وجود

... loading ...

وجود
وجود

شاکرہ عظیم اسکالرشپ سے نمل شہر علم تک

اتوار 12 نومبر 2017 شاکرہ عظیم اسکالرشپ سے نمل شہر علم تک

میانوالی کو اس کاموجودہ نام بغداد سے آئے ایک بزرک حضرت شیخ جلال الدینؒ کے صاحبزادے حضرت میاں علیؒ ؒکی بدولت ملا ہے ۔اس سے پہلے یہ علاقہ ’’ دھنوان ‘‘ ، کرشنوران ، رام نگر اور ’’ ستنام ‘‘ کے ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا ۔ بعد میں دریا کے پہلو میں آباد ہونے کی وجہ سے اسے ’’ کچھی ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ تاریخی اور جغرافیائی طور پر وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ ہونے کی وجہ یہاں آبادی کا سراغ ہزاروں سالوں سے ملتا ہے ۔ ایک ضغیم تاریخ اور کئی تہذیوں کا سنگھم اور مرکز رہنے والا یہ خطہ ہمیشہ سے ہی مردم خیزی میں اپنی مثال آپ رہا ہے ۔ بلوخیل کے نیازی قبیلہ کے ڈاکٹر محمد عظیم خان شیر مانخیل کواس علاقے کے پہلے مسلمان ڈاکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان کے بیٹے انجینئر اکرام اللہ خان نیازی اپنے علاقے کے دوسرے شخص تھے جو لندن سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آئے تھے ۔ 1948 ء میں جب وہ امپیریل کالج لندن سے فراغت کے بعد واپس میانوالی آئے تو شہر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے میانوالی ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو گئی تھی ۔
ڈاکٹر عظیم خان کے گھرانے نے اس علاقے میں مسلم حمیت کی پاسداری کی، قیام پاکستان کی جدوجہد اور بعد ازاں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی حمایت کرکے علاقے کی تاریخ میں اس خانوادے کا نام امر کیا ۔
علاقے سے تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے انجینئر اکرام اللہ خان نیازی نے ’’ پاکستان ایجوکیشن سوسائٹی ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کررکھی تھی جس کے پلیٹ فارم سے غریب مگر با صلاحیت نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ا سکالر شپ دیئے جاتے تھے ۔22 سال کی عمر میں عمران خان کو اس ادارے کے بورڈ کا رکن بھی بنایا گیا تھا ۔ عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خانم بتاتی ہیں کہ ’’ میرے والد اپنی والدہ اور ہماری دادی کے نام پر ضرورت مند اور ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ’’ شاکرہ عظیم ا سکالر شپ ‘‘ دیا کرتے تھے ۔ اگر چہ نمل شہر علم کا خواب عمران خان نے ہمیں دکھایا ہے لیکن تعلیم کے شعبے میں خدمات کا آغاز ہمارے والد صاحب نے کیا تھا ‘‘۔
عمران خان نے 1996 ء میں اس علاقے سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے اپنے خاندان کی روایات کے مطابق علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے جدوجہد بھی شروع کی اُن کی ان کاوشوں میں تعلیمی ترقی کے اقدامات ہمیشہ نمایاں رہے ۔ان کی تحریک پر N.C.H.D نے خٹک بیلٹ کے علاقوں تبی سر اور بانگی خیل میں 150 بنیادی ا سکولوں کی بنیاد رکھی ۔ سیٹیزن فاؤنڈیشن نے علاقے میں پانچ کوالٹی ایجوکیشن ا سکول قائم کیے جن میں سے اب داؤد خیل اور پائی خیل کے ا سکول انٹر کالج بن چکے ہیں ۔ پنجاب کے اس پسماندہ اور مشکل ترین پہاڑی علاقوں میں عمران خان نے جاپان کی حکومت کی مدد سے 92 کلومیٹر سڑک ( جیپ ایبل ٹریک ) بنوایا جس سے تخت وشوڑہ ( Takhat Weshora )۔ پتو ، بوہڑ کھوئی ، قمر سر ، وگیان ، کھجورو فقیر ِ ، کر یژئی کے مکینوں کو خاطر خواہ فائدہ ہوا اور ان کی بڑے شہروں تک ان کی رسائی آسان ہو گئی ۔ اس علاقے میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور قابل استعمال بنانے کے لیے ’’ مائی نور ڈیم ‘‘ کے نام سے ایک آبی ذخیرہ بھی بنایا گیا ۔ اس ڈیم میں اڑھائی لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے ۔ اس ڈیم سے کافی مقدا ر میں مچھلی بھی پیدا ہور رہی ہے ۔ عمران خان نے اپنی ایم این اے شپ کے دوران اپنے حلقہ انتخاب میں بجلی کی73 اسکیمیں بھی مکمل کروائیں ۔ نریوب اور کچی بانگی خیل کے علاقے میں ڈیڑھ کروڑ روپئے کی لاگت سے واٹر سپلائی اسکیمیں بھی مکمل کی گئیں جن سے ایک کثیر آبادی کی پینے کے پانی کی ضرورت پوری ہوئی ہے ۔
عمران خان کی پہلے پہل اپنے حلقہ انتخاب میں جن سماجی مسائل سے آگاہی ہوئی ان میں سے بے روزگاری کا مسئلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ بے روزگاری کی وجہ سے نئی نسل کو معاشی بدحالی اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ معاشرقی برائیوں کا ایندھن بن رہی تھی ۔ سماجی ڈھانچہ شکست و ریخت کاشکار ہو کر تباہی و بربادی کے قریب تھا ۔
قدرت مہربان ہوئی اورانہی دنوں برطانیا کی معروف برید فورڈ یونیورسٹی نے عمران خان کواپنا پہلا غیر ملکی چانسلر منتخب کر لیا ، عمران خان نے اپنے اس منصب کو میانوالی کی تعلیمی اور تہذیبی ترقی کے لیے وقف کر دیا ، سالٹ رینج کے سب سے بلند ترین پہاڑ ’’ ڈھک ‘‘کی ڈھلوان پر ایک ٹیکنیکل کالج کی بنیاد رکھی گئی ۔ عمران خان کواللہ پاک نے اقبالؒ کا رہ نورد شوق بنایا ہے وہ کسی ایک کامیابی پر اکتفا کرنے کی بجائے جہد مسلسل اور عمل پیہم کا استعارہ ہیں ۔ ملنے والی ہر کامیابی ان کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔ وہ ایک روزاپنے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ سالٹ رینج ( کوہستان نمک ) کے سب سے اونچے پہاڑ ’’ ڈھک ‘‘ کی ڈھلوان اور نمل جھیل کے درمیاں بیاناں اور سنسان علاقے کا جائزہ لے رہے تھے کہ انہیں ان بلند و بالا کہساروں اور چاندنی کے شفاف عکس جیسی جھیل کے درمیان اقبالؒ کے شاہینوں کے روشن اور تابناک مستقبل کے حوالے سے اُمید کی کرن دکھائی دی جسے ان کے ایقان اور جدوجہد نے ایک حقیقت بنا دیا ۔
انہوں نے آکسفورڈ کی طرز پر یہاں علم کا ایک شہر آباد کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اپنے اس سرمدی خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سر گرم ہو گئے ۔ نمل کالج جلد ہی ایک یونیورسٹی میں بدل گیا ۔ اب یہاں میں ایگری بزنس کی تعلیم کا آغاز بھی ہو رہا ہے ۔اس علاقے میں ملک کے مختلف حصوں سے طالب علموں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ اس خطے کے تمام لوگوں کے لیے یہ فخر اور خوشی کی بات ہے یہاں کے لوگ پہلے حصول علم کے لیے لاہور ، اسلام آباد ، فیصل آباد جیسے جن بڑے علاقوں رُخ کیا کرتے تھے آج انہی علاقوں سے طلباء وطالبات کی ایک بڑی تعداد نمل شہر علم کا رُخ کر رہی ہے ۔ اس ادارے میں پچانوے فیصد طلباء کوا سکالر شپ دیا جاتا ہے اور داخلے کے لیے میرٹ کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے ۔ اس ادارے کے نصب العین سے متائثر ہو کر بہترین فکیلٹی خدمات سر انجام دے رہی ہے جس میں بارہ کی تعداد میں پی ایچ ڈی اساتذہ شامل ہیں ۔
اس شہر علم کو دنیا کا سب سے بڑا نالج سٹی بنانے کے لیے عمران خان اپنی سیاسی مصروفیات سے وقت نکالتے ہیں ۔
آج ایک مرتبہ پھر وہ نمل گریجوایٹس کی پانچویں سالانہ تقریب میں شرکت کے لیے میانوالی آ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ میں گذشتہ اٹھائیس سال سے عطیات اکٹھے کر رہا ہوں ۔ شوکت خانم ہسپتال کا سالانہ مالیاتی خسارہ ستر کروڑ روپئے سے بڑھ پر پانچ ارب روپئے ہو چُکا ہے ۔ نمل نالج سٹی کے لیے بھی ہر سال کروڑوں روپئے جمع ہو رہے ہیں ۔ تمام تر سیاسی مخالفتوں کے باوجود پاکستانی عوام پہلے سے بھی بڑھ کر دل کھول کر عطیات دے رہی ہیں ۔ پاکستانی قوم نے مجموعی طور پر مجھے سب سے زیادہ عطیات دیئے ہیں ۔‘‘
پاکستانی قوم کی بیداری اور جذبے کا اظہار شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل شہر علم (Namal Knowlodge City ) جیسے منصوبوں سے بخوبی ہوتا ہے ۔ جذبہ صادق اور نیت بے ریا ہونی چاہیے یہ قوم آنکھوں کو میٹھے خوابوں سے لبریز اور ماحول کو خوشیوں سے سرشار کر دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ ایک سچے اور بے ریا جذبے سے ہم روشن اور خوشحال مستقبل کی اڈیک اور اُمید رکھ سکتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر