِ انسانی کا نقطہ عروج نسوانی حُسن ہے چونکہ ظفر کو حُسن کی ہر صورت سے پیار ہے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ حُسنِ نسوانی اس کو اپنی طرف مائل نہ کرے مگر یہ لے اِس کے ہاں مقابلتاً بہت ہی مدہم ہے ‘‘
اُس کے روح پرور اشعار میں الم خیز راحت اُس کے رگ و پے میں قطرہ قطرہ اُترے سوزِ بے پایاں کی غماز ی کرتی ہے۔ ظفر خان نیازی ایک درویش صفت انسان تھے ۔ یہی وصف اُس کے شاعرانہ اظہاریے پر اکثر غالب رہتا ہے جو اُس کے اشعار میں معجز بیانی کی کیفیت کونمایاں کرتا ہے ۔
میں لا علمی میں حرف آ گہی کہتا رہا ہوں
دِ یا بن کر جلا ہوں روشنی کہتا رہا ہوں
مرے ساتھی ہیں بچے، تتلیاں، جُگنو پرندے
میں اپنی زندگی کو زندگی کہتا رہا ہوں
اسی طرح ان کی آخری غزل کا شعر ملاحظہ ہو
میں دیکھ آیا ہوں رستے کے سب نشیب و فراز
میں تھک کے اب کہیں ہموار ہونا چاہتا ہوں
ظفر خان نیازی میانوالی کے ادب کا ایک ایساد بستان ہے جس نے اپنی وجدانی کیفیات و تحربات اور تخلیقی شعور کے ساتھ کورے کاغذ پر ایسے حروف لکھے ہیں جن کی سر گوشیاں حرف شناس قافلوں کے قدم روک لیتی ہیں ۔ یقیناً ایسا قلمکار ہی
اپنی تخلیقات کی بدولت زندہ رہتا ہے ۔ واصف علی واصف نے اپنے شعری مجموعے کا نام ’’ شب چراغ ‘‘ تجویز کیا تواس وقت میرے علم میں اضافہ ہواتھا کہ ’’ شب چراغ ‘‘ ایک قدرتی بوٹی کانام ہے۔یہ بوٹی رات کے اندھیرے میں روشن ہوتی ہے ، اس کی یہ روشنی اپنے اطرف کو کچھ اس انداز سے روشن کرتی ہے کہ خوشگواری کا تاثر اپنا فسوں بکھیرنے لگتا ہے ۔ بلا شُبہ ظفر خان نیازی اپنے ارد گرد کے ماحول اور دنیا میں ایک ’’ شب چراغ ‘‘ کی مانند رہے ۔
اپنے اپنے مزار میں واصف
اپنی اپنی صفات کی خوشبو
ظفر خان نیازی نے ادب کے لیے بہت نمایاں خدمات سر انجام دیں ۔ اُن کی وفات پر علمی و ادبی حلقوں کی خاموشی حساس دلوں کے لیے دُکھ اور کرب کا باعث ہے ۔ میانوالی میں تو ان کے عزیز رشتہ دار اور بہت قریبی دوست موجود ہیں مگر سید ندیم عالم دوستی کا حق ادا کرنے میں سبقت لے گئے ۔ جب وہ ناصر زیدی کا یہ شعر شرکائے تقریب کی نذر کر رہے تھے تو سُننے والے بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو گئے
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھی بہت
وہی عزیز اُسی سے محبتیں تھی بہت دکھی دل اور ٹھنڈی سانسوں کے ساتھ اُن کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعاؤں کے ساتھ اُنہی کےِ ان دو شعروں پر اپنے کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ ،۔
مٹی کی ڈھیری کو آنسو کرتے ہیں گلزار
آگ اسی پانی سے لیکن راکھ کا انبار
مٹی مل کر مٹی میں ہو جائے پُر اسرار
کون وہاں کی خبریں لائے مٹی پردہ دار
***


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر