وجود

... loading ...

وجود
وجود

نئے پولیس قوانین اور حالت زار

منگل 02 جنوری 2018 نئے پولیس قوانین اور حالت زار

پولیس محکمہ کے لیے2017ء میں نئے رولز تیار کر لیے گئے ہیں پولیس ایکٹ2002ء کے تحت ڈی آئی جی آر اینڈ ڈی احمد اسحاق جہانگیر نے پولیس رولز 2017کا آخری والیم بھی تیار کر لیا ہے جب کہ تین والیم پہلے ہی2ماہ قبل آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز کی منظوری کے بعد حتمی منظوری کے لیے صوبائی حکومت کو بھجوائے گئے تھے ۔بتایا جاتا ہے والیم 4نو چیپٹرز پر مشتمل ہے جس میں آرگنائزیشن ،ویلفئیر،لاجسٹک،اکائونٹس ،ٹریفک برانچ ،بھرتی ،ریٹائر منٹ،آرمز ٹیلی کمیونیکیشن اور خصوصی یونٹس کے قوانین شامل کیے گئے ہیں 83سالہ پرانے قوانین کی جگہ اس طرح نئے رولز تیار کیے گئے ہیںپولیس کو جدید تقاضوں پر استوار کرنے کے لیے پہلے 1861پولیس ایکٹ کے تحت1934میں بننے والے قوانین تبدیل کرکے نئے پولیس رولز تیار ہو گئے ہیں یہ سب کچھ تو بہت اچھا ہے کہ پولیس کو جدید تقاضوں کے مطابق ضرور ڈھالنا چاہیے مگر در اصل تو پولیس کی فلاح و بہبود کے لیے احسن سکیموں کی تیاری اشد ضروری امر ہے۔

صرف وردیوں کی رنگت تبدیل کر ڈالنے سے پولیس ملازمین کا کوئی بھلا نہیں ہوسکتاوردی تبدیل کرنے میں بھی مال بنانے کی لمبی لمبی کہانیاں سننے کومل رہی ہیں ۔پولیس کے بارے میں عام عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ ظلم کرتی ہے ۔ر شوت ستانی کے ذریعے جعلی پرچے درج کرتی اور جو جتنا زیادہ مال لگائے اسی کے حق میں تفتیش کا نتیجہ نکال ڈالتی ہے اور پھر عدالتوں سے بھی بے گناہوں کو عام طور پر سزا ہو جاتی ہے اور اصل ملزم پولیس کو لے دے کر بچ رہتے ہیں اور وہ محاورہ بھی زبان زد عام ہے کہ چوری ڈکیتی ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس میں تھانے دار کا حصہ نہ ہوکسی حد تک تو یہ بات درست محسوس ہوتی ہے مگر سبھی چوریوں ڈکیتیوںکا پولیس کو پتہ نہیں ہوتا آجکل تو مہنگائی شدید غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے چکوں کا ہر تیسرا چوتھا نوجوان بھوکوں مرتاوارداتیا بنا ہوا ہے۔

ان سب حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کی نفری ضرورت سے بہت ہی کم ہے ایک تحصیل میں زیادہ سے زیادہ3یا4تھانے ہوتے ہیں اور ہر ایک میں ایک انسپکٹر 2,3سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کے علاوہ 12تا15تک سپاہی موجود ہوتے ہیں اب بھلا ایک پوری تحصیل کے لیے کل 70,75پولیس نفری کیا کرسکتی ہے۔پولیس فورس کم ازکم پانچ گنا بڑھانا وقت کا تقاضا ہے پھر کسی تھانہ کے ساتھ ملازمین حتیٰ کہ ڈی ایس پی وغیرہ کے لیے رہائش گاہیں قطعاً نہ ہیںکسی اہم شہر کے تھانہ کے ساتھ ایک بیرک ہوتی ہے جس میں 15,20سپاہیوں کے لکڑی کے صندوق پڑے ہوتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی چند چارپائیاں جن پر سونا اور آرام کرنا ملازمین کو نصیب بھی نہیں ہوتا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دن رات کوئی نہ کوئی ایسی واردات ضرور ہوجاتی ہے جہاں پولیس کا پہنچنا جلدی اور ہنگامی طور پر ضروری ہوتا ہے امن عامہ بحال رکھنا دہشت گردوں سے نمٹنا جو کہ جدید ترین اسلحہ اور اعلیٰ ٹرانسپورٹ رکھتے ہیں پولیس کے لیے انتہائی مشکل کام ہیں۔پھر ان کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ جس سے عام غریب آدمی کا گزارا بھی مشکل سے ہو سکتا ہے مگر انہیں تو ہروقت صاف ستھری وردی بوٹ پہننا ہوتے ہیںکسی قسم کی رہائشیں نہ ہونے کی وجہ سے پولیس ملازمین کے بال بچوں کی زندگی انتہائی ابتر گزرتی ہے اگر کسی سویلین کے مکان میں رہائش پذیر ہوں تو کرایہ اتنا زیادہ ہے کہ شاید پوری تنخواہ بھی اس کو پورا نہ کرسکے۔اگر کسی سویلین کے مکان میں ویسے ہی رہائش پذیر ہو جائیں یا اس سے ایک پورشن لے لیںتو ہر مقدمہ میںاس کی مداخلت اور سفارشوں سے پولیس نظام ہی نہیں چل سکتاالٹا پولیس ملازم ہی اس سویلین کا ملازم بن کر رہ جاتا ہے ایک کانسٹیبل اور حوالدار کی کم ازکم تنخواہ بالترتیب ایک لاکھ اور سوا لاکھ روپے ماہانہ بمعہ اعلیٰ رہائش اشد ضروری ہے اسی طرح سے ایس ایچ او انسپکٹرز سب انسپکٹرز اے ایس آئی کی سوا لاکھ سے 2لاکھ کے درمیا ن ہونا ضروری ہے اور متعلقہ تحصیل کے ڈی ایس پی کوتو ہر صورت دو لاکھ 20,30ہزار روپے سے زائد تنخواہ دی جانی چاہیے پھر ان سبھی سے قریبی مسجد میںحلف کہ اب وہ کسی صورت بھی رشوت ستانی میں ملوث نہ ہوں گے۔اور نہ ہی پیسہ ٹکہ لے کرغلط تفتیش کرکے اصل ملزمو ں کی بریت اور معصوموں کو سزا دلوائیں گے اور تفتیش کے لیے سبھی جدید ترین طریق استعمال کیے جانے چاہیے اس طرح پرانا طریقہ”آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے”یعنی چھترول وغیرہ بالکل ختم ہوجانے چاہئیں کہ یہ انسانیت کی بھی توہین ہے۔پولیس کو وی آئی پی ڈیوٹیوں سے فارغ کرکے اس کے لیے اگر اشد ضروری سمجھا جائے تو علیحدہ فورس تیار کی جائے۔

دوبارہ عرض گذاشت ہوں کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ اور اعلیٰ رہائشیں جہاں ملازمین کے بال بچے بھی خوش وخرم رہ سکیںاشد ضروری امر ہے نیز یہ کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی کسی بھی صورت ایک ملازم سے نہیں لی جانی چاہیے کہ رت جگے کاٹ کر ان کی کارگردگی ویسے ہی کم ہو جاتی ہے پولیس کو خوف کی علامت نہیں بلکہ پیار و محبت وتھانوں کو مسائل حل کرنے کے سینٹر ز بنایا جائے تاکہ لوگ بلا خوف وخطر اپنی شکایات لے کر آئیں اور وہاں سے مفت ریلیف پائیںکسی جلسے جلوس دھرنے کے لیے اتنی تعداد کی فورس ضرور تعینات ہو۔کہ الٹا پولیس ہی کو مار نہ پڑجائے کہ اس سے پولیس فورس کا مورال ہی ڈائون ہو جا تا ہے ہر صورت پولیس کی فلاح و بہبود کے لیے اصلاحات کو اولین ترجیح دینا ضروری ہے کہ ہم ہر طرف سے مشکلات اور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔

اگر ہمارے مسلح ادارے مضبوط ہوں گے تو ہر طرح کے محاذ پر کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔پولیس کی اصلاح تبھی ہوسکے گی جب اسے خود مختار ادارہ بنایا جائے گا اور شہید ہونے والوں کے لیے کم ازکم 80لاکھ فی کس دیے جائیں وگرنہ کاغذات کا پیٹ بھر کر نئے قوانین کے والیم وغیرہ “بابا یہ سب کہانیاں ہیں”!!


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر