وجود

... loading ...

وجود
وجود

اب بھی گھر واپس آجائو!!!

جمعرات 04 جنوری 2018 اب بھی گھر واپس آجائو!!!

مشہور محاورہ ہے کہ ـ”اپنی داڑھی غیروں کے ہاتھ پکڑوانا” جس کا واضح مطلب ہے کہ اپنے مسئلہ کا حل غیروں سے ڈھونڈنایا غیروں سے کہہ دینا کہ ہمارا فیصلہ آپ کردیویں کہ وہ تو آپ کو قعرمذلت ہی میں گرائیں گے اپنی عزت کے محافظ آپ خود یا آپ کے ساتھی (کولیگ )تو ہوسکتے ہیں کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے؟ممبران اسمبلی کی ناہلیت یا اہلیت کا کام الیکشن کے انعقاد کے کچھ عرصہ تک توالیکشن کمیشن کے قائم کردہ الیکشن ٹربیونلزکے پاس ہوتا ہے یا پھر خود الیکشن کمیشن کے پاس۔ اگر کسی کے کردار پر مزیدکوئی اس کے بعد مسئلہ اٹھ کھڑا ہو تو پارلیمنٹ خود اسے اپنی کسی کمیٹی کے ذریعے طے کرسکتی ہے جب پاناما کا مسئلہ اٹھا تو پرانے سیانے پارلیمنٹرینز نے یہی کہاکہ اپنے گھر میں ہی اس مسئلہ کا حل ڈھونڈیںمگر جن کے ذہن میںاقتدار کا غرور سما چکا تھاوہ کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ تھے براہ راست سپریم کورٹ میں جا دھمکے۔

پیپلز پارٹی کا خیال تھاکہ الیکشن اصلاحات کے ساتھ ایسی آئینی ترامیم بھی کر لی جائیں جس سے کوئی ہم لاکھوں عوام کے نمائندوں کو بے عزت کرکے اسمبلیوں سے ہی کان سے پکڑ کر باہر نہ نکال سکے اور ضیاء الحق کی قائم کردہ آرٹیکل 62کی خصوصی دفعات جن میں ابہام موجود ہے انہیں ختم کردیا جائے یا پھر ان میں ایسی ترامیم کر لی جائیں جس سے اسمبلی میں توڑ پھوڑ سے بچا جاسکے اور اسمبلی ممبران کی عزت سر عام نیلام نہ ہومگر جب اقتداری ممبران ہی نہ مانے تو پھر ترامیم کیسے ہوسکتی تھیں؟پارلیمنٹ متحرک ہوتی تگڑا لاء بناتی تو سپریم کورٹ میں ایسے مسائل نہ جاتے جنہوں نے 184پر بھی اپنے اختیارات معمولی مسائل تک بھی خود ہی بڑھا لیے ہیں۔

پارلیمنٹ کو چھوڑ کر جب اپنے اختلافی مسائل ممبران نے جب دوسرے فورم کے حوالے کردیے تو اس کا نتیجہ سال سے زیادہ ٹاک شوز اور دھما چوکڑی کے بعدنااہلیوںحتیٰ کہ وزیر اعظم کو بھی اسمبلی سے دھکا دے کر باہر نکال ڈالنے پر منتج ہونا تھا۔
اب بڑی مخالف پارٹی کے سیکریٹری جنرل ترین صاحب کو بھی گھر جانا پڑا”دشمن مرے خوشی نہ کریے سجنا وی مر جانا”ایک گراتو دوسروں نے تالیاں بجائیں دوسرا گرا تو پہلوں نے خوشیاں منائیںاور عمران خان خوش قسمتی سے بچ رہے حالانکہ نیازی لیکس کے خود بنانے کا واضح بیان دیا اور لاکھوں روپے اسلام آباد میں پلاٹ خریدنے کے لیے ایٖڈوانس جمع کروائے مگر ان کا ذکر ملکیتوں میں نہ کرسکے جس سے نااہل کردیا جانا واضح تھا اب ن لیگی چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ انصاف کا ترازو برابر نہیں تول رہا۔کچھ بھی ہو کیا کبھی افواج پولیس عدلیہ نے بھی اپنا احتساب کسی دوسرے ادارے کو کرنے دیا ہے؟ ان کی ادارہ کے اندر بنی کمیٹیاں اور مخصوص ادارے اس کام کو کرتے رہتے ہیںاور باہر کے لوگوں کو اس کی کانو ںکان خبر بھی نہیں ہوتی ۔

پارلیمنٹ کے حوالے سے تو عمران خان تواتر سے اس پر لعنت بھیجتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ اس میں سارے چور اور ڈاکو بیٹھے ہیں اور خود ماہانہ بطور ممبر تنخواہ وصول فرماتے اور مہینوں تک اس میں آنا مناسب خیال نہیں کرتے سب کچھ کے باوجود پارلیمنٹ نہ ختم ہوگئی ہے نہ بند ہو گئی تھی کہ وہاں ایسابل ہی پاس نہ ہوسکا کہ ہم اپنے ممبران کے بارے میں خود غور وغوض کیاکریں گے دراصل اسمبلی میں موجود اپنی سیاسی پارٹی کے ساتھیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی ایکدوسرے کا احترام کرنے کو تیار نہ ہے حتیٰ کہ گالی گلوچ اور غیر پارلیمانی گفتگوئیں کرتے رہتے ہیںایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام وہاں نہیں ہوتاکیا کبھی ممبران نے شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی ،غربت ،بیروزگاری جیسے معاملات کا بھی ذکر کیا ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔

کسی دوسرے کے احتساب کی بات کریں تو وہ سبھی اکٹھے ہو کر جواب دیں گے کہ ہمارا اپناا یک احتسابی سسٹم موجود ہے ہم خود ہی کریں گے۔آپ ہمارے معاملات میں مداخلت سے بازرہیں ۔اسی طرح افواج کے جنرلز پر آپ احتسابی تلوار نہیں لٹکا سکتے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارا اپنا اندرونی سسٹم موجود ہے اور وہی ہمارے لیے بہترین ہے ثابت یہ ہوا کہ کوئی بھی ادارہ اپنے ساتھیوں کے احتساب کے لیے آپ ممبران اسمبلی کو اجازت نہ دے گا اور نہ ہی اسمبلی کو یہ اجازت کہ آپ ان کے بارے میں کوئی قانون بنائیں یا آئینی ترمیم کر ڈالیں ۔

آپ ممبران اسمبلی ہیں کہ اپنے احتساب کے لیے آپ خود ہی سپریم کورٹ جاپہنچے ہیں اور وہ مارا اور وہ گراکہہ کر بغلیں بجاتے پھرتے ہیں سپریم کورٹ توآپ کو جو زیادہ سے زیادہ سزا دے سکتی تھی وہ دے ڈالی ہے اب جو بھی کسی اسمبلی ممبر کے بارے میں شکایت لے کر پہنچے گا اس کا سپریم کورٹ سے یہی حشر ہو گا کہ ممبران اسمبلی خدا نخواستہ کوئی پیغمبرانہ کردار تو نہیں رکھتے عام گناہ گار مسلمان ہیں آخر کوئی نہ کوئی خامی اور جھوٹ تو نکل ہی آئے گاحتیٰ کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جب دس سال کادیس نکالا حکومت سے حاصل کیا تو لندن جانے کے لیے کسی اسلامی ملک کا اقاما بنانا ضروری تھا اس وقت بہتر خیال کیا ہوگاچلو بیٹے کی کمپنی کے ہی ڈائریکٹر بن جاتے ہیں تاکہ لندن جاسکیںکبھی ممبران اسمبلی اکیلے بیٹھ کر غور کریں تو وہ بھی اپنے آپ کوکسی در خواست کے آتے ہی نا اہل ہی سمجھیں گے کہ ایسا ہونا لازمی امر ہے منتخب ممبران کا ایسا حشر نشرانہوں نے خود ہی کروایا ہے اب بھی اس پر خصوصی غور کریں اور اپنے گھر کو واپس آجائیں تو بہتر ہو گا کہ”صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیںکہتے”کوئی غیر منتخب بیورو کریٹ جج جنرل آپ منتخب ممبران سے اپنا احتساب نہیں کروانا چاہتا اور آپ لاکھوں ووٹوں کے نمائندہ منتخب ممبران اپنے فیصلے دوسرے ادارہ سے کرواتے پھرتے ہیں اور آپ کی اسمبلیوں سے چھٹیاں ہورہی ہیں۔

ایک گروہ دوسرے کی نااہلی پر اور دوسرا گروہ پہلے کی نا اہلی پر خوشیاں نہ منائے کہ در اصل دونوں ہی گھاٹے میں ہیں اور بالخصوص پورا سال منتخب ممبران اسمبلی کا ڈھول بجنے کے بعداورٹاک شوز میں ایسی بے عزتی کہ سننے دیکھنے والے بھی لوگ کہتے ہیں کہ”اب بھی شرم تم کو مگر نہیں آتی”اتنے کرپٹ اور جھوٹے ہوتو ڈوب کیوں نہیں مرتے؟مل جل کراسمبلی کی احتسابی کمیٹی کا قانون بنا کر آئینی ترمیم کر ڈالووگرنہ سارے کے سارے بے عزت ہوکر رہو گے کہ یہی آپ کا مقدر ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا کہ یہی قضا و قدر کا فیصلہ اٹل ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر