وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا اوگرا ہی اصل حکمران ہے؟

جمعه 03 نومبر 2017 کیا اوگرا ہی اصل حکمران ہے؟

سابقہ مہینوں کی طرح اس ماہ کی پہلی تاریخ رات12بجے پٹرول بم پھر پھٹ چکا پٹرول کی قیمت 2.49روپے ڈیزل 5.19روپے ،مٹی کا تیل 5روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمتیں 3روپے تک بڑھا دی گئی ہیں،اس ماہ کے آخری دنوں میں میڈیا نے خبریں دینا شروع کردی تھیں کہ تیل کی قیمتوں میں زبردست بڑھوتری ہو گی ،پورے ملک کے پٹرول پمپ والوں نے تیل دینا یا تو بالکل بند کردیا پھر فروختگی کم کرڈالی تھی تاکہ نئی بڑھی ہوئی قیمتوں سے ڈھیروں منافع کما سکیں پٹرول پمپ والوں نے زیادہ سے زیادہ تیل جمع کیا۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا )جو کہ حکومتی ادار ہ ہی ہے اور ہمارے ہی بینکوں میں جمع کردہ ٹیکسوں و فنڈ سے چلتا ہے ،اس لیے اوگرائی بیورو کریسی اور ادارہ کے دیگر ملازم افراد دیگر اداروں کے کرپٹ عہدیداروں جیسے سانپوں کی طرح سرکاری خزانہ سے ہی دودھ پیتے ہیں اور پھر ہمیں یہی سانپ سنپولیے ہر ماہ مزید ڈسنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں اوگرا نے ہی ہر ماہ کے آخری دنوں میںہمہ قسم تیل پٹرول ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے الگ “حکم نامہ”تیار کرکے اسی حکومت کی وزارت کو بھجوانا ہوتا ہے جس پر وہ “حکم کی باندی اور لونڈیا “کی طرح من وعن نوٹیفیکیشن ہر ماہ کی آخری رات بوقت 12بجے اعلان کرکے پاکستانیوں کی آہوں سسکیوں کی پرواہ کیے بغیر قیمتیں بڑھا کر عوام کو مزید مہنگائی کی خونی چکی میں پیسنے کا انتظام کر ڈالتی ہے۔
تیل کی قیمتوں کو بڑھانا کچھ ایسے ہی نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے غلیظ ترین اور کافرانہ سودی نظام سے جڑا ہوا سرمایہ داری نظام کے تحفظ اور غریبوں کا خون چوستے رہنے کی ہی ایک انوکھی واردات ہوتی ہے، سودی نحوست کا یہ “کمال ” ہے کہ اس کے اثرات سرمایہ داروں پر اچھے مگر غریبوں کے لیے جان لیوا ہوتے ہیں اب تیل کی قیمتیں بڑھانے سے دیگر ساری صنعتی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، ریلوں اور بسوں کے کرائے بڑھ جائیں گے غریب بیچارا روزمرہ اشیاء خریدتے اور سفر کرتے وقت اس نظام زر کی کارستانیوں پر کڑھتا رہے گا، عالمی منڈی میں تیل کی جو فی بیرل قیمت ہے اس کے اتار چڑھائو کے مطابق یہاں بھی قیمتوں کا بڑھنا گھٹنا ہو تو کسی کو اعتراض نہ ہو مگر عالمی منڈیوں میں خواہ قیمتیں کم ہی ہوتی ہوں مگر یہاں مسلسل اضافے کا تمانچہ رسید کردیا جاتا ہے ۔
کوئی معیشت دان جمع تفریق کرکے دیکھ لے پٹرول کی قیمت 32روپے فی لٹر اور ڈیزل 35 روپے فی لٹرپاکستان میں فروخت ہونا چاہیے مگر حکمران ایسا نہ کبھی یہاں کرتے ہیں نہ کریں گے کہ او گرائی اور متعلقہ وزارت کی کرپٹ بیورو کریسی اور حکمران اور بالآخراصل حکمران اپنی ” مخصوص بچت “کو کیسے ختم کرسکتے ہیںاب کی بار تیل کی قیمت زیادہ کرنے سے بیورو کریٹوں کی اس ماہ میں ” نیک کمائی “کم ازکم 13ارب روپے ہوگی اور یہ “مفت کی مخصوص کمائیاں”کراچی کے زبردستی چندوں اور اغوا برائے تاوان کی کمائیوں کو لندن میں الطاف حسین کو بھجوانے کی طرح موجودہ و سابقہ حکمرانوں کی بیرونی ” پانامہ لیکس”اور زرداری کی ” وکی لیکس وسوئس بینکوں میں جمع ہوتے ہیںانہی جمع شدہ حرام مال سے آئندہ انتخابی کمپین چلے گی ویسے بھی بڑی پارٹیوں نے انتخابات کے موقع پر اخباری اشتہارات کے مطابق 25,30 ہزار روپے ہر سیٹ پر حصہ لینے والے خواہشمندوں سے جمع کروانا ہوتا ہے ،مگر در اصل ٹکٹوں کی بولیاں لگتی ہیں 2013کے انتخابات میں ن لیگی ٹکٹیں جن کو دی گئیں ان سے 4 تا5کروڑ روپے پارٹی فنڈ کے نام سے علیحدہ چندہ وصول کیا گیاجس کا کوئی حساب کتاب تک نہ ہے۔
پی پی پی اور عمران کے ساتھیوں نے بھی ٹکٹوں کی بندر بانٹ کرتے وقت خوب مال کمایا تھا موجودہ حالات کے مطابق چونکہ ظاہراً( مستقبل کے حالات خدا ہی بہتر جانتے ہیں) پی ٹی آئی بھی ن لیگ کے مقابل آن کھڑی ہوئی ہے تو دونوں طرف امیدواروں کو ٹکٹ دیے جانے کی بولی کم ازکم 12یا15کروڑ “پارٹی فنڈ ” سے شروع ہو گی خدا خیر کرے۔پھر یہ بولی زدہ مخصوص جاگیردار ،وڈیرے ،نودولتیے سود خور سرمایہ دار اور ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار اگر خدا نخواستہ خدانخواستہ منتخب ہو بھی گئے تو اقتدار کے پانچ سالوں کے دوران عوام کا خون ایسے چوسیں گے کہ خون چوسنے والی جونکوں کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔اور سرکاری خزانے کا تیاپانچہ کر ڈالیں گے خدا ہمیں ایسے ظالم وڈیروں انگریزوں کے ٹوڈی بدمعاش جاگیرداروں کی کرپٹ اولادوں دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام سود پر پلنے والے نودولتیوں اور ناجائز ترین و ڈھیروں منافع خور صنعتکاروں کے 70سالہ عذاب مسلسل سے ہمیں محفوظ رکھیں ۔
خدائے عز و جل و دنیا کے پالن ہار ہمیںبا کردار با اصول نئی قیادت نصیب فرمائیں تاکہ ہمہ قسم تیل(پٹرول ،ڈیزل ،مٹی کا تیل) فروٹ سبزیوں کی مہنگائی سے جان چھوٹ جائے بڑھتی ہوئی بیروزگاری،غربت ،مہنگائی دہشت گردی کے عذاب سے بچ سکیں اور ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بن جائے جہاں آئین کے مطابق سبھی مستحقین کو علاج تعلیم انصاف خوراک لباس ،رہائش سفر کرنے اور بجلی گیس و صاف پانی اور اعلیٰ سیوریج سسٹم کی سہولتیں مفت مہیا ہو سکیں۔تیل کی بڑھوتری کی قیمتوں کو تو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے مگر کیا کبھی کسی مقتدر سیاسی جماعت یا اس کے راہنمائوں نے ایک دوسرے کو مغلظات سنانے کے علاوہ مہنگائی کا بھی رونا رویا ہے ؟قطعاً نہیں حکمران توتیل کی قیمتوں کی مسلسل زیادتی کرنے کے ساتھ ساتھ ہی ممبران اسمبلی کو کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کر رہے ہیں تاکہ وہ ضیا ء الحقی فارمولے”کلہ مضبوط کرنا” کے مطابق اپنے اپنے حلقہ انتخاب کی بیورو کریسی سے ملی بھگت کرکے انہیںمکمل ہضم کرسکیں اکا دکا رقوم سے دکھلاوے کے ترقیاتی کام کروائیں باقی سارا مال جمع رکھ کر آئندہ انتخابات جیت سکیں کہ اب “نوٹ دکھائو کہ میرا موڈ بنے”والا حربہ ہی استعمال ہوگا جو ووٹرز کو خریدنے میں کامیاب ہوگیااور ان کی خواہشات کے مطابق انہیں رقوم دیدیں اس کی کامیابی یقینی ہے اب نیا مقابلہ میںاترنے والا شخص کیا کرسکتا ہے؟ کہ درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے افراد 2018کے انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔غرضیکہ انتخابات سرمایوں کی جنگ ہوگی تاوقتیکہ غرباء کے اکٹھ سے اللہ اکبر تحریک اٹھے اور پولنگ اسٹیشنوں پر سارے سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں کو ناکام کرکے اقتدار کی باگیں بذریعہ بیلٹ ان سے چھین لے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر