وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہندوؤں کا مقدس شہر بنارس پسماندگی کی تصویر

اتوار 22 اکتوبر 2017 ہندوؤں کا مقدس شہر بنارس پسماندگی کی تصویر

وارانسی، کاشی یا بنارس شہر کا ہندو مذہب میں بڑا مقام ہے جہاں زندگی روزانہ موت سے گلے ملتی نظر آتی ہے۔ہندو مذہب میں بنارس کی خاص اہمیت ہے اور ادب میں صبح بنارس کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔یہ شہر صدیوں سے دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے اور یہاں دور دراز سے سیاحوں کی آمد کی سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ہندو مذہب میں اس شہر اور اس دریا کا اہم مقام ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں غسل کرنے سے پاپ یعنی گناہ دھل جاتے ہیں ۔ اس لیے یہاں ا شنان کرنے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔یہاں مندروں کی کثرت ہے اور لوگ اپنی عقیدت کے مطابق مختلف مندروں کا درشن کرتے ہیں ۔ یہاں آسماں سے مندروں کے کلس ملتے نظر آتے ہیں ۔ باہر سے آنے والے افراد سیاح بھی ہوتے ہیں اور عقیدت مند بھی۔بنارس میں دریائے گنگا کے گھاٹ پر چتاؤں کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں پڑتی، یہاں ہر روز سینکڑوں لاشوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ہندو مانتے ہیں کہ اگر وارانسی یعنی بنارس میں موت ہو تو پھر دوبارہ جنم نہیں لینا پڑتا اسی لیے بہت سے بوڑھے اپنے آخری ایام کاشی میں گزارنے کی تمنا رکھتے ہیں ۔ بنارس کی رنگین صبح کے بعد رات آرتی کے ساتھ ختم ہوتی ہے جہاں لوگ روزانہ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں ۔بنارس کا شمار انڈیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔بنارس ہندو تہذیب و ثقافت اور مذہب کا اہم مرکز ہے۔ اترپردیش کے مشرقی سرے پر واقع یہ شہر اپنے گھاٹوں اور مندروں کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ یہاں گنگا کے کنارے رہنے والے لوگ گزر بسر کے لیے دریا پر ہی انحصار کرتے ہیں ۔ کوئی کشتی چلاتا ہے، کوئی مچھلی پکڑتا ہے اور کوئی پانی میں سے سیدھا کیش ہی نکالتا ہے ! ہندو دریائے گنگا کو مقدس سمجھتے ہیں اور ٹرینوں میں سوار عقیدت مند دریا میں بطور نذرانہ پیسے پھینکتے ہیں اور بھرت اور پردیپ جیسے نہ جانے کتنے نوجوان اپنی جان خطرے میں ڈال کر یہ سکے گہرے پانی سے باہر نکالنے میں جٹ جاتے ہیں ۔
بنارس میں دریائے گنگا کے پرانے پل سے جب بھی کوئی ٹرین گزرتی ہے تو بھرت اور پردیپ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ان نوجوانوں کو جانا تو کہیں نہیں ، لیکن پھر بھی پورے دن انھیں ٹرینوں کا انتظار رہتا ہے۔ان سکوں سے ہی ان کے گھروں میں چولھا جلتا ہے۔روزانہ چار سو سے پانچ سو روپے نکال لینا ان نوجوانوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں لیکن یہ جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ہے، خود بھرت کے دادا اور چاچا نے انھی پانیوں میں غوطہ لگاتے ہوئے دم توڑا تھا۔بھرت کہتے ہیں کہ ‘پانی میں سے سکے نکالنا بہت خطرے کا کام ہے، کبھی پتھروں سے چوٹ لگ جاتی ہے، کبھی پانی کے اندر ہی دم ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔میرے دادا اور چاچا پانی میں کودے تھے لیکن زندہ واپس نہیں آئے۔۔۔انھوں نے ہی مجھے تیرنا سکھایا تھا۔’
دریائے گنگا کے پرانے پل سے جب بھی کوئی ٹرین گزرتی ہے تو بھرت اور پردیپ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔لیکن عقیدت مند پانی میں صرف سکے ہی نہیں پھینکتے، دریا کی تہہ میں بہت سے راز بھی دفن ہیں ، بھرت اور ان کے بھائی کو پستولیں اور خنجر بھی ملے ہیں ۔پردیپ کہتے ہیں کہ ‘کبھی پستول بھی ملتی ہے اور چاقو بھی، سونا چاندی بھی مل جاتا ہے۔ پھر ہم سنار سے جاکر چیک کراتے ہیں کہ سونے کا پانی تو نہیں چڑھا ہے۔ لیکن ہتھیار ہمیں مقامی تھانے میں جمع کرانے پڑتے ہیں ۔ لوگ کسی کو مار کر شاید ہتھیار یہاں پھینک دیتے ہیں ۔ان دونوں نے اسکول جانا تو بچپن میں ہی چھوڑ دیا تھا لیکن بھرت کو ڈانس کا شوق ہے۔ وقت بدل رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان نوجوانوں کی دلچسپیاں بھی۔یہ لوگ دریا میں پھینکے جانے والے پیسے چن کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ‘ڈانس سے میری زندگی بدل گئی ہے، اب میں گھر میں پیسے دیتا ہوں ۔ اچھے اچھے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے، اسٹیج پر شو کرنے کے لیے میں اپنے سر کے بل جاتا ہوں ، ہر شام پریکٹس کرتا ہوں ۔لیکن کیا کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ خطرے کا یہ کام چھوڑ کر ڈانس پر ہی توجہ دیں ؟ ان کا سادہ سا جواب ہے کہ ‘پیسے نہیں ہوں گے تو ڈانس کیسے سیکھیں گے؟’بنارس میں کہتے ہیں کہ گنگا کسی کو مایوس نہیں کرتی، چاہے دین کی تلاش ہو یا دنیا کی۔
بھارت کا مشرقی شہر بنارس جسے ہندو مذہب کی مناسبت سے بڑی اہمیت کا حامل ہے،بنارس شہر کاایک یہ رخ ہے اور بنارس کادوسرا رخ یہ ہے کہ اس شہر کی ساڑیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں اور دنیا کاکوئی دوسرا شہر اس کی ہمسری کا آج تک دعویٰ نہیں کرسکاہے ۔بنارسی ساڑیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ مہنگی ہونے کے باوجود انہیں پسند کیا جاتا ہے۔لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہونگے کے بنارسی ساڑیوں کو اتنی خوبیوں سے مزین کرنے والے بنکر یا جولاہے معاشی بد حالی کا شکار ہیں ۔جس طرح بنارس اپنی مذہبی اہمیت کے باوجود پسماندگی کا شکار ہے،اسی طرح اس شہر میں ساڑی کی صنعت بھی زبوں حالی سے دو چار ہے اور حالت یہ ہے کہ اس وقت تاجر، جولاہے اور دھاگہ بنانے والے سبھی مشکل دور سے گزر رہے ہیں ۔
ساڑی کی صنعت کو قریب سے دیکھنے والے شہر کے تجربہ کار صحافی اور تجزیہ کار سلمان راغب کہتے ہیں کہ پروان چڑھ رہی صنعتیں عالمی تجارتی تنظیم کے نظام سے مربوط ہیں ، ’بنارس کی ساڑی مشہور تو ہے لیکن جدید تقاضوں کے مطابق اسے تجارت سے نہیں جوڑا گیا اور اسے بہتر بنانے اور مراعات کے دینے کے صرف اعلانات ہوتے رہے ہیں عمل نہیں ہوا‘۔وہ کہتے ہیں ،’دلی، کولکتہ اور ممبئی جیسے شہروں میں جو بنارسی ساڑی پچیس ہزار روپے میں بکتی ہے اس کا بنانے والا سال بھر میں مشکل سے اتنے پیسے کما پاتا ہے۔ حکومتیں بھی توجہ نہیں دیتیں لیکن جب تک یہ خلیج کم نہیں ہوتی اس وقت تک صنعت اور بنکر طبقے کی بہتری مشکل ہے‘۔
لوگوں کی عام شکایت یہ ہے کہ جب انتخابات آتے ہیں تو سیاسی جماعتیں جولاہوں اور ساڑی کی صنعت کی بہتری کے لیے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں لیکن الیکشن کے بعد کوئی انہیں نہیں پوچھتا۔بنارس کی ساڑی مشہور تو ہے لیکن جدید تقاضوں کے مطابق اسے تجارت سے نہیں جوڑا گیا اور اسے بہتر بنانے اور مراعات کے دینے کے صرف اعلانات ہوتے رہے ہیں عمل نہیں ہوا۔
بنارس میں روزنامہ جاگرن کے مدیر راگھویندر چڈھا مانتے ہیں کہ ساڑی سے جڑا طبقہ معاشی طور پر بہت پریشان ہے۔’وعدے سبھی جماعتوں نے کیے لیکن اس پر عمل نہیں ہوا اور گزشتہ دس برسوں میں جہاں ان کی کی معاشی حالت خراب ہوئی ہے وہیں یہ صنعت بھی زوال پذیر ہے۔ جوتھوڑی بہت مدد حکومت نے دی اسی برادری کے دلال اسے ہڑپ گئے اور غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا‘۔شہر میں مدن پورہ کا علاقہ ساڑیوں کی تجارت کا مرکز ہے جہاں اس صنعت کے تئیں حکومتی بے توجہی کے متعلق سبھی شاکی ہیں ۔
تاجر ریحان سہیل کا کہنا ہے کہ ’اس سیکٹر کو عشروں سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اس وقت یہ معاشی بحران سے گزر رہی ہے اور اگر حکومت مدد کرے تو اسے بحال کرنے میں مدد ملے گی‘۔لیکن سب سے زیادہ نقصان ان کروڑوں غریب جولاہوں کا ہوا ہے جو یومیہ مزدوری پر ان قیمتی ساڑیوں کا دھاگہ بناتے اور اسے بنتے ہیں ۔ بنارس کے ایک بنکر عبدالمجید کہتے ہیں ،’ہمارا کاروبار برباد ہورہا ہے لوگ عاجز آچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے لوگ کام کے لیے شہر سے باہر جا رہے ہیں ‘۔ایک نوجوان بنکر شمشاد انصاری کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسیغریبوں کے لیے نہ تو سیاسی جماعت ہے اور نہ ہی کوئی رہنما۔ ’الیکشن ہے تو آج کل سب ہماری بات کرتے ہیں ، سب فرضی وعدے ہیں کوئی کچھ نہیں کرے گا‘۔ساڑیوں کے تاجر علی حسن کا کہنا ہے کہ ریشم کا دھاگہ روز بروز مہنگا ہوتا جارہا ہے اور ساڑی باہر تو مہنگی بکتی ہے لیکن ’اس کا فائدہ یہاں اس کے کام کرنے والوں کو نہیں پہنچتا‘۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر