... loading ...
21ویں صدی کا 17واں سال گزر رہا ہے، دنیا نے ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈال دی ہے، جدید ٹیکنالوجی نے تصوراتی طلسم تک کو سچ کر دکھایا ہے، اِس جدید دور میں ہماری جہتیں کیا ہیں اِس کا اندازہ اخباروں کی سرخیاں اور ٹی وی چینلوں کی لال پٹیاں خوب بتاتی ہیں۔
آبادی کے ساتھ پسماندگی بھی بڑھتی جا رہی ہے، کراچی سے صرف چند کلومیٹر دور (کینجھر اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان) اِسی طرح کے کچھ ایسے پسماندہ علاقے موجود ہیں جہاں زندگی نے شاید 21ویں صدی میں قدم ہی نہیں رکھا بلکہ وہاں لوگ اب بھی 19ویں صدی میں ہی سانس لے رہے ہیں۔ وہاں آج بھی لوگ کچی جھگیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں کی عورت کو آج بھی پانی کے دو مٹکوں کے لیے چلچلاتی دھوپ میں تین سے پانچ کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے، اور دن میں ایک بار نہیں بلکہ کم از کم تین بار اْسے پانی بھرنے کے لیے جانا پڑتا ہے تاکہ وہ اور اْس کے اہلِ خانہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔
یہاں اب بھی پانی بھرنے کی یہ ذمے داری روایتی اور ثقافتی طور پر عورت پر عائد ہے اور 8 سال کی بچی سے لے کر 50 سالہ عورت تک یہ ذمے داری صرف ’صنفِ نازک’ ادا کرتی ہے۔ ستم دیکھیے کہ معاشرے نے عورتوں کو صنف نازک کا نام دیا اور ایسے کٹھن کام بھی ‘نازک’ انسانی وجود سے لیتا ہے۔ اب چاہے کسی خاتون یا بچی کی ریڑھ کی ہڈی میں خم آجائے، مہرے جگہ سے بے جگہ ہوجائیں یا کسی حاملہ عورت کا بچہ ضائع ہوجائے یہ کام تو بس اْسے ہی کرنا ہوتا ہے۔ مرد روایتی اور ثقافتی طور پر اِس ذمے داری سے آزاد ہیں۔ عورت کی زندگی کے اِس منظر کو دیکھ کر حبیب جالب یاد آجاتے ہیں جنہوں نے شاید ایسے ہی حالات دیکھ کر کہا ہوگا کہ
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
وہ نیا سورج تو جانے کب نکلے لیکن عورت کی زندگی کا یہ منظرنامہ پاکستان کے تقریباً ہر گاؤں اور خصوصاً صوبہ سندھ کے ہر گاؤں میں یکساں نظر آئے گا، سوائے چند ایسے علاقوں کے جہاں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی سعی سے حالات کو بدلنے کی تھوڑی بہت کوشش کی ہے۔ ہم بھی کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے اِن 34 گاؤں کی بات کررہے ہیں جہاں کام کرنے والی ایک تنظیم انڈس ارتھ ٹرسٹ اور کوکا کولا فاؤنڈیشن نے کچھ تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔
اِن تنظیموں نے کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے 34 گاؤں میں پانی کا پائیدار اور فطری طریقوں پر انتظام بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس آبی انتظام نے گھریلو اور زرعی سطح پر لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ تحفظ ماحول یا تحفظ فطرت کے لیے جو بھی قدم اْٹھاتے ہیں اْس کا بہتر اثر انسانی زندگیوں پر ہی پڑتا ہے۔
وہ 16ستمبر 2017 کا ایک گرم دن تھا اور سفر تھا کوہستان کا جہاں گرمی مزاج پوچھ رہی تھی۔ ہم ملنے جا رہے تھے کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے ایک گاؤں حاجی شفیع محمد کی خواتین سے۔ہمیں بتایا گیا کہ روایتی طور پر کوہستان کی لڑکیاں پڑھی لکھی نہیں ہیں اور اگر دیکھا جائے تو اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ لڑکیوں کو پڑھانا نہیں چاہتے بلکہ اْن سے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ “پھر پانی کون لائے گا۔” اِس گاؤں میں 8 یا 9 سال کی عمر سے لڑکیاں پانی لانا شروع کر دیتی ہیں۔ بچی کی کم عمری کا جب احساس دلایا تو ساتھ جانے والی اْس کی ماں نے کہا کہ یہ کم از کم اپنی ضرورت کا پانی تو بھر لائے گی۔پانی بھرنے کی ذمے داری عورتوں کی ہے اور اِس علاقے کی 92 فیصد عورتیں اِس کام کو انجام دیتی ہیں جبکہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 8 فیصد ہے اور وہ بھی پیدل یا مٹکے اْٹھا کر نہیں لاتے بلکہ گدھا گاڑی پر لاد کر پانی لے آتے ہیں لیکن یہ مثالیں خال خال ہی ہیں۔ عورت ہی ہے جو ازل سے یہ بوجھ اٹھارہی ہے۔
یہاں کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگا جو دھیرے دھیرے اِس علاقے کی خواتین کی زندگی بہتر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جب سماجی تنظیم نے پانی عورت کے لیے ‘واٹر فار وومین’ نامی اپنے پروجیکٹ کے تحت اِن 34 گاؤں میں پانی کا انتظام کیا ہے تو اْنہیں لوگوں کا یہ اعتراض بھی سننا پڑا کہ کیا پانی صرف عورتوں کی ضرورت ہے؟ مردوں کو پانی نہیں چاہیے؟ لیکن اْن کا کہنا تھا کہ جب پانی مہیا کرنا عورتوں ہی کی ذمے داری ہے تو پھر یہ پروجیکٹ بھی عورتوں ہی کے لیے ہے۔کہتے ہیں کہ پانی زندگی کی علامت بھی ہے اور ضمانت بھی، آب ہے تو حیات ہے، جہاں آب نہیں ہوتا وہاں سے حیات بھی رخصت ہوجاتی ہے۔ حیات کے سارے تانے بانے پانی کے کنارے ہی بنے جاتے ہیں۔ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہاں ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو پانی نہ ہونے کی وجہ سے نقل نکانی کرچکے تھے لیکن یہاں پانی آنے کے بعد وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔
آئین پاکستان کے تحت ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اْسے پانی میسر ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال خاصی خراب ہے۔ گاؤں دیہات کی تو بات ہی کیا، کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی پینے کے لیے سنکھیا آلود پانی میسر ہے۔
سماجی تنظیم نے اِن 34 گاؤں میں کام کرنے سے قبل جنوری 2017 میں ٹھٹھہ یونین کونسل کوہستان میں ایک سروے کیا تھا۔ سروے میں لوگوں نے سب سے بڑا مسئلہ پانی کی عدم موجودگی کو بتایا۔ تحقیق کے مطابق دیہات میں 92 فیصد خواتین اپنے گھروں کے لیے پانی لاتی ہیں، وہ دن میں تین مرتبہ لگ بھگ تین سے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے دو مٹکے یا کین لے کر آتی ہیں جن میں بمشکل 15 سے 20 لیٹر پانی بھرا جاسکتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں کا درجہ ِ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔
پانی لانے کی اِس ذمے داری سے حاملہ خواتین کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے، اْنہیں بھی یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزن اْٹھا کر لانے سے انہیں کئی امراض لاحق ہوجاتے ہیں مثلاً، پٹھوں میں درد، سر کے بال گرنے لگتے ہیں، وزن میں کمی، مدافعتی نظام میں کمزوری، ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف اور مہروں کے سرک جانے کی تکالیف عام ہیں۔ خواتین پانی لانے جاتی ہیں تو بچے گھر پر چھوڑ جاتی ہیں، ایسے میں اکثر حادثات بھی پیش آتے ہیں، جیسے بچوں کو کوئی کیڑا وغیرہ کاٹ جاتا ہے یا پھر بچوں کو چوٹیں لگ جاتی ہیں۔
سروے کے مطابق تقریباً 15 برس سے کم عمر 71 فیصد بچیاں پانی لانے میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرد پانی لانے میں خواتین کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ مردوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم پانی لانے لے جانے میں مصروف ہوگئے تو پھر کام دھندے پر کون جائے گا؟ اِس لیے دیہات میں مرد پانی لانے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ اگرچہ یہ بات سچ نظر نہیں آتی کیونکہ بیشتر مرد بے روزگار ہوتے ہیں اور وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ ہماری بات کی تصدیق اِردگرد کے ہوٹلوں میں موجود مردوں کی تعداد کو دیکھ کر ہورہی تھی۔
اِن دیہات میں پانی کی آمد کا واحد ذریعہ بارش ہے۔ اِسی پانی سے ہی یہاں کے لیے کچھ بہتری ہوسکتی تھی۔ اِسی خیال کے تحت مارچ 2017 میں کوکا کولا فاؤنڈیشن آگے آئی اور اْس نے ٹھٹھہ کی یونین کونسل کوہستان میں پانی کی منظم انداز سے فراہمی کے لیے تقریباً 19 ملین روپے (ایک کروڑ 90 لاکھ روپے) کا فنڈ مختص کیا۔ اِس منصوبے سے تقریباً 34 دیہات کے 15 ہزار افراد پر مشتمل 2200 گھرانے مستفید ہوں گے۔
اِس منصوبے کے تحت سب سے پہلے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر ریزروائر (ذخیرہ گاہ یا بڑے تالاب) کی تیاری کا آغاز ہوا۔ اِس حوالے سے قدرتی گزرگاہوں کو مدِنظر رکھا گیا یعنی جن راستوں سے پانی کا بہاؤ ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے پہلے سے موجود 18 ریزروائر (بڑے تالاب) جو خشک ہوچکے تھے، اْنہیں گہرا کیا گیا، جبکہ 10 نئے ریزروائرز بھی تیار کیے گئے۔ جب مون سون کا موسم آیا اور بھرپور بارشیں ہوئیں تو کیرتھر کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا پانی اْن 28 ریزروائرز میں جمع ہوگیا۔ اْن ذخیرہ گاہوں کو تقریباً 30 فٹ تک گہرا کیا گیا ہے اور اْن کے قریب کئی مقامات پر واٹر پمپ لگائے گئے ہیں تاکہ صاف پانی حاصل کیا جاسکے۔ اِس منصوبے کی تکمیل سے کوہستان یونین کونسل میں پورا سال پانی دستیاب رہے گا۔
اِس کے علاوہ کیرتھر کی پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مزید اقدام کے طور پر چھوٹے عارضی ڈیم (چیک ڈیم) کی تعمیر پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ لوگ پْراْمید ہیں کہ اِس سے کھیتی باڑی میں بہتری آئے گی اور تقریباً ایک ہزار ایکڑ اراضی زیرِ کاشت آجائے گی۔ اِس ضمن میں چار مقامات کا تعین کرلیا گیا ہے جہاں چیک ڈیم بنائے جائیں گے۔
اِسی طرح 20 مقامات پر کنویں بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ اِس پروجیکٹ کے تحت مختلف مقامات پر ریزروائر کے قریبی مقامات پر ہینڈ پمپ بھی لگائے جائیں گے جن سے نہ صرف خواتین کے وقت کی بچت ہوگی بلکہ وہ دیگر کاموں پر زیادہ توجہ بھی دے سکیں گی۔اِس علاقے میں کوئی اسکول نہیں، پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں۔ کوہستان میں حکومت نے آر او پلانٹ لگانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے لیکن 8 سال گزر جانے کے باوجود پینے کے صاف پانی کا پلانٹ تاحال فعال نہیں ہوسکا ہے۔یہاں کی عورت روایتی اور ثقافتی طور پر سلائی کڑھائی نہیں کرتی نہ ہی اْنہیں بیچتی ہیں بلکہ وہ صرف رلیاں اور بہت خوبصورت گوٹا اور شیشے لگے چمکیلے تکیے تیار کرتی ہے۔ اِن تکیوں پر تقریباً 5 ہزار روپے کی لاگت آتی ہے، یہ تکیے وہ بیٹی کو جہیز میں دیتی ہے۔روایتی طور پر ایسے 40 سے 45 تکیے جہیز میں دیے جاتے ہیں جبکہ 10 سے 15 رلیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جب اْن سے کہا گیا کہ وہ یہ اشیاء شہر میں بیچ کر پیسے بھی کماسکتی ہیں تو اْن کے چہروں پر حیرانی تھی۔ لیکن حیرانی کو فوراً افسوس کے اظہار میں تبدیل کرتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ یہ کام تو صرف مرد کرسکتے ہیں اور اْن کے مردوں کو اِس قسم کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ یہاں کا رواج بھی نہیں ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ یہاں حکومت کہیں نظر نہیں آتی، اِسی لیے شاید اِس خلا کو سماجی تنظیمیں ہی پْر کررہی ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ کراچی کی ایک مخیر شخصیت نے منفرد قسم کے واٹر وہیلز تیار کرکے بھیجے ہیں جن سے علاقے کی خواتین کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اب اْنہیں پانی کا برتن سر پر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ اِسے ہینڈل سے پکڑ کر پانی کھینچ کر لاسکیں گی۔ ایسے ہر واٹر وہیل میں 40 لیٹر تک پانی بھرا جاسکتا ہے۔
یہ علاقے زیادہ تر بنجر ہیں اور دور دور تک کوئی سایہ دار درخت بھی نظر نہیں آتا، لیکن اب اْمید ہے کہ یہ لوگ پانی آنے کے بعد پھل دار درخت بھی لگا سکیں گے۔ اِن علاقوں میں مویشیوں کی تعداد بھی کم ہے کیونکہ نہ پانی میسر تھا اور نہ جانوروں کے لیے چارا، کیونکہ صرف ایک گدھا ہی 200 کا چارا کھا جاتا ہے اور وہ بھی قریبی شہر جنگ شاہی سے لانا پڑتا ہے۔
اب چیک ڈیم بننے کے بعد پانی بھی میسر ہوگا اور اِس کے ساتھ سماجی تنظیم کی یہ بھی کوشش ہے کہ اعلیٰ قسم کا چارا اگایا جائے جو سال بھر کام آئے۔ لوگ تو یہاں تک پْرامید ہیں کہ چیک ڈیم بننے کے بعد وہ گندم بھی اْگا سکیں گے یوں وہ اپنی غذائی ضروریات میں بھی خود کفیل ہوجائیں گے۔
شبینہ فراز
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی ہے اور اگر کوئی مداخلت ...
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر ہمیں حق نہ دیا گیا تو حکومت کو گرائیں گے اور پھر اس بار اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر ...
اندرون سندھ کی کالی بھیڑوں کا کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے اناسی پولیس اہلکاروں کا شکارپور سے کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ شہریوں نے ردعمل دیا کہ ان اہلکاروں کا کراچی تبادلہ کرنے کے بجائے نوکری سے برطرف کیا جائے۔ انھوں نے شہر میں جرائم میں اض...
چیف جسٹس کراچی آئے تو ماضی میں کھو گئے اور انہیں شہر قائد کے لذیذ کھانوں اور کچوریوں کی یاد آ گئی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کراچی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئے اور انہیں اس شہر کے لذیذ کھ...
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وزیراعلی کی کرسی اللہ تعالی نے مجھے دی ہے اور مجھے آگ کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچنا پڑا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس کی پاسنگ آٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی۔پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ خوشی ہوئی پو...
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ احتجاج کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، واضح کریں کہ انھیں حالیہ انتخابات پر اعت...
وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب نے معاشی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز دے دی۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے گفتگو کی اس دوران کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا کہ آپ نے اسٹاک مارکیٹ کو ریکارڈ سطح پر پہنچایا ...
تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑا چلنے کا دعوی کر دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بھائی نے دھوکا دیکر نواز شریف سے وزارت عظمی چھین لی ۔ شہباز شریف کسی کی گود میں بیٹھ کر کسی اور کی فرمائش پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان...
غزہ میں صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کے باعث امریکا کی کولمبیا یونیوسٹی میں سات روزسے کلاسز معطل ہے ۔سی ایس پی ، ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔فلسطین کے حامی طلبہ کو دوران احتجاج گرفتار کرنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی ...
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...
سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...