وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر میں جاری خاموش قتل عام

هفته 30 دسمبر 2017 کشمیر میں جاری خاموش قتل عام

17 دسمبر2017ء کی رات کو بائیس سالہ آصف بٹ رات کے وقت گھر سے اپنی گاڑی نکالتے ہی گھات میں بیٹھی فوج کی گولیوں کی زد میں آکر زندگی کی جنگ ہار بیٹھا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ رات کے 11بجکر10منٹ پر ٹھنڈی پورہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے 22سالہ آصف اقبال بٹ ولد محمد اقبال بٹ جو پیشہ سے ایک سو مو ڈرائیور تھاکے والد کو ایک ہمسایہ نے فون کیا کہ آصف کو سو مو گاڑی سمیت ان کے گھر روانہ کریں تاکہ ایک مریض کو اسپتال لے جایا جاسکے۔آصف کے والد نے اپنے لخت جگر کو نیند سے جگایا اور انہیں مریض اسپتال پہنچانے کے لیے کہا۔عینی شاہدین نے بتا یا کہ جو ں ہی آ صف اپنے گھر سے باہر آ یا اور ابھی سومو گاڑی زیر نمبرJK05C-7608 لے کر تھوڑی دور پہنچاا تھا کہ ناکہ پر بیٹھی فوج کی گشتی پارٹی نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جس کے نتیجے میں آصف کے سر میں گولیاں لگیں۔مقامی لوگ فوری طور اپنے گھرو ں سے باہر آئے اور خون میں لت پت آصف کو سب ضلع اسپتال کرالہ پورہ پہنچایا۔جہا ں ڈاکٹر وں نے انہیں ابتدائی مرہم پٹی کے بعد نازک حالت میں سرینگر منتقل کیا تاہم سوپور پہنچنے سے قبل ہی آصف زخمو ں کی تاب نالاکر دم تو ڑ بیٹھا۔

یہ تینوں سویلین گزشتہ دو ہفتوں میںسیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں جاں بحق ہو ئے ہیں اور خود ایجنسیوں کو بھی ان کے سویلین ہونے کا اعتراف ہے ۔کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ عام انسانوں کی ہلاکت اگر چہ کوئی نئی بات نہیں ہے مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ان سانحات پر روک لگانے کے لیے نا ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے نا ہی کوئی مستقل لائحہ عمل اپنا یا جا تا ہے بلکہ ہر سانحہ پر ایک آدھ مذمتی بیان اب ہند نواز سیاست دانوں کا بھی معمول بن چکا ہے ۔پہلے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی سرکاریں یہی کرتی رہی ہیں اور اب پی ڈی پی اور بی جے پی کولیشن سرکار بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے اپنے آپ کو مذمت تک محدود کر چکی ہے ۔گذشتہ تین دہائیوں کا معمول ہی یہی ہے کہ کشمیر میں ہلاکتوں پر مذمت کرنے میں حکمران اور اپوزیشن ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں ،بلکہ بسااوقات ان کے بیانات حریت لیڈران سے بھی سخت ہوتے ہیں ۔حکومت کمیشن کا اعلان کرتی ہے ۔تحقیقات کے نام پر بننے والے کمیشنوں سے متعلق کشمیر میں عدم اعتماد کا عالم یہ ہے کہ 2009ء میں جب شوپیان میں نیلوفر اور آسیہ کے قتل پر ’’جان کمیشن ‘‘وجود میں آیاتو اس نے تحقیقات کے برعکس چوہے بلی کا کھیل شروع کر کے ’’پیر اور غیر پیر‘‘کی ایسی بے تکی اور غیر فطری لطیفے بیان کرنے شروع کر دیے ہر صاحب دانش انسان شرمسار ہوا کہ آخر قتل کی تحقیقات کا بااختیار کمیشن لکھنو کی بھول بھلیوں میں گم ہونے پر بضد کیوں ہے؟بے اعتباری اور عدم اعتمادی کی پوری تاریخ جس ریاست کی پشت پر نظرآرہی ہو وہاں کپوارہ کے آصف اور میسرہ یا شوپیان کی روبی جان کے قتل پر کمیشن قائم کرنے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے ؟۔

جہاں عوام الناس کے لیے’’ثابت شدہ کمزور ترین ریاست ‘‘کا حال یہ ہو کہ وہ اُن خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنے سے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہوتی ہو جن کو بے نقاب کرنے سے ریاست کے برعکس غلط کار افراد بے نقاب ہوجائیں وہاں کُنن پوشہ پورہ جیسے ناقابل فراموش جرم کو بے نقاب کرنے کی ہمت حکومت کیسے کر سکتی ہے ؟لاکھوں ایف،آئی،آرز پر تشکیل شدہ کمیشنز کی فائلیں اب کہاں ہیں اور کن الماریوں میں دھول چاٹ رہی ہیں کسی کو کوئی خبر نہیں ہے ! اس بے اعتباریت کی پورے طور پر ذمہ دار یہاں کی مفلوج انتظامیہ ہے جو خوف میں مبتلا رہ کر کچھ کرنے سے اپنے آپ کو معذور محسوس کرتی ہے ۔اور وہ بڑے سے بڑے حادثے پر بھی ایک عدد بیان دینے کے بعد اپنے آ پ کو بری الذمہ سمجھتی ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور مین اسٹریم اپوزیشن کو حریت کانفرنس کی صف میں کھڑا ہو کر ان سانحات کی مذمت کرنے کے بعد نئے حادثے کے انتظار کرنے کاکیا حق ہے جبکہ وہ اسی ریاست کے کل پرزے ہیں جو ’’افسپا کی بے رحم تلوار‘‘کو آپ ہی کی سفارشات پر اس قوم پر سونت چکی ہے ۔عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے یہ حضرات دن رات صرف بیانات ہی کو اتنے بڑے انسانی المیوں کے لیے کافی سمجھتے ہیں ۔ریاست جموں و کشمیر میں مسلم آبادی 1947ء سے برابر نشانے پر ہے پہلے اس کے لاکھوں فرزندوں کو سن سنتالیس میں قتل کیا گیا اورپھر پاکستان اور بھارت کے بیچ جنگوں اور ہزاروں سرحدی جھڑپوںمیں بے دریغ اور بے حساب مارا گیا اور1990ء سے گویا اس کو مارنے کا لائسنس فراہم کیا گیا ہو ۔بین الاقوامی برادری اپنے تجارتی مفادات کو لیکر خاموش ہے اور مسلم دنیا اپنے مسائل میں اس حد تک پھنس چکی ہے یا پھنسائی گئی ہے کہ اس کو باہر کا ہوش بھی نہیں ہے ۔خود بھارت کے اندر اس کے خلاف آواز اس لیے بلند نہیں ہوتی ہے کہ بھارتی میڈیا نے پورے ملک کی آبادی کا ذہن کشمیری مسلمانوں کے خلاف زہر آلودہ بنا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب عرصہ سے کشمیریوں کے خاموش قتل عام کے برعکس کھلے عام قتل عام کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور فوج کو کھلی چھوٹ کے بجائے اب مکمل چھوٹ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آتا ہے لہذا اندرون ملک بھی صورتحال کشمیری کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ،ایسے میں لے دے کے خود کشمیری ہی رہ جاتے ہیں جن کی لیڈر شپ کو اس انسانی المیہ کو روکنے پر فوری توجہ دینی چاہیے اس لیے کہ کشمیری قوم ایک چھوٹی سی قوم ہے جن کے ایک لاکھ انسانوں کا صرف تیس برس کے عرصے میں قتل ہو جانا کمر توڑنے دینے والی صورتحال ہے ۔ اس المیہ کے خطرناک اثرات ہمیں مستقبل قریب میںمتاثر کر سکتے ہیں پھر جب مطالبہ حق خود ارادیت کو ہو تو معاملات کو سرسری طور پر لینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ (ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر