وجود

... loading ...

وجود
وجود

مذہبی رہنماؤں سے آغاز

پیر 16 اکتوبر 2017 مذہبی رہنماؤں سے آغاز

خواجہ آصف کے نیویارک میں ایشیا ء سوسائٹی سے خطاب کو ملک کے تمام صف اول کے اخبارات نے واضح تشہیر فراہم کی۔ خواجہ آصف کے اس بیان پر کہ حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید پاکستان کے لیے بوجھ ہیں،اس پر لبرل اور مذہبی حلقے اپنے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ مذہبی حلقے خواجہ آصف کے بیان کو ملک سے دشمنی، غداری جیسے القابات سے نواز رہے ہیں مگر ہمارے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ خواجہ آصف سمیت مسلم لیگ (ن) کی تمام اعلیٰ قیادت اس نقطے پر کافی عرصہ سے متفق ہے کہ ہمیں بین الاقوامی برادری کے سامنے ملکی صورتحال کو صاف صاف واضح کردینا چاہئے۔ یہ بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں ایک واضح فرق ہے وہ یہ کہ ن لیگ اقتدار میں آنے کے بعد خارجہ پالیسی پر خاص توجہوں دیتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے کرنا چاہتی ہے اور جنگ کے خطرات کو جتنا کم کرسکے اس کی کوشش کرتی ہے پڑوسیوں سے تعلقات اچھے کرنے کے چکر میں اکثر مسلم لیگ کے تعلقات گھر کے اندر خراب ہوجاتے ہیں اور وہ اس کی متعدد مرتبہ قیمت بھی چکاچکی ہے۔
جبکہ پیپلز پارٹی کی صدارت جب سے آصف علی زرداری نے سنبھالی ہے تب سے پیپلز پارٹی کے تعلقات اندرون ملک قوتوں سے آئیڈیل ہیں۔ آصف علی زرداری کو خارجہ سے زیادہ خزانہ سے دلچسپی ہے لہذا وہ اس فکر سے آزاد ہیں کہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کس طرف جاتے ہیں اس لیے درحقیقت سرکار کو پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ آصف علی زرداری کی آرمی میں فوٹنگ نہ ہونے کے برابرہے ۔جس کی وجہ سے وہ آرمی کے زیادہ معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ اگر تحریک انصاف 2018ء میں اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ اقتدار اس کے حوالے کیا جائے گا تو یہ تحریک انصاف کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
بلاول کو یہ پیغام پہنچایا جاچکا ہے کہ اگر وہ اپنے والد سے جان چھڑوالے تو اسٹیبلشمنٹ کو بلاول سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پرویز مشرف کا بی بی کے قتل کا الزام آصف علی زرداری پر لگانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس بار پھر سیدھی دکھاکر الٹی ماری جائے گی، تحریک انصاف اسمبلی میں تو ضرور ہوگی مگر اس قدر مضبوط نہیں کہ اکیلی حکومت یا اپوزیشن چلاسکے اور اس کی وجہ عمران خان کا بچکانہ پن ہے جو آدمی 60 سال کی عمرمیں اسٹیج پر چڑھا ببل کھارہا ہو اس سے آپ کیا سنجیدگی کی امید کرسکتے ہیں؟ نواز شریف اور شہباز شریف کی پچھلے عرصے میں پاکستان کی ترقی کے لیے کی جانے والی کاوششوں کو نظر انداز کرنا زیادتی ہوگی۔ نواز شریف پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں اب بات کو جوڑتے ہیں خواجہ آصف کے بیان سے۔
مذہبی حلقے جن قوتوں کی مان کر کشمیر اور افغانستان میں ایک عرصہ لہو بہاتی رہی ہیں ہوسکتا ہے وہ قوتیں کچھ عرصہ مزید ان استعمال کنندہ تنظیموں کی حفاظت کریں مگر دیر تک یہ سب نہیں چلے گا۔ حکومت پاکستان اور سرکار، دونوں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان ترقی کرے ۔اس لیے اصل قدر’’ ترقی‘‘ ہے۔ دنیا کا ہر وہ ملک جو ترقی کرنا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے جس چیز سے آزادی اورچھٹکاراہ حاصل کرتا ہے وہ مذہب ہوتا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ ہوگا ضرور ہوگا مگر صرف برائے نام اس مذہب کے نفاذ کی اجازت نہیں ہوگی۔ مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے ۔اگر آپ کو مذہب پر عمل کرنا ہے تو کریں ۔لیکن ریاست اس معاملے میں آپ کو اتھارٹی نہیں دے گی۔ قومی ریاست کا ویسے بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہر قومی ریاست آخرکار سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
پوری دنیا میں جس ملک نے بھی ترقی کا سفر شروع کیا اس نے سب سے پہلے مذہب کا قتل کیا۔ 17 ویں صدی میں انقلاب فرانس کے ساتھ ہی مغرب نے مذہب کو دفن کردیا۔ مغرب کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب تھا عیسیٰؑ کے پیروکار ہوتے ہوئے کوئی شخص کئی کئی مہینے بند کمرے میں تجربہ کرتا رہے اور جب پادری اس شخص سے چرچ آنے کو کہے،عبادت میں شرکت کرنے کو کہے تو وہ شخص کہے ،کہ ’’میں سائنسی تجربہ کررہا ہوں میں چرچ کی عبادت میں جاکر اپنا دھیان نہیں بٹاسکتا تم پادری چلے جائو، مجھے تجربہ کرنا ہے‘‘۔ پادری ایسے سائنسدان کو جوتے لگواتا ۔لہذا مغربی فلسفیوں نے سب سے پہلے مذہب سے آزادی حاصل کی ،کیونکہ مذہب سے آزادی ہی ترقی کی نئی راہیں کھولتی ہے ۔ وہ عیسیٰؑ جو اپنے پاس دو جوڑے کپڑے نہیں رکھتے تھے وہ عیسیٰؑ جو سر کے نیچے تکیہ نہیں رکھتے تھے وہ عیسیٰؑ جو پینے کے لیے کٹورا نہیں رکھتے تھے۔ ان کے پیروکار اربوں روپے چاند پر جانے کے لیے خرچ کردیں۔ کیا یہ عیسائی مذہب کے ہوتے ہوئے ممکن تھا؟ جوتے لگواتے پادری بدمعاش سائنسدانوں کو۔ سائنسدان سیاروں پر اس لیے جاتے ہیں کیونکہ زمین کے وسائل تیزی سے ختم ہورہے ہیں اس لیے متبادل سیارے کی ضرورت ہے ،اور دنیا کے وسائل ختم بھی سائنس نے کئے ہیں۔جس طرح مغرب نے ترقی کی راہ میں مذہب کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس سے آزادی حاصل کی اسی طرح آج ایران اور سعودی عرب ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے آہستہ آہستہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
سعودی عرب نے حال ہی میں عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی جس پر امریکا نے اس اقدام کو سراہا۔ آخر اس معمولی سے اقدام کا امریکی خیر مقدم کیوں؟ سعودی عرب میں تیزی کے ساتھ تیل کے ذخائر ختم ہونے کی طرف جارہے ہیں۔ اس لیے سعودی عرب کو متبادل ذرائع آمدن کی طرف جانا پڑے گا عرصہ ہوا سعودی عرب اپنے ہاں ہر سال ثقافتی ورثہ قرار دیئے گئے پہاڑوں میں بنے بتوں کے درمیان میلا لگاتا ہے جس میں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ سعودی عرب ترقی کرنا چاہتا ہے اور ترقی مذہبی آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آج عورتوں کو گاڑی چلانے کی آزادی دی ہے کل یہ عورتیں پردہ بھی اُتاردیں گی۔ سعودی عرب اپنی قوم پرستی کو آئیڈیل کے طورپر لیتا ہے، لہذا دنیا میں عظیم قوم وہ ہے جو ترقی یافتہ ہو۔ معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب میں تبدیلی کے خوفناک دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ اپنے لوگوں کو معیار زندگی بلند کرنے کی ترغیب دیتا سعودی عرب جلد بادشاہت سے جمہوریت کی طرف آئے گا اور پھر ان قبائلی گروہوں میں وسائل اور حقوق کے حصول کے لیے لڑائیاں ہونگی جو عرصہ دراز سے بادشاہت میں سکون سے زندگی بسر کررہے تھے یہ سب ترقی کے لیے کرنا پڑے گا۔ خواجہ آصف کا بیان ترقی یافتہ ریاست کی روح کے مطابق ہے مذہبی لوگ اگر عقل استعمال کرتے اور ماضی میں استعمال نہ ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے کو ملتے۔ حکومت اور سرکاری دونوں ترقی یافتہ پاکستان چاہتے ہیں اور اس کی خاطر میں ممتاز قادری تک کی قربانی دے دی گئی۔ تاکہ دنیا جان سکے کہ پاکستان میں رول آف لاء ہے۔ تو بے چارے یہ مذہبی رہنما کیا چیز ہیں؟ اور خود مذہبی رہنما بھی تو کہتے ہیں کہ اسلام ترقی کا حکم دیتا ہے توکیوں نہ اس حکم کی تکمیل کے لیے شروعات آپ مذہبی رہنمائوں سے کی جائے۔؟؟؟


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر