وجود

... loading ...

وجود
وجود

تیل گیس بجلی فروٹ سبزیوں کا سیاپا

بدھ 01 نومبر 2017 تیل گیس بجلی فروٹ سبزیوں کا سیاپا

اوگرا نے حکمرانوں کو حکم نامہ بھیج دیا ہے کہ تیل کی قیمتیں پچھلے مہینوں کی طرح بڑھائی جائیں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ایک روپیہ قیمت بڑھانے سے متعلقہ وزارت و بیورو کریسی و اوگرا کو 30ارب روپوں سے زائد کی بچت ہوتی ہے ہر ماہ وزارت اور اوگرا کرپشنوں کے حمام میں اکٹھے الف ننگے نہا تے ہیں کیا کوئی پوچھ سکتا ہے ؟ہر گز نہیں مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ؟کی طرح تیل و ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں ذراسی بڑھانے سے ان کے گھروں میں گھی کے چرا غ جلنے لگتے ہیں اب بھی یکم کی صبح خونخوار اژدھا عوام کو ڈس رہا ہوگا ۔
سرکاری مارکیٹ کمیٹیوں کے انتظامی بیورو کریٹس اور انتظامی و پولیس افسران حرام کی تنخواہیں لے رہے ہیں کہ ہر چوری ڈکیتی میں تھانے کا حصہ ہونے کی طرح یہاں بھی نوزائیدہ سود خور سرمایہ پرستوں سے باقاعدہ منتھلیاں لیتے ہیں وگرنہ قانون کی خلاف ورزی کسی کا باپ بھی نہیں کرسکتاجب سرکاری سطح پر روزانہ ہر سبزی فروٹ کی قیمتیں مقرر کرکے ان کا چارٹ ہر دوکاندار تک اور فروٹ و سبز منڈیوں میں پہنچا دیا جاتا ہے پھر ان کی خلاف ورزی کیسے ہو سکتی ہے؟گھر گھر میں سیاپا مچا ہوا ہے جان لیوا مہنگائی ان کا خون چوس رہی ہے ۔
اُدھر بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے بڑھائی جاچکی ہیں اور اس پرٹیلی فون کے بلوں کی طرح نصف درجن مزید ٹیکس بھی عائد ہیں صرف واپڈائی ملازمین اربوں روپوں کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں کہ انہیں اس کی اوپر والوں نے کیسے اجازت دے رکھی ہے کیا وہ پاکستانی نہیں بلکہ مریخ سے اتری ہوئی کوئی علیحدہ مخلوق ہیں ؟ پھر یہ خود نہیں بلکہ چاروں اطراف میں موجود بیسیوں گھروں کو تاریں سپلائی کرکے ان سے “مختصر سا ہدیہ “لیتے رہنے کا ماہانہ معاہدہ کرلیتے ہیں اب وہ خود ساختہ بجلی کے چور جتنے بھی ائیر کنڈیشنڈ یا ہیٹرز چلاتے رہیں انہیں کون پوچھ سکتا ہے؟کہ بجلی کی”سرکار” نے تو خود مہربانی کر رکھی ہوتی ہے اس طرح سفید ہاتھی واپڈا کے ملازمین دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں کسی کو زائد بل ڈال کر ،پھر اس کی درستگی پر “نذرانہ ” وصول کرتے اور کسی سے مفت بجلی سپلائی کرکے رقوم اینٹھتے ہیں اس محکمہ کے وزیر سیکریٹری دیگر بیورو کریٹ کیوں بولیں گے؟ کہ انہیں ہر متعلقہ ایس ڈی او باقاعدگی سے حصہ بقدر جثہ پہنچانے کا پابند ہوتا ہے بجلی اور گیس کی مہنگائی کی وجہ سے صنعتیں تباہ ہو چکی ہیں کہ انہیں اپنی پراڈکٹس بجلی گیس کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مہنگی کرنی پڑتی ہیں اور اس طرح برآمد اور بیرون ممالک میں ہماری مصنوعات کی مارکیٹ کم ہوتی جارہی ہے ایسی تمام اشیاءکی مہنگائی کا ملبہ غریب عوام کے سر پر ہی ہتھوڑے برساتا ہے پہلے بجلی کی کمی کا رونا تھا اب حکمرانوں نے کچھ کمی پوری کی ہے تو اس کے لیے مہنگے پلانٹس لگے ہوں گے اب ان کا”چندہ ” غریبوں کو ہی دینا پڑے گا یعنی” آگے دریا پیچھے کھائی غریبو تمہاری شامت آئی”عوام چیختی چلاتی تھی کہ بجلی نہیں آتی مگر”ہن ہور چوپو “آگئی ہے مگر اس کی قیمتیں تمہاری کھال ادھیڑ کر لے جائیں گی ۔
رہا معاملہ گھریلو گیس کا تو جن گھروں میں سفارشوں سے سرکاری طور پر اس کی تنصیب ہے وہ بھی دونوں ہاتھ سر پر رکھے دہاڑیں مار رہے ہیں کہ اس کا پریشر ہی خصوصاً رات و دیگر کام کے اوقات میں اتنا کم ہوتا ہے کہ روٹی چپاتی پکتے پکتے ہی سوکھ کر لکڑی ہوجاتی ہے پھر بزرگ بوڑھے تو اسے چبا ہی نہیں سکتے مزید برآں 75فیصد سے زائد آبادی مائع گیس کے سلنڈر استعمال کرتی ہے جس کی ہیٹ ویسے ہی بہت کم ہوتی ہے سال 1999میں یہی سلنڈر200کا تھا مگر اب 1200سے زائد روپوں کا ملتا ہے اس میں کتنی گیس ہے یہ دوکانداروں کے دین ایمان پر ہے کہ کرپشنوں میں ڈوبا ہوا معاشرہ اوراس کے کاروباری حضرات کیونکر گیس سلنڈروں میں پوری بھر کر آپ کو سپلائی کرسکتے ہیں ؟جب “آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو ہر جگہ ہی کرپشنی ماسی مصیبتے “ہی کی حکمرانی کا ڈنڈا چلے گا۔سردیوں کے شروع سے ہی لنڈا بازار میں بھی مہنگائی کا طوفان بدتمیزی وارد ہو چکا ہے خدا خیر کرے!
سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے بعد تقریباً سبھی اوپر کی سطح کے ذمہ داران ہمیں “یہودی سامراج” کی شہ پر کرپٹ ہی نصیب ہوئے ہیں ڈکٹیٹر ضیا ءالحق نے جب ممبران سمبلی کو بقول اس کے ” کلہ مضبوط” کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی رقوم براہ راست ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کرنے کا رواج عام کیا تو سبھی ممبران کے وارے نیارے ہو گئے اس کی جعلی اور غیر آئینی بنائی گئی اسمبلیوں کے ممبران نو دولتیے سو د خور اور کرپشن میں نہائے ہوئے نام نہاد سیاستدانوں کا نیا ٹولہ قرار پاگئے با اصول و باضمیر سیاستدان گھروں میں دبک گئے اور “جی حضوریوں “کی مالا جپنے والے ہی مقتدر قرار پا سکے حکومتی چل چلاؤ کے وقت تمام لاکڑی ڈھیروں مال متال سمیٹنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ پھر حرام سرمایہ کے زور پر ووٹروں کو ورغلاءکر دوبارہ بدستور گردنوں پر سوار رہیں “جیدھے گھر دانے اودھے کملے وی سیانے”کے مصداق جس انتخابی امیدوار نے زائد مال ووٹروں کو لگا یا وہی جیتے گایا پھر خود کشیاں ،خود سوزیاں کرتے مفلوک الحال پسے ہوئے طبقات کے بھوک سے بلکتے بے یار و مدد گار عوام دیہاتوں غلیظ اور کیچڑ بھری بدبودار گلیوں کوچوں سے “اللہ اکبر اللہ اکبر “کی صدائیں بلند کرتے اور” لبیک یا رسول اللہ “کہتے ہوئے تحریک کی صورت میں نکلیں اور ان سب کا بذریعہ ووٹ دھڑن تختہ کر ڈالیں ایسی اللہ اکبر تحریک کو کامیاب بنا کر اگر اسلامی جمہوری فلاحی مملکت نہ بنا ڈالا گیاتو”وگرنہ بابا یہ سب کہانیاں ہیں “بدبودار کرپٹ ظالم وڈیرے جاگیردار ،ڈھیروں حرام منافع کمانے والے صنعتکاروں کا ٹولہ ہی دوبارہ جیتے گا کہ سبھی موجودہ بڑی سیاسی جماعتوں میں گھس بیٹھئے بن کر قابض ہوچکے ہیں ان کا سیاسی نام تبدیل ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جیسے سانپوں کی سینکڑوں قسمیں مگر سبھی زہریلے ۔امید پر دنیا قائم ہے اور دین میں مایوسی کفر ہے اس لیے سیاہ رات کوکھ سے صبح نو ضرور جنم لے گی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر