وجود

... loading ...

وجود
وجود

کب ریاست ہوگی ماں کے جیسی؟

هفته 20 جنوری 2018 کب ریاست ہوگی ماں کے جیسی؟

افواج و عدلیہ کے علاوہ تقریباً سبھی ریاستی ادارے اپنے فرائضٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ سے غافل ہو چکے ہیں خلفائے راشدین کے دور میں تو ریاست ماں کے جیسی ہی تھی۔ہمارے ہاں تو رفاہی ادارے ریاستی اداروں کی کچھ کمی پوری کر رہے ہیں، ایدھی وغیرہ جیسے ادارے محروموں، مسکینوں ،زخمیوں اور لاوارثوں کو سنبھالنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں نوزائیدہ ناجائز بچوں کے لیے بھی ان کا اعلان ہے کہ لوگ انہیں گندگی کے ڈھیروں پر پھینکنے کی بجائے ان کے ہاں جمع کروادیں جہاں وہ ساری عمر بھی گزار سکتے ہیں یا پھر اولاد نہ رکھنے والے افراد اس بچہ کو گود میں لے سکتے ہیں،رشوت ستانی ہیرا پھیری سرکاری خزانوں سے لوٹ مار جیسے مکروہ کردار کی وجہ سے ہمارے مقتدر اداروں کا کردار ریاست کے اندر ماں کے جیسا قطعاً نہیں رہا۔

2014میں ضلع قصور کے اندر400سے زائد بچے بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کی ننگی ویڈیو فلمیں بنانے اور انہیں مستقلاً بااثر افراد کے داد عیش دینے اور راتوں کو رنگین کرنے کے گھناؤنے عمل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا سب کچھ میڈیا نے ہائی لائیٹ کیا اخبارات ان واقعات سے بھر گئے ۔پرچے درج ہوئے ملک بھر میں چیخ و پکار مچ گئی مگر گرفتاریوں اور پھر سزاؤں سے بچانے والے بھی اسی ضلع کے منتخب بااثر اور کرپٹ افراد کے ٹولے تھے ۔پھر سابقہ سال اور امسال کے دوران10معصوم کمسن بچیاں اور1بچہ بھی درندوں کے بھینٹ چڑھ گئے ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہے مگر حکومتی مشینری بااثر افراد اور منتخب ارکا ن صرف مجرموں کے تحفظ کا کردار ادا کرتے رہے ۔

چند دن قبل جب آٹھ سالہ بچی زینب کی لاش گندگی کے ڈھیر پر ملی تو قصور میں قیامت ٹوٹ پڑی اور جلسے جلوسوں میں بھی دو افراد ریاستی پولیس کی دہشت گردی سے شہید ہوگئے، ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی نوجوان اور کم سن بچیوں کو اغوا کرکے خونخوار درندوں جیسی صفت کے افراد زیادتیاں کرکے پھر قتل کے بعد ان کی لاشوں کو چوکوں و گندگی کے ڈھیروں پر پھینک ڈالنے جیسے مزید واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔رسول اکرمﷺ کے دور میں ایک گونگی بچی کا سر کچل ڈالا گیا وہ آپﷺ کے پاس لائی گئی چونکہ وہ بولنے سے قاصر تھی اس لیے آپﷺ ؒ خود مشتبہ افراد کے نام لیتے رہے جب ایک یہودی کا نام لیا گیا تو بچی نے ہاں میں سر ہلایا آپﷺ نے اس یہودی مجرم کو گرفتار کروا کر سر عام اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل ڈالنے کا حکم فرمایا۔ اس طرح وہ اس دور میں عبرت کا نشان بن گیا اور بعد ازاں کو ئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوا پاکستان بنتے وقت پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہکے نعرے گونجتے رہے مگر70سال بعد بھی اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہ ہو سکا ہے ہم رسول اکرم ﷺ کے طور طریقوں کو بھلا بیٹھے ہیں اور ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔

لاہور کے باغبانپورہ تھانہ کی حدود میں پپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا اس سے زیادتی کرنے کے بعد اسے ریلوے تالاب میں پھینک ڈالا گیا گو ضیاء الحق کا دور تھا مگر قاتل گرفتار ہوئے کھلی جگہ پر صبح سے شام تک پھانسی پر لٹکتے رہے ،دوردور سے افراد نے پہنچ کر ان بد کرداروں کا یہ حشر دیکھا کہ گرفتاری کے تین دن بعد ہی پھانسی گھاٹ نصب کر ڈالا گیا تھا اس کے بعد کوئی معصوم کم عمر بچہ کبھی اغوا نہیں ہوا جب تک ہم معاشرہ سے بے حیائی فحاشی بلیو پرنٹ فلمیں اور مخلوط محافل میں ڈانس شراب ختم نہیں کر ڈالتے کہ یہ سارے اعمال لوگوں کو غلیظ افعال پر ابھارتے رہیں گے ۔ ان واقعات زنا و شہوت جیسی خواہشات جنم لیتی ہیں، اسلامی اقدارکا حامل معاشرہ قائم کرنا ہوگا وگرنہ زینب بچی جیسے واقعات مسلسل جاری رہیں گے نیز ایسے درندہ صفت افراد کو بھی کھلی جگہوں پر لٹکانا ہوگا جو کہ انگریز کے دیے گئے قوانین کے تحت نہیں بلکہ اسلامی قوانین کے نٖفاذ سے ہی ممکن ہوسکے گا پاکستان کے پچانوے فیصد مسلمانوں نے اگر اپنا وطیرہ تبدیل نہ کیا اور موجودہ قوانین کو اسلامی شرعی قوانین سے تبدیل نہ کیا تو پھر غنڈہ عناصر اسی طرح دندناتے پھرتے رہیں گے۔

ہر منتخب وڈیرے جاگیردار سرمایہ دار نے ایسے افراد پال رکھے ہوتے ہیں جو کہ انہیں راتوں کی عیاشیوں کے لیے “ایسی سپلائی لائن”بحال رکھتے ہیں پھر وہی انہیں تحفظ دیتے رہتے ہیں سابق ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں ایوان صدر ایسی غلیظ ترین سرگرمیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا وہاں راتیں جاگتی تھیں اور شراب و خمر و ڈانس کی محفلوں کا انعقاد ہوتا تھا، نشہ کی حالت میں انسانی شہوت کا بڑھ جانا قدرتی امر ہے اس لیے ایسی محافل میں رات گئے کیا ہوتا ہے وہ سبھی پر واضح ہے اپنی بہو بیٹیوں کے تحفظ کے لیے ہمیں نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو اپنانا ہوگا تاکہ مجرم فوری سزائیں پاکر نشان عبرت بن سکیں ،مخلوط نظام تعلیم کا فوراً خاتمہ کرکے بنیادی دینی تعلیمات کو بھی نصاب کا حصہ بنانا ہو گا ،ایک فرد کا قتل پورے معاشرے کا قتل ہے تو پھر بھی قاتل دندناتے پھریں کہ قاتلوں کو مقتدر قوتیں تحفظ فراہم کرتی ہیں اسی وجہ سے بد کردار درندے حوصلہ پاکر مزید وارداتیں کرنے سے نہیں چوکتے۔

امن عامہ قائم کرنا اور عوام کے جان و مال کا تحفظ حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ماڈل ٹاؤن پر14افراد کے پولیس کی طرف سے بہیمانہ قتل اور تقریباً100افراد کو گولیاں مارڈالنے کے ظالمانہ عمل پر فوراً ایکشن لے کر قاتل جہنم واصل کر دیے جاتے تو منتخب حکمرانوں کو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے الٹا قاتل پولیس والوں کو ترقیاں دینا مقتولوں کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔میڈیا سے بھی نیم عریاں خواتین کی تصاویراور پھر انہیں اشتہاری مہم کے لیے بھی استعمال کرنے کی قطعاً ضرورت نہ ہے کالجوں ا سکولوں میں بچیوں کے ڈانس اور گانے بجانے کی محافل ،میوزیکل کنسرٹس بھی بند ہو جائیں تاکہ ابھرتی جوانیوں ہی میں سفلی جذبات منتقل نہ ہو ں پھر اسلامی طور طریقوں کے مطابق بالغ ہوتے ہی نوجوان بچے بچیوں کی شادیاں کر ڈالنے سے بھی زنا جیسی لعنت سے نجات مل سکے گی۔

ہمیں زینب کی طرح کی بچیوں پر جنسی تشدداور ان کے بہیمانہ قتل کو روکنے کے لیے اسلامی طور طریقے اختیار کرنے ہوں گے مکمل اسلامی نظام نافذ کرنا ہوگا جس کا ہم نے قیام پاکستان پر وعدہ بھی کیا تھا۔خداوندی احکامات کی مکمل پیروی کی جائے تو ایسے واقعات کا انعقاد نہیں ہو گا وگرنہ ہمارا رونا پیٹنا احتجاج کرنا کسی کام نہ آسکیں گے! جلد ایسا نہ کیا گیا تو بابا پھر یہ سب کہانیاں ہیں!
***


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر