وجود

... loading ...

وجود
وجود

1965 ءاور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں کامتاثرہ شہر عمر کوٹ

اتوار 15 اکتوبر 2017 1965 ءاور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں کامتاثرہ شہر عمر کوٹ

وقار احمد
جنگوں کی تاریخ کا المیہ رہا ہے کہ آیا یہ نامکمل ہوتی ہیں یا پھر جھوٹی ہوتی ہیں۔ ہیروز اور فتوحات کی عظیم کہانیوں میں اکثر میدان جنگ کی زد میں آنے والے ایک عام آدمی کا درد کہیں کھو سا جاتا ہے۔1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران عمرکوٹ، سندھ کے باسیوں کا تذکرہ ہمارے اسکولوں کی نصابی کتابوں میں کہیں نہیں ملتا۔ مجھے 1965 اور 1971 کی جنگوں کی یہ غیر تحریری کہانیاں اس چھوٹے، گرد آلود شہر کی حالیہ سیر کے موقعے پر زبانی سننے کو ملیں۔
عمرکوٹ سندھ کے مشرقی حصے میں بھارتی سرحد سے 60 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ شہر 11 صدی کے قلعہ عمرکوٹ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ مغل شہنشاہ اکبر کا جنم بھی یہاں ہوا تھا، یہ وہ دن تھے جب اکبر کے والد ہمایوں نے شیر شاہ سوری کی فوجوں سے بچنے کے لیے عمر کوٹ کا رخ کیا تھا اور یہاں رانا پرساد نامی ہندو راجہ نے انہیں پناہ دی تھی۔ یہ قلعہ مقبول عام سندھی لوک داستان عمر ماروی سے بھی منسوب ہے۔میں اور میرے دوستوں نے صوفی کلام کے سریلے گائک شفیع فقیر کی آواز ریکارڈ کرنے کی غرض سے عمر کوٹ کا رخ کیا تھا۔ ہم صبح ریکارڈنگ کے لیے ہر طرح سے تیار بیٹھے تھے کہ خبر ملی کہ ان کے کسی عزیز کی وفات ہو گئی ہے لہٰذا انہیں آنے میں دیر ہو جائے گی کیونکہ آخری رسومات میں ان کی شرکت لازمی تھی۔ انہوں نے اپنی آمد تک اپنے ایک دوست محمد جمن کو ہماری میزبانی کرنے کو کہا۔مگر یہ افسوسناک اور غیر متوقع صورتحال ہمارے لیے اپنے اندر ایک تحفہ لے آئی تھی، اس کا احساس اس وقت ہوا جب ہمیں پتہ چلا کہ قریب 70 سالہ محمد جمن ایک زبردست سندھی شاعر اور علاقے کی تاریخ پر عبور رکھنے والے عالم ہیں۔ وہ مشہور سندھی دانشور اور قوم پرست مرحوم جی ایم سید سے کافی قریب رہ چکے تھے۔
حالیہ تاریخ سے گرد ہٹاتے ہوئے محمد جمن نے ہمیں بتایا کہ1965میں یہاں مسلمان اسی فیصدتھے لیکن انتہائی غریب ہونے کی وجہ سے بیس فیصد ہندوؤں کی چاکری پرمجبورتھے اورمقامی ہندوٹھاکر ا ن کواپنے مظالم کانشانہ بنائے رکھتا تھا۔ فقیر کا خاندان بھی ایک ٹھاکر کے ہاں ملازمت کرتا تھا۔پھر 1965 کی جنگ ہوئی جس نے یہاں کے رہائشیوں کی زندگیوں میں بڑی مصیبت پیدا کر دی۔ بھارت کی جنگ کی وجہ سے علاقے کے مسلمانوں میں بھارت کے خلاف جذبات عروج پر تھے اور علاقے کے ہندو ٹھاکروں کوخدشہ تھا کہ انھوںنے علاقے کے غریب مسلمانوں کے ساتھ طویل عرصے سے جو ناروا سلوک رکھا ہواتھا اب علاقے کے مسلمان ان سے اس کاانتقام لے سکتے ہیں ،مسلمانوں کی انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے زیادہ ترمالدار ہندوٹھاکر سرحد پار کر کے بھارت چلے گئے۔ پاکستان کو چھوڑجانے والوں میں اکثریت ان امیر ٹھاکروں کی تھی جو علاقے میںاپنی دولت کے بل پر بے وسیلہ اورغریب مسلمانوں کا بھی بری طرح استحصال کرتے رہے تھے ۔نچلی ذات والے ہندو، جیسے بھیل، کوہلی اور میگھواڑ چونکہخود بھی ان دولت مند ٹھاکروں کے استحصال کا شکار تھے لہٰذا انہوں نے بھارت کا رخ نہیں کیا۔ پاکستان ہو یابھارت، دونوں میں کسی ایک ملک کا انتخاب کرنے سے ان کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتاتھا۔ٹھاکروں کے بھارت چلے جانے سے ان کے ملازمین کے پاس نہ رہنے کو جگہ تھی اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش۔ فقیر کے والد اور جمن کو اپنی تسلسل زندگی کی خاطر چائے کے ہوٹل پر بیرہ گیری یا ٹرک صفائی جیسے کاموں کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑا۔ جمن نے ہمیں بتایا کہ 1965 اور 1968 کے بیچ کا عرصہ ان کی زندگی کا سب سے بدترین وقت تھا۔
1971 میں ایک بار پھر جنگ عمر کوٹ کے باسیوں کے لیے مصیبت لے کر آئی، اس وقت بھارتی فوج نے سرحد پار کر کے تھر پارکر کے چند علاقوں پر قبصہ کر لیا تھا۔ پاکستان میں یہ بات عام نہیں ہے اوربہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ تھرپارکر کے کئی گاؤں کئی ماہ تک بھارتی فوج کے قبضے میں رہے اوربھارتی فوجی ان علاقوں میں دندناتے اور بھارت فوج کے خوف اپنے مال مویشی اور گھر بار چھوڑ کر قریبی علاقوں میں چلے جانے والی مقامی لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار کرتے رہے۔جمن بتاتے ہیں کہ جوں ہی بھارتی فوج کی پیش قدمی کا خدشہ بڑھا تو کچھ لوگوں نے عمر کوٹ شہر چھوڑ کر نواحی علاقوں کا رخ کر لیا۔ چونکہ شہر میں جنگی صورتحال تھی لہٰذا لوگ اپنے گھر اور مویشی پیچھے ہی چھوڑ آئے تھے۔ پھر جب جنگ بندی نافذ ہوئی اور بھارتی فوج نے اپنے قدم پیچھے کر دیے اس کے بعد جب لوگ یہاں لوٹے تو دیکھا کہ ان کے مکان تباہ تھے اور ان کے مویشی چوری کر لیے گئے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں ایک بار پھر اپنی زندگی از سر نو شروع کرنے کی جدوجہد کرنی تھی۔
عمر کوٹ کی آبادی میں مذہبی ساخت اب کافی حد تک بدل چکی ہے اور یہاں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔ جمن بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں عام طور پر دونوں مذاہب کے لوگوں کے درمیان امن قائم ہے،لیکن یہ تعلقات ایک نازک ڈور سے بھی بندھے ہوئے ہیں اور ایک چھوٹاسا واقعہ بھی تشدد کی جانب لے جاسکتا ہے۔انہوں نے اس افسوس کا بھی اظہار کیا کہ جنگوں سے پہلے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے سرحد کے اس پار جانا کافی آسان تھا۔ بس سرحد پر تعینات گارڈز کو چھوٹی سی ٹپ دینی پڑتی تھی۔ مگر اب ایسا کرنا گولی کھانے کا خطرہ مول لینے کے بغیر ممکن نہیں۔
یہ بھی بڑی ہی دلچسپ بات ہے کہ جمن کا تخلص در بدر ہے۔ جس طرح انہیں ماضی میں ایک سے دوسری جگہ خود کو منتقل کرنا پڑا تھا اس کی عکاسی کے لیے اس سے بہتر اور بھلا کیا ہوگا۔اس تاریخ کی اداسی اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب فقیر کی آمد ہوئی اور انہوں نے حب الوطنی، امن اور فانی دنیا پر اپنے گیتوں سے سر بکھیر دیے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر