وجود

... loading ...

وجود
وجود

آہ! سقوط یروشلم

هفته 23 دسمبر 2017 آہ! سقوط یروشلم

یروشلم کا یہود کے ہاتھوں میں جانے کے بعدمیرا’’ عالم اسلام‘‘ کا کمزور تصور آج کے دھچکے کے بعد پتہ نہیں کیوں بکھر گیا؟اور میں نہ معلوم کیوں لکھنے میں وہ چاشنی اور مٹھاس ہی ختم ہو چکی ہے جو کل تک ناقص ہی صحیح پر کہیں تو تھی ۔شاید میں مایوس ہوا ہوں !ہاں جی میں مایوس ہوں ،آپ کہہ سکتے ہیں کہ مایوسی بزدلوں اور کمزور انسانوں کی صفت ہے ،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قنوطیت پسندی بلندعزائم رکھنے والی قوموں کے لیے بہت ہی مہلک ہے ۔آپ اسے سو گنا زیادہ بھی کچھ کہنا چاہے تو کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ میں نے اب توبہ کی ہے اس بات سے کہ میں یہ مان کر چلوں کہ کہیں کوئی ’’عالم اسلام ‘‘ہے ۔عالم اسلام سے مراد اگر ڈیڑھ ارب مسلمان ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اگر اسے طارق بن زیادؒ،محمد بن قاسمؒاور صلاح الدین ایوبیؒ کی امت مرادہے تووہ بہت پہلے مر چکی ہے ۔اب ہم میں شاہ سلمان،بشار الاسد،عبدالفتاح سیسی،اشرف غنی،شیخ حسینہ ،نواز شریف اورزرداری ہیں کل کے چہروں کو بھی دیکھ لیجیے اور آج کے ’نامی گرامی‘ بھکاریوں کو بھی دیکھ لیجیے یقیناََ آپ بھی میرے ساتھ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے کارِ خیر میں شامل ہو جائیں گے۔ اللہ کرے کہ میری یہ تحریر کسی عالم اسلام کے فتویٰ بازشیدائی کے ہاتھ میں نہ لگ جائے جو یہ کہنا شروع کردے کہ’’ مایوسی کفر ہے‘‘اور میں نے تحریراََمایوسی کے اقرار کے بعد ’’العیاذ باللہ کفر کا ارتکاب ‘‘کیا ہے اور وہ مجھ سے تجدید ایمان کا مطالبہ کرنے لگ جائے ۔برصغیر میں پروپیگنڈا مشنری سے کچھ بھی بعید نہیں لہذا احتیاطاََ عرض ہے کہ اللہ سے مایوس ہو ناممنوع ہے انسانوں سے نہیں (زمرآیت نمبر:53)۔

ملل و اُمم کے لیے بعض علامات ’’موت و حیات‘‘کی حیثیت رکھتی ہیں ۔شعائر اللہ ان علامات کو کہتے ہیں جن سے اللہ یاد آتا ہے اور ان کی بے حرمتی گناہِ کبیرہ ہے ۔ہماری مذہبی علامات کی جانب سفر کو بھی اللہ تعالیٰ نے عبادت کے دائرے میں داخل کر کے ہمارے اوپر احسان فرمایا ہے ۔القدس یایروشلم زمین کے ٹکڑے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے ایمان و اعتقاد کا مرکز ہے ۔یہ قبلہ اول ہے ۔یہاں قبۃ الصخرہ ہے ۔یہی معراج النبیﷺ کی پہلی منزل تھی ۔یہ انبیائِ سابقین کا مرکز و مرقد رہا ہے۔ اس سرزمین میں ہزاروں پیغمبر اور اصحاب محمدﷺ کے علاوہ لاکھوں شہداء کا خون جذب ہو چکا ہے جنہوں نے القدس احیاء کی قسم کھائی اور انھوں نے قرآن کی زبان میں اپنا وعدہ سچ کر دکھایا (الاحزاب آیت نمبر:23)۔ کعبۃ اللہ ، مدینہ نبویؐ اور مسجدِ اقصیٰ ہی ہمارا کل سرمایہ ہے جہاں اول سے آخر تک ہمارے دین و شریعت کی تاریخ وابستہ ہے ۔چودہ سو سال میں دورِ نبویؐ اور ایامِ خلافت کے بعد سے اب تک ہماری حالت ہر نئے روز پہلے سے پتلی بلکہ بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہیں ۔ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے سے ہی ہمیں فرصت نہیں مل رہی ہے کہ کچھ مثبت سوچتے ۔ہمارے سوچنے پر بھی بعض حلقوں نے پہرے بٹھا رکھے ہیں ۔ان کے ہاں درست سوچ صرف وہی ہے جو ان کے اپنے میعار کے مطابق درست ہے اور ہر وہ گمراہی ہے جو اسے باہر ہے۔ مسلکی اور تنظیمی تعصب نے اُمت کا ’’میعارِ بلند‘‘تباہ کر کے رکھدیا ۔ملوثین اس پر شرمندہ ہونے یا اظہارِ تاسف کرنے کے برعکس اس کے حق میں ’’بوسیدہ قسم کے دلائل‘‘ پیش کرتے ہیں ۔

القدس سے محرومی سے بہت پہلے جب خلافت ،اسلامی تہذیب و ثقافت ہمارے ہاتھوں سے نکلی تو مفاد پرست طبقے نے نوکِ قلم کو شمشیر جیسی تیزی دیکر اس کے حق میں دلائل پیش کرتے ہو ئے اس کے خلاف لکھنے اور بولنے کو گناہِ عظیم تک قرار دیدیا اور آج اسی جنس کا ایک طبقہ خلافت کے خاتمے پر ہاہا کار مچارہا ہے ۔یہ ہمارا ناقابل تصور المیہ ہے کہ ہم نے جو کام آج کرنا ہوتا ہے وہ ہم سو سال بعد شروع کرتے ہیں ۔چودہ سو برس میں ہم اجتماعی احتساب کے تصور سے خالی ایک امت کے برعکس ’’ماضی کے کارناموں میں گمشدہ ‘‘ایک پراگندہ اور رُخ سے محروم جماعت بن چکی ہے ۔القدس اور مسجدِ اقصیٰ سے محرومی جہاں ایک طرف ہماری بدعملی کی سزا ہے وہی دوسری جانب یہ ہماری اجتماعی غیرت کے لیے چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ہم جس عالم اسلام کو لیکر جینے کے عادی بنا دئے گئے ہیں وہ عالم اسلام ایک زندہ لاش ہے ۔باون ممالک کی بیڑ میں نہ غیرت ہے نہ جرات ! ان ممالک کے پاس بے انتہا وسائل اور قوت ہے ۔ان کا عالمی سطح پر اچھا خاصا اثرِ رسوخ بھی ہے ۔اگر یہ منتشر اور بے جان ممالک اجتماعی طور اس قوت کو استعمال میں لائیں تو یقیناََ تبدیلی آسکتی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان ممالک پر قابض حکمران ٹولہ انتہائی بد ضمیر ، بے غیرت اور بے حیا ہیں ۔ بڑے سے بڑا حادثہ بھی انہیں ظلمت سے نکالنے کا سبب نہیں بنتا ہے ۔

کچھ نام نہاد اور تنگ نظر دانشور عالم اسلام کا ہر دور میں روشن چہرہ دکھانے کے لیے الفاظ کا سہارا لیکر نوجوان طبقے کو پھر سو برس تک سونے پر مجبور کرتے ہیں اور وہ نئے خوابوں کو آنکھوں میں سجا کر لمبی تان کر سوتے ہیں بعد میں معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل پہلے بھی قلمی ساحروں نے اس کو سچائی تک پہنچنے نہیں دیا تھا ۔ نہیں تو ہم پوچھ سکتے ہیں کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے جو ہمارا حشر کیا اس کی کیا تاویل کی جا سکتی ہے اور عالم اسلام کا وہ خود ساختہ ’’جن‘‘کیا کبھی حرکت میں آیا ؟ پرانی کہانی دوہرانے کی ضرورت نہیں مگر حال میں برما کے قتلِ عام پر ہمارا عالم اسلام کیا کر سکا ؟حتیٰ کہ روہینگیائی مسلمانوں کا عملاَََ برما سے ہی صفایا ہو گیا ۔اگر باون(52)ممالک مل کربھی ہمارے روہینگیائی مسلمانوں کو ’’بے اثر برما‘‘ سے نہیں بچا سکتے ہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر یہ عالم اسلام اور ان کے ادارے کس مرض کی دوا ہیں ؟چلیے برما ،کشمیر اورافغانستان کی بات کو فی الوقت ملتوی کر دیتے ہیں تازہ ترین ’’یروشلم‘‘کے حوالے سے ہی ہمارا عالم اسلام کیا کچھ کر سکا ؟عوام نے احتجاج کرنا ہی تھا بے شرم حکمران بھی احتجاج میں شامل ہو کر عوام کی سطح تک آگئے بہ مشکل رجب طیب ایردوغان نے اُو،آئی ،سی کا اجلاس انقرہ میں بلا کرامریکہ اور اسرائیل کو جاندار پیغام دیدیا جو اتنے بڑے مسئلے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کہ اسے پہلے بھی عالم اسلام کے بعض لیڈروں نے سخت بیانات دیکر بظاہر عوام کے دل تو جیت لیے مگر اس کا اسرائیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑاہے ۔
حد اور المیہ یہ کہ اس اجلاس میں بھی سعودی عرب نے شرکت نا کر کے غلط پیغام دیدیا اوراپنے اسٹینڈسے ان تمام ترقیاس آرائیوں کی تائید کرائی کہ سعودی عربیہ کے نا صرف اسرائیل کے ساتھ اچھے خفیہ مراسم ہیں بلکہ وہ اب آہستہ آہستہ اس قربت میں گرم جوشی کی طرف گامزن ہے ۔جس ملک میں حرمین ہے اس ملک کے حکمران اگر ملک کو امریکہ کے مطالبے پر مکمل تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور ان کے نزدیک درست اور ضروری تبدیلی یہی ہے کہ ملک کو ’’مغربیت ‘‘کی غلاظت میں پھینک کر دشمنوں کے دل جیت لیے جائیں تو انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج سے نوے برس پہلے مصطفیٰ کمال اتا تر ک نے یہی حال ترکی کا کر کے سوائے ذلت کے اپنے کھاتے میں کچھ بھی جمع نہیں کیا تھا؟اور نا ہی سعودی عربیہ ترکی ہے جو اتنی بد بختی کو سہنے کے لیے تیار ہو گااس لیے کہ یہ اخوان المسلمون اور حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے برعکس ’’حساس اُمت‘‘کو شرمناک راستوں پر ڈالنے کی حماقت ہو گی ۔ جوسرزمین حرمین کی وجہ سے ’’مذہبی مرکز‘‘کادرجہ رکھتی ہے اگر وہاں اس قدر ذلتناک تبدیلیوں کا آغاز ہو چکا ہے تو دوسرے ممالک کا درون خانہ کیا حال ہوگا۔افسوس اس بات کا ہے کہ تمام تر عالم اسلام کو مغربیت کے رنگ میں رنگنے کے سنگین نتائج سے پریشان دنیا آخر سعودی عربیہ کو بھی اسی راستے پر ڈال کر ناکام فارمولے کو دوبارہ آزمانے کے چکر میں کیوں ہے ؟ اور سعودی عربیہ نے یروشلم پر منعقدہ اجلاس میں شرکت نا کر کے اتنا خوفناک پیغام کیوں دیدیا؟ چاہیے تو یہ تھا کہ خود سعودی عربیہ ہی اس اہم تاریخی نازک موڈ پر اس اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل کرتا۔

عالم اسلام میں جہاں درجنوں بے اثر ممالک شامل ہیں وہی اس میں پاکستان ،ترکی ،ایران اور سعودی عربیہ جیسے اہم ممالک بھی شامل ہیں ۔پاکستان کے پاس ایٹم بم ،بہترین بری،بحری اور ائیر فورس ہے ۔ایران کے پاس پاکستان جیسی عسکری قوت نا صحیح مگر قابل فوجی قیادت اور اپنے مقاصد کے لیے قربانی دینے کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ترکی کے پاس فوجی قوت زیادہ بہتر نا صحیح مگر سفارتی قوت اور اچھی معیشت ضرورہے ۔سعودی عربیہ کا مذہبی پس منظر اور مضبوط معیشت کے علاوہ عالمی اثر رسوخ اپنی اہمیت رکھتا ہے ۔عالم اسلام انہی چار ممالک کے زیرِاثر ہے گر چہ بعض استثنا ت بھی ہیں ۔بدقسمتی یہی ہے کہ یہ چار ممالک چار متضاد اطراف کی طرف رُخ کرکے عالم اسلام کو اپنی مرضی کے تابع رکھنے کی بیماری میں مبتلاہیں اور آج کے دور میں ملک تو ملک ایک فرد بھی کسی کی مرضی کے تابع جینے کا قائل نہیں ہے ۔ان چاروں کے نزدیک فلسطین اور القدس بلا شبہ اہمیت کا حامل تو ہے مگر ان میں ہر ملک اپنے ایک خاص مذہبی پس منظر اور خاص زاؤیہ نگاہ سے اس مسئلے کو ہینڈل کرتا ہے جس سے بہت کچھ مراد تو لیا جا سکتا ہے مگر یہ ہرگز نہیں کہ ایران کے شام ،عراق اور یمن ،سعودی عربیہ کے یمن ،ترکی کے کردستان اور پاکستان کی کشمیر پالیسی پر القدس کو اولیت یافوقیت حاصل ہے ۔ہر صاحب ایمان مسلمان کے نزدیک ’’القدس‘‘کو اولیت ہونی چاہیے مگر ستر برس کی عالم اسلام کے حکمرانوں کی منافقت اور حماقت سے یہ مسئلہ اس حد تک پس منظر میں چلا گیا کہ امریکہ نے یروشلم کو باضابط اسرائیل کے دار الخلافہ کی حیثیت سے قبول کرتے ہو ئے دوسرے کمزور ممالک کے لیے ایک مجبوری کھڑا کرکے عالمی رائے عامہ کو منقسم کردیا ہے جس پر اب یہودی ساہو کار آہستہ آہستہ اور غیر محسوس انداز میں کام کرتے ہو ئے آج ہی کے فیصلے کی طرح کبھی اور کسی وقت دنیا کر حیران کر دینے والی وہ المناک خبر بھی سنوا دیں گے کہ دراصل یہاں مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی ہے جس پر مسلمانوں نے بالجبر مسجد اقصیٰ بنوادی ہے اس کی سب سے بڑی مثال ’’بابری مسجد‘‘کی شہادت قرار دی جا سکتی ہے جس کی شہادت پر عالم اسلام نے آج ہی کی طرح زبانی احتجاج تو ضرور کیا مگر اس زبانی کلامی ردعمل کا کوئی اثر ہندوستانی برہمنوں پر نہیں پڑا ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کے ہزاروں احتجاجوں کی طرح ’’یروشلم ‘‘پرآج کے احتجاج کے بعدعالم اسلام کے لیے یہ سانحہ قصہ پارینہ بنتے ہی بھارت کا ہندو انتہا پسند بابری مسجد پر مندر بنانے کابھی آغاز کر دے گا ۔

خیر یہ تو ہوئی اس یروشلم کی بات جس سے متعلق میرا یہ ایمان تھا کہ اگر امریکہ نے اس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی حرکت کی تو قیامت برپا ہو گی مگر افسوس ہوا کچھ بھی نہیں ہواسوائے ماضی کے احتجاجوں کی طرح ایک احتجاج کے! کیا مسجدِ اقصیٰ کا ہمارے حکمرانوں سے رشتہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ امریکہ کے ظالم اور جارح صدر نے ان کے جیتے جی اس کو ہنستے مسکراتے ہو ئے اسرائیل کے حوالے کردیا ۔آج یہ ثابت ہو گیا کہ عالم اسلام کی غیرت و حمیت مرچکی ہے اور اس کا بہت پہلے جنازہ نکل چکا ہے بالخصوص عالم عربی کا جنہیں یروشلم اور فلسطین کے ساتھ ہمارے مقابلے میں سینکڑوں مستحکم رشتے قائم ہیں ۔فلسطین عرب ہیں ،ان کی زبان عربی ہے ،ان کی تہذیب و ثقافت عربی اوراسلامی ہے اُ ن کے عالم عربی کے ساتھ سینکڑوں برسوں پر محیط تاریخ وابستہ ہے ۔جب عالم عربی یروشلم کے لیے بالخصوص اور فلسطین کے لیے بالعموم کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو ایک دور درازعجمی کشمیر ی مسلمان کے لیے وہ کیا کریں گے ؟ سچائی یہی ہے کہ عالم عربی کو ہمارا اور ہماری تحریک کا سرسری تعارف بھی حاصل نہیں ہے چہ جائیکہ وہ بھارت کے مقابلے میں ہمارے موقف کا ادراک کرتے ہو ئے ہماری تائید کریں ۔ایسا نا ہوتا تو متحدہ عرب امارات نرنیدر مودی کو خوش کرنے کے لیے سینکڑوں کنال زمین مندر کی تعمیر کے لیے فراہم نا کرتا نا ہی سعودی عربیہ اس کو ’’اعلیٰ ترین سیول ایوارڈ‘‘سے نوازتا ! ان واقعات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ جس عالم اسلام کو ہم عمومی طور پر اپنا پشتیبان سمجھتے ہیں وہ دورِ حاضر کا بہت بڑا جھوٹ ہے ۔وہ جب حساس ترین مذہبی مسئلے پر فلسطین کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا ہے تو اسے سینکڑوں گنا کمزور پوزیشن کے مسئلے پر کشمیریوں کے ساتھ کیوں کھڑا ہو جائے گا جبکہ اس کے لیے بھارت کی بڑی وسیع تجارتی منڈی دیکھ کر ہی منہ کی رال ٹپکنے لگتی ہے ۔وہ نریندر مودی کے ماضی کو بھول کر صرف مادی اور تجارتی مفادات کے لیے جب اس حد تک جا سکتا ہے تو پھر کشمیری محدود اور چھوٹی قوم کے لیے وہ کیوں تڑپیں گے اور کیوں ان کی آزادی کے لیے نام نہاد جمہوری ملک کے بے تاج بادشاہ کو ناراض کر دیں گے ؟

مسئلہ یروشلم پر نئی المناک پیش رفت کو ذہن میں رکھتے ہو ئے ہماری لیڈر شپ کو چاہیے کہ وہ ’’جذبات سے اوپر اٹھ کر‘‘اپنی پوزیشن کا ادراک کرتے ہو ئے عالمی سطح پر کمزورسفارتی حمایت کا بھر پور تجزیہ کرے ۔اپنے محدود وسائل ،کمزور قوم ،اقوام عالم کے مالی مفادات کی ترجیحات اور خود غرضیوں کو ذہن میں رکھتے ہو ئے حکمت عملی ترتیب دے دیں اور یہ مان کر چلے کہ خود غرض دنیا میں ہمارے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوگا ۔نا ہی عالمی عربی اس کے سوا کچھ کر پائے گا کہ جب بھی اُو ،آئی ،سی کا اجلاس ہوگا تووہ پاکستان کی شدید خواہش کے احترام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرے گا بس۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کے لیے بھارت کے ساتھ سفارتی یا تجارتی تعلقات منقطع کر دے گا ۔نا ہی وہ بھارت کے خلاف عالمی سطح پر ایسا ماحول تیار کریں گے یا تیار کرنے میں معاونت دیں گے جس سے بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو جائے گا ۔عالم عربی اور اسلامی کا دل لبھانے کے لیے اس کے پاس جہاں دنیا کی بہت بڑی تجارتی منڈی موجود ہے وہی اس کے پاس ’’غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور مسلمانانِ ہند کی بیس کروڑ آبادی کاکارڈ ‘‘جیب میںموجود ہے جس کوبھارت جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے ۔لیڈرشپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی حالات کے ساتھ ساتھ علاقائی حالات کابھی بروقت درست تجزیہ کرے اس لیے کہ خوابوں میں غلطاں رہنا قیادت کا نہیں عوام کا کام ہوتا ہے ۔

قیادت لمحہ بہ لمحہ بدلتے عالمی اور مقامی حالات پر گہری نظر رکھتی ہے تاکہ قوم کی منزل نزدیک ہونے کے برعکس بعید تر نا ہو ۔ہم نے جو بھی کرنا ہے وہ مقامی طور پر ہی کرنا ہوگا ۔اگر باہر سے کوئی مدد کرتا ہے تو فبھا نہیں تو جب ہمارا ذہن و ضمیر دوسروں پر تکیہ کرنے کے برعکس صرف اپنے اوپر بھروسہ کرنے کا عادی اور خوگر ہوگا تو ہم مسئلہ کشمیر سے جڑے لاکھوں جانوں کی قربانی اور مستقبل میں ان کے ایثار اور پھر اس کی حساسیت سے ہمیشہ تڑپتے رہیں گے اس لیے کہ موجودہ حالات میں ہم جیسی چھوٹی قوم کا وسیع جانی قربانیاںدیتے رہنا ہمارے مستقبل پر بوجھ بنتی جارہے ہیں۔ جہاںخودسپردگی کے برعکس استقامت ،جذباتیت کے برعکس حکمت اورکم سے کم مالی و جانی نقصان ہماری باٹم لائین ہونی چاہیے وہی عالمی حالات پر گہری نگاہ کے ساتھ ساتھ سقوط ڈھاکہ ،بابری مسجد کی شہادت ،برما میں روہینگیائی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی ،اخوان المسلمون جیسی خالص مذہبی اور سیاسی تحریک کو جڑ سے اکھاڑنے کی عالمی عربی کی مسلسل کوششیںاورشام ،عراق اور یمن میں آپسی قابل نفرت کشت و خون ،اسرائیل،امریکہ اور بھارت کے اتحادِ ثلاثہ اور ان کے ساتھ عالم عربی کے مستحکم تعلقات اور رشتے اور سب سے بڑھ کر سقوطِ یروشلم جیسے المیے کے قابل برداشت تصورات ذہن میں ہر وقت استحضار رکھنا قیادت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں قوم کے سامنے اس ٹمٹماتے چراغ کو روشن رکھ سکیںجو عرصہ دراز سے اس کے معصومین کے خون سے منورہے ۔
(ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر