وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا پاکستان کے خلاف کاروائی کے لیے بہانہ ڈھونڈتا ہے

بدھ 01 نومبر 2017 امریکا پاکستان کے خلاف کاروائی کے لیے بہانہ ڈھونڈتا ہے


موضوع پر آنے سے پہلے گزارش ہے کہ امریکا افغانستان میں طالبا ن سے شکست کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے۔فاقہ مست افغانوں کے خلاف سولہ سالہ ظالمانہ فوجی کاروائیوں کر رہا ہے۔ اپنے48 ملکوں کے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی افغانیوں کو فتح نہیں کر سکااس لیے اپنی ناکامی پر پریشان ہے۔ جنگ کے زور پر امریکا افغانوں پر مسلط نہیں ہو سکتا۔ یہ بات امریکا کی فوجی اسٹبلشمنٹ کو اپنی کانگریس نے پہلے ہی بتا دی تھی۔ ہوا یوں کہ جب امریکی فوجی اسٹبلیشمنٹ نے افغانستان پر حملے کے لیے اپنی کانگریس سے اجازت مانگی تھی تو کانگریس نے ان سے کہا تھا کہ آپ کو معلوم بھی ہے اور تا ریخ میں بھی درج ہے کہ افغانوں نے پہلے برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا کو شکست دی تھی۔ اور اس کے بعد روس جو دنیا کی سب سے بڑی مشین تھا۔ جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جس ملک میں داخل ہوا،اس سے واپس نہیں نکلا۔ افغانوں نے اسے بھی اپنے ملک سے شکست دے کر نکال دیا تھا۔ امریکی فوجی اسٹبلیشمنٹ نے اپنی کانگریس کو بتلایا تھا کہ ہم نے اس کا علاج کر لیا ہے۔ یہ علاج کیا تھا ۔
یہ بات تو تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جب بھی افغانستان پربُرا وقت آیا پاکستان میں موجود ان کے رشتہ داروں اور ہم مذہب مسلمانوں نے ان کی مدد کی۔ امریکا نے سوچا کہ ایک طرف تو افغانستان کی طالبان حکومت پر حملہ قبضہ کر لیا جائے اور دوسری طرف ان کے پاکستان میں حماییتوں کو ختم بھی کیا جائے یا اس کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ افغانوں کی مدد نہ کر سکیں اور اپنے میں ہی الجھے رہیں ۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان میں جعلی طالبان پیدا کیے گئے۔جنہوں نے بھارت اور امریکا کی مدد اور مغربی ملکوں کی خفیہ اداروں کے اہل کار کی مدد سے پاکستان کی سیکورٹی فوجوں پر حملے کرنا شروع کیے۔ پاکستان کے دفاعی ادروں پر بھی حملے کرنا شروع کیے ۔دوسری طرف اسی پالیسی پر ہی امریکا نے اُس دور کی خبیرپختونخواہ کی نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوق حکومت اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ ساز باز کر کے پاکستان میں سوات، باجوڑ، وزیرستان میں فوجی آپریشن کی ابتدا کی۔ اس سے پاکستان میں موجود افغانوں کے ہمدردوں کو ختم یا کمزرو کرنا تھا۔پہلے تو ہمارے کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے قوم اور اپنی فوج سے اجازت لیے بغیر امریکا کی ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کی۔پھر پاکستان میں افغانوں کے خیر خواہوں کے خلاف مہم شروع کی۔ چھ سو لوگوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا۔
اس سے قبل امریکا نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے معاشی حب میں غدار پاکستان الطاف حسین کو 35 سال سے کام پر لگایاہوا تھا۔ الطان حسین نے برطانیا کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو بھی خط لکھا تھا کہ آپ پاکستان کی آئی ایس آئی کو ختم کریں میں اس میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ اگر عوام کو یاد ہو تو اس سازش کو پیپلز پارٹی کے منحرف لیڈر ، سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا صاحب نے نے قوم کے سامنے رکھا تھا کہ ایک ملاقات میں الطاف حسین نے کہا تھا، امریکا پاکستان کو توڑ کر اس کے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے اور میں اس میں امریکا کی مدد کروں گا۔یہ بات مرزا صاحب نے قرآن سر پر رکھ الیکٹرونک میڈیا میں کہی تھی۔ میڈیا کے سوال پر کہا تھا کہ اس سازش کو پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور فوج کی سربراہ کو بھی بتا دی تھی۔ امریکا ،اسرائیل اور بھارت نے توگریٹ گیم کے تحت پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا پروگرام پہلے سے بنایا ہوا ہے۔یہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اور مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان پر اللہ کا خاص رحم اور کرم ہے اللہ نے پاکستان کو قائم دائم رکھا ہوا ہے۔
سوات، باجوڑ، وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن امریکا اورپاکستان میں امریکی پٹھو حکمرانوں کی وجہ سے ہوا۔ اس کی وجہ پاکستان میں اتنی بڑی ہجرت کے باجود اللہ نے خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو حوصلہ دیا۔ اتنی بڑی قربانیوں کے باوجود اللہ نے انہیں محفوظ رکھا۔ اب اللہ کے فضل سے ۵۹ فی صد واپس اپنے گھروں میں واپس پہنچ چکے ہیں ۔ اسی طرح افغانستان کے فاقہ مست عوام نے امریکا اور اس کے 48 ناتو اتحادیوں کی فوجیوں کوناکوں چنے چبا دیے اور وہ ایک ایک کر کے افغانستان سے نکل گئے اور امریکا کو شکست ہوئی۔ اب امریکا کے صرف دس بارہ ہزار فوجی افغانستان میں ہیں وہ بھی اپنے فوجی اڈوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ امریکا کو چاہےے کہ سیدھی طرح شکست مان کر افغانستان سے نکل جائے۔ مگر امریکا ایسے نہیں کرے گا بقول ایک سابق جنرل، امریاکا 119بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔وہ اسلامی اور ایٹمی پاکستان کو ہر گز نہیں چلنے دے گا۔وہ ایک عرصہ سے پاکستان میں دین بیزاری، روشن خیالی اور سیکولر سوچ والے حلقے پیدا کر رہا ہے۔70 سال پاکستان کے ساتھ دوستی کی آر میں دشمنی کر رہا ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو اس کی سمجھ نہیں آرہی۔ اب امریکا کی خواہش کہ ہم افغانستان کی جنگ اپنے ملک میں لے آئیں ۔ جس افغانستان کو امریکا اپنے48 نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی فتح نہیں کر سکا۔ ان سے پاکستانی فوج فتح حاصل کر کے امریکا کی جھولی میں ڈال دے۔ اس کے لیے بھارت کی طرف سے ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ وہ کشمیر کی سرحد پر گولہ باری کرتا رہتا ہے۔ ہمارے شہریوں کو بے گناہ شہید کر رہا ہے۔
امریکا کا وزیر خارجہ پاکستان میں آکر کہتا ہے کہ پاکستان سے مخصوص مطالبات کیے ہیں ۔ امریکا نے75 مطلوب لوگوں کی فہرست بھی دی ہے۔ پاکستان نے بھی 100 مطلوب افراد کی فہرست امریکا کر دی ہے جو افغانستان میں مقیم ہیں اور وہاں سے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں ۔ امریک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان سے ہمارا رشتہ شرائط پر مبنی ہو گا۔امریکا کہتا کہ حقانی نیٹ کے خلاف جنگ کرو۔افغان طالبان کے خلاف جنگ کرو۔پاکستام میں دہشت گردچھپے ہوئے ہیں اس کے خلاف جنگ کرو۔ پاکستان کے سپہ سالار نے پہلے بھی کہا تھا جس کی چین نے بھی حمایت کی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ لڑائی پاکستان نے کی ہے۔ دنیا کو اس کا اعتراف کرناچاہےے۔ دنیا کو پاکستان کی مدد کرنی چاہےے نہ کہ ڈو مور کا مطالبہ کیا جائے۔ پاکستان نے امریکا کے نئے ڈومور کے مطالبے کے مقابلہ میں کہا ہے کہ اب امریکا اور دنیا ڈو مور کرےپاکستان نہیں ۔ہمیں امداد نہیں چاہےے۔امریکا کی طرف سے الزام تراشی ختم ہونی چاہےے۔ ویسے بھی افغانستان کا پچاس فی صدعلاقہ افغان طالبان کے پاس ہے ۔انہیں پاکستان میں پناہ کی ضرورت نہیں ۔امریکا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرناچاہتاہے۔ اس لیے پاکستان کو چین کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنا چاہےے۔ اپنی حفاظت کے لیے ایٹمی اور میزائل طاقت کو مذید ترقی دینا چاہےے۔صاحبو! پا کستان کے وزیر خارجہ نے صحیح کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے خلاف کاروائی کے لیے بہانہ ڈھونڈتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر