وجود

... loading ...

وجود
وجود

بجلی کمپنیوں کو جرمانہ! بجلی مزید مہنگی کیوں ؟

منگل 07 نومبر 2017 بجلی کمپنیوں کو جرمانہ! بجلی مزید مہنگی کیوں ؟

حکومت اور اس کے اداروں کی نا اہلی ‘ سست رویوں کوتاہیوں کی بنا پر عوام پر بجلی کی قیمت کی بڑھوتری کا ایک اور بم دھماکہ عنقریب ہوگا ۔ہمارا محکمہ بجلی جن نجی بجلی گھروں سے بجلی لے کر ہم صارفین کو سپلائی کرتا ہے ان میں سے ایک درجن کے قریب نجی بجلی گھر ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہیں حکومتی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے نعرے ہوا ہو جائیں گے جب یہ بجلی گھر بند ہو گئے یا قرضہ داروں نے ان کی فروخت کے لیے بولیاں لگادیں تو ہم بجلی کہاںسے لیں گے یہ وہ ملٹی ملین سوال ہے جس کا جواب کسی مرکزی حکومتی عہدیدار،وزارت بجلی و پانی کے کارپردازوں کے پاس قطعاً نہیں ہے ۔
لندن کی عالمی ثالثی عدالت نے آئی پی پیزکی اپیلوں کا فیصلہ ان کے حق میں سنا ڈالا ہے اور پاکستان حکومت کو چودہ ارب روپے سے زائد کی ا دائیگیاں کرنے کے لیے کہا ہے بالکل اسی طرح کا ایک جرمانے کا ایک فیصلہ 75ارب روپے مالیت کا پہلے دوسرے مقدمہ میںبھی ہو چکا ہے۔ آئی پی پیز نے مذکورہ عدالت میں این ٹی ڈی سی کے مقررہ مدت 75روز میں فیصلے پر عملدر آمد نہ کیا حالانکہ عدالت پہلے فیصلوں کے مطابق رقوم کی قسطوں میں ادائیگی کے بارے میں فیصلہ دے چکی تھی ،این ٹی ڈی سی نے 75روز میں ادائیگی ہی نہ کی اور نہ ہی عدالتی حکم کے بارے میں کوئی اپیل کی۔ 9آئی پی پیز کو دیگر مدات میں ادائیگیوں کے بارے میں علیحدہ حکم بھی جاری ہوا تھا مگر ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی او ر سب کچھ سنا ان سنا کر دیا۔ اس پر کان نہ دھرنے کے جو بیورو کریٹ ان نام نہاد کمپنیوں سے لاکھوں روپوں کی تنخواہیں لے رہے ہیں انہیں ملازمت سے برخواست کرکے ان کی تمام آج تک کی تنخواہوں کی وصولی کی جانی چاہیے اور اگر آئینی قوانین اجازت دیں تو ان پرمقدمات کا اندراج کرکے سپیڈی ٹرائیل کورٹس میں چلائے جائیں۔
اب ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہمیں کابو ر (Kabor)سود بھی 4.5فیصد ادا کرنا ہوگا۔مزا تو تب ہے کہ متعلقہ بیورو کریٹوں کی نا اہلیوں لا پرواہیوں کی سزا ان کی جائیدادیں قرق کرکے ایسی رقوم ادا کی جائیںتا کہ ہم غریب عوام کے خزانوں سے ادائیگیاں نہ ہوں کہ یہ سراسر نا انصافی ہے اس کی کی قوم قطعاً اجاز ت نہ دے گی”جس نے کھائی گاجریں اسی کے پیٹ میں مروڑ “کی طرح عدالت کی طرف سے عائد کردہ ایسی تمام رقوم کی ادائیگی متعلقین ادا کریں جن کمپنیوں کے ذمے بمعہ سود ادائیگیاں واجب الادا ہونے کا عدالت نے فیصلہ سنایا ہے ان میں حب پاور ،لبرٹی پاور ٹیک لمیٹیڈ ،سفائر الیکٹرک کمپنی،بالمور پاور جنریشن ،اٹلس پاور کمپنی سیف پاور کمپنی ،نشاط چونیاں۔اورینٹ پاور کمپنی۔نشاط پاور لمیٹیڈ وغیرہ شامل ہیں۔
اصل رقم تو صرف 0.9771ارب روپے تھی مگر بڑھ کر اس کی سودی رقوم ڈال کر25.47ارب روپے ہیں اور تو اور ان کمپنیوں نے جو معاہدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں انہیں بھاری رقوم ادا کرنا ہیں یعنی8کروڑ 28لاکھ روپے مزید دینے ہیں جس کا بین الاقوامی عدالت نے اپنے فیصلہ میں ذکر کیا ہے اور چونکہ عدالتی کاروائی عرصہ سے چل رہی تھی اور ہماری کوتاہیوں سے رقوم بروقت نہ ادا کی جاسکیں، اس لیے اب ہمیں بطور ملزم عدالتی کاروائی کے خرچہ کے طور پر بھی ایک کروڑ51لاکھ روپے اور مزید 35لاکھ ادا کرنا ہوں گے، معاہدہ میں دعوے داروں کے ثالثی پر آنے والے اخراجات بھی271477پائونڈز بطور جرمانہ ادا کرنے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی عدالتی فیصلے کی تاریخ 29اکتوبر 2017کے بعد سے مکمل ادائیگی تک کا بور21.59فیصد شرح سود ادا کرنا ہوگاان سب ادائیگیوں کے لیے آئی ڈی پیز نے این ٹی ڈی سی اور اس کی ضامن حکومت پاکستان کی طرف ادائیگی میں مسلسل ناکامی کے بعد لندن کورٹ سے رجوع کیا تھا اب ساری غلطی تو ہماری بیورو کریسی کی ہے جو بروقت دائیگی نہیں کرسکے ہو سکتا ہے ۔
محکمہ بجلی نے ان کی ادائیگیاں ہی نہ کی ہوں تاہم پانی گیس کی کمی بھی رکاوٹ بن گئی ہو جو کچھ بھی ہوا سخت برا عمل ہے اور ہمیں اس بیرونی عدالتی حکم سے سخت شرمندگی و پشیمانی ہے دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے اب یہ ساری رقوم وقت پر ادا کیے جانا لازم ہوچکا مگر یہ رقوم آئینگی کہاں سے؟ واضح ہے کہ یہ سب کچھ ہمارا ہی مزید خون چوس کر بجلی کی قیمتیں بڑھا کر ہم عوام سے وصول کیا جا ئے گالوگ ایسے حکمرانوں پر ہزار بار لعنت بھیج رہے ہیں جس کے ادوار میں ان کے اپنے ہی ملازمین کی غلطیوں سے اتنا بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا چونکہ یہ سبھی رقوم بحر حال سودی لین دین کے تحت ہی لی اور دی جاتی ہیں اس لیے جب تک دنیا کے مہلک ترین اور خدا کی بغاوت پر مبنی نظام سود کا خاتمہ نہیں کیا جاتاایسے کئی جرمانے ادا کرنے ہوں گے کہ سودی نظام خدا اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
وفاقی شریعت کورٹ نے شدید کافرانہ نظام سود کے مکمل خاتمے کا فیصلہ سنا یا تھا مگر شریفوں کے سابقہ حکمرانی کے دور میں ان کی حکومت نے سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر جاری کروالیا تھا جو آج تک جاری ہے اور ہم سودی مہنگائیوں اور چھینا جھپٹیوں کا شکار ہیں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔
جب تک اس پاک دھرتی سے سودی نظام کا خاتمہ نہیں کر لیا جاتا ہم پر عذاب الٰہی کا کوڑا مسلسل برستا رہے گاآئی ڈی پیز کی ادائیگی نہ ہونے پر خواجہ آصف نے بطور وزیر بجلی پانی سپریم کورٹ میں حکومت کے طرف سے اپیل کی تھی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا اور فوراً ان کی رقوم کی ادائیگی کا حکم جاری کیا تھا مگر حکومت نے کوئی عمل نہ کیا۔اب ہمیں ٍمزید مہنگی بجلی دی جائے گی مگر سارا بجلی کا محکمہ ودیگروزراء وغیرہ ماضی کی طرح اس گنگا میں مفت اشنان کرتے رہیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر