وجود

... loading ...

وجود
وجود

عورتیں گھروں میں بیٹھیں

اتوار 01 اکتوبر 2017 عورتیں گھروں میں بیٹھیں

ہم نے گزشتہ کالم میں لکھاتھاکہ انسان اپنے عہد کا اسیر ہوتا ہے وہ سوچتابھی ایک جبرکے تابع ہوکرہی ہے ۔آج کاانسان جس عہدمیں سانس لے رہاہے اس سے آزادہوکرسوچنااس کے لیے مشکل بلکہ ناممکن کے قریب ترہوگیاہے ۔کیاکراچی میں کوئی انسان یہ تصورکرسکتاہے کہ اس کی صبح بغیر صابن کے ہو؟اگرنہیں توکیوں ؟کیاآدم علیہ السلام اپنے ساتھ LUXلائے تھے جوآج کاانسان صفائی کے لیے صابن کامحتاج بن کررہ گیاہے ؟اورکیاصابن صرف خریدنے کی چیزہے یاصابن گھرمیں بھی تیارکیاجاسکتاہے ۔؟اسی کراچی میں 1970ء تک عورتیں گھروں میں اپناصابن خودتیارکرتی تھیں مگراس صابن سے جھاگ نہیں بنتاتھااوروہ صابن مفت میں تیارہوجاتاتھا۔اسی شہرمیں ملاواحدی کامنجن دانت صاف کرنے کے لیے بکتا تھا۔ ملاواحدی دہلی کے ادیب صوفی اوربزرگ تھے حضرت والاخواجہ حسن نظامی کے شاگردتھے ۔جولوگ ملاواحدی کامنجن نہیں خریدسکتے تھے وہ اپنامنجن خودگھروں میں بنایا کرتے تھے۔
ہمارے استادصاحب بتاتے ہیں کہ ان کے نانا،6مہینے تک بکرے کی ہڈیاں ایک ٹین میں جمع کرتے پھراس کوجلاکرکوئلہ بنایاجاتااس کوئلے کوپیساجاتاپھراس میں پھٹکری ملائی جاتی پھرنانابچوں سے کہتے کہ اس کوخوب پیسوں اس میں مزیدچنداجزاء ملاکرمنجن تیار کرلیا جاتا۔ استاد صاحب بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے گھرایک مہمان لڑکاآیا۔ اس کے دانت انتہائی پیلے ہورہے تھے نانامرحوم نے اس کوڈانٹاکہ پہلے دانت صاف کرو اس نے گھرمیں تیارکردہ منجن 2مرتبہ دانتوں پر لگایا اور اس کے دانت چمکنے لگے۔ ظاہرہے کہ بکرے کی ہڈیاں دانت کیوں نہ چمکائیں گی ؟ان میں کیلشیم جوہوتاہے ۔مگراس منجن سے جھاگ نہیں بنتاتھا۔آج صفائی کامطلب ہوگیاہے ایسی چیزجس سے جھاگ بنے ،آج کاانسان سمجھتاہے کہ جھاگ بنانے والی چیزہی صفائی کرتی ہے ۔ کیونکہ ٹوٹھ پیسٹ سے جھاگ بنتاہے ،صابن سے جھاگ بنتاہے ، جب روزمرہ ضرورت کی بنیادی اشیاء بھی گھرمیں تیارنہیں ہونگی ۔تویہ بازارسے آئینگی ۔اوربازارسے یہ سب چیزیں مفت تونہیں آتیں ؟ان کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ہماری والدہ صاحب زخم پرلگانے کے لیے ایک ملھم بناتی ہیں جوپیازکومکھن میں جلاکربنائی جاتی ہے ۔مکھن میں پیازجلانے سے کالے رنگ کی ایک ملھم تیارہوجاتی ہے جوکئی میڈیکل ٹیوبزکے مقابلے جلدی زخم ٹھیک کردیتی ہے ۔ایسی کئی چیزیں ہمارے معاشرے کاحصہ تھیں ۔جواب رفتہ رفتہ ختم ہوچکی ہیں ۔اب گھرمیں بزرگ خواتین تو ہیں جنہیں ماضی کے گھریلوں ٹوٹکے بھی خوب آتے ہیں مگر وہ بے چاریاں کیاکریں ؟کیونکہ پوتیاں اوربہوتوگھرمیں ہوتی نہیں ہیں ۔پوتیاں اسکول جاتی ہیں وہاں سے آکرکوچنگ اورپھرشام میں تھکی ہاری پوتی دادی سے کیا ٹوٹکہ سیکھے گی ؟جب گھر میں پاپڑ،روٹی،سالن ،منجن سے لے کربڑی سے بڑی چیزیں بازارسے خریدکرلائی جائے گی توپھراس خریداری کے لیے جس دولت کی ضرورت پیش آئے گی اس کوکمانے کے لیے لازمی عورت گھرسے باہرنکلے گی ۔اورباہرنکل کرصرف وہ ان تمام اشیاء کی خریداری کے لیے روپوں کوجمع کرے گی جواگروہ بچپن سے کسی بزرگ عورت کے پاس بیٹھتی توگھرمیں تیارکرلیتی۔جن گھروں میں مائیکرواوون ہیں کیاان گھروں میں ڈبل روٹی اورکیک گھرمیں تیارکیاجاتاہے ؟نہیں ان گھروں میں صرف باسی سالن اس اوون میں گرم کیاجاتاہے ۔مگراوون لایااس لیے گیاتھاکہ اس میں ڈبل روٹی بنے گی ۔جب عورت سارادن دفترمیں رہے گی توڈبل روٹی کہاں سے بنائے گی۔
میرے ایک دوست کے گھرکادلچسپ واقعہ کچھ عرصہ قبل مجھے معلوم ہوا یہ 6بھائی ہیں ان کی تین بہنیں ہیں ۔اب 4 بھائیوں کی شادی ہوگئی اس طرح گھرمیں کل ملاکر8 خواتین ہوگئیں ۔ آہستہ آہستہ بہوؤں نے مہنگائی کا ذکر کرناشروع کیا اور ہر مرتبہ درزن کے حوالے سے شکایات بڑھنے لگیں کہ درزن کپڑے مہنگے سیتی ہے اورصحیح بھی نہیں سیتی ۔گھرکی بزرگ عورت نے فیصلہ کہ ایک بہوکوکپڑے سینا سیکھایاجائے اوراس تجویز کو سب نے پسندکیا۔شکرہے بہوؤں نے اس مسئلے کاحل یہ نہیں نکالاکہ ہم نوکری کرلیتی ہیں پھرپیسے ہونگے توکپڑے اچھی درزن سے سلوالیا کریں گے۔ آج کی صدی میں مارکیٹ ایک بدمعاشی سے اپنی مصنوعات آپ کے گھروں تک پہنچاتا ہے۔ ہرچیزمارکیٹ سے آتی اوراس مارکیٹ سے آنے والی چیزوں کے حصول کے لیے لوگ اپنی روایت اورتاریخ سے ناواقف ہوچکے ہیں ۔ 2016 میں امریکہ کے محکمہ FDA , Food and drug administrationنے ایسے صابن پر پابندی لگادی ہے جوجراثیم کش ہیں یعنی جن سے جراثیم مرتے ہیں ۔اس کی وجہ حال ہی میں سامنے آنے والی سائنسدانوں کی ریسرچ ہے جس میں بتایاگیاہے کہ انسان کے چہرے کواگرخردبین میں دیکھا جائے تواس کے چہرے پر کروڑوں چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں ۔ آج کل سائنسدانوں کے درمیان بحث یہ چل رہی ہے کہ ان کیڑوں کی خوراک کیاہے ۔کچھ کاخیال ہے کہ انسانی چہرے پرجوتیل ہے ۔یہ ان کیڑوں کی خوراک ہے۔ کچھ کاخیال ہے کہ جلدکے ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں جوٹکڑے گرتے ہیں وہ ان کیڑوں کی خوراک ہے ۔FDA کاکہناہے کہ جراثیم مارنے والے صابن ان کیڑوں کوبھی ماردیتے ہیں جوکہ انسانی جلدکے لیے بے حد ضروری ہوتے ہیں اس لیے 2016ء میں پابندی لگادی گئی مگرہمارے ہاں پاک پاک پاکستان صاف صاف پاکستان، ماں صرف فلاں صابن کادھلامانگے ۔وہ صابن جراثیم سے 24گھنٹے کی حفاظت دیتاہے ۔ جیسے اشتہارات والے صابن آج بھی ہماری صحت کے دشمن بنے بیٹھے ہیں ۔
اب اگرکوئی کہے کہ دیکھیں ناسائنس نے کتنی مددکی انسانوں کی، انہوں نے تحقیق کی ۔ اس عقل کے اندھے سے کوئی پوچھے کہ صابن بنایاکس بدمعاش نے تھا؟لوگوں کوکون ڈراتاہے کہ جراثیم بروقت ہر جگہ ہوتے ہیں ؟یہ پہلے بدمعاشی کرتے ہیں پھر سرمایہ دار اس کے نتیجے میں پیداہونے والے مسئلے کا حل دیتے ہیں اوربیوقوف لوگ اس کوسائنس اور سرمایہ داروں کی طرف سے فخریہ پیشکش سمجھتے ہیں ۔سائنس کاسب سے بڑانقص یہ ہے کہ سائنس تجربے کے بعدبتاتی ہے کہ مرغی نے انڈا دینا ہے یابچہ سائنسی تجربے کانتیجہ کیانکلے گا؟یہ نتیجہ آنے سے پہلے کوئی نہیں جانتا ۔ سائنس خودمانتی ہے کہ ایک تجربہ ایک ہزارباربھی کیاجائے توبھی اس کے امکانات موجودہیں کہ ہزاربارکے بعدبھی نتیجہ مختلف آجائے ۔
مثال کے طورپر برگیڈیئر T.M شہید کا پیرا شوٹ نہ کھلنے کاواقعہ یادکریں اس آدمی نے کئی سو فری فال جمپ کررکھے تھے ۔فری فال جمپ سے مراد ایسے جمپ ہیں جن میں پیرا شوٹر زمین سے ایک خاص فاصلے کے بعد اپناپیراشوٹ کھولتاہے۔ جنگ میں ایسے جمپ سے دشمن کودرست اندازہ نہیں ہوتا کہ فوجی کہاں اتررہاہے ۔ برگیڈیئر T.M سینکڑوں لوگوں کے سامنے سائنسی ایجاد کے فیل ہونے کی مثال بن گئے ۔ سرمایہ داروں کی بدمعاشی اتنی سادہ نہیں ہوتی کہ ہرکسی کی سمجھ میں آجائے۔سوال یہ ہے کہ جس نسل کوآپ جراثیم سے ڈراکر جوان کرتے رہے ہیں خدا نہ کرے خدانہ کرے اللہ پاک سب کے بزرگوں کوصحت تندرستی دے (آمین )لیکن اگر کسی کے والدین ضعیف ہوگئے اوروہ اپنی پاکی نہ پاکی کاخیال نہ رکھ سکیں تویہ جراثیم سے ڈری نسل کیسے ان کے پیشاب کوصاف کرے گی ؟کیسے ان کے خراب کپڑے دھوئے گی؟ کیسے باباجی کے تھوک والا ڈبہ صاف کرے گی ؟آدم علیہ السلام کے عہدسے لے کر 19 وی صدی تک لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کی خدمت کرتے آئے ہیں کوئی جراثیم سے نہیں مرا۔جراثیم صرف ایک ڈرامہ ہے ایک خوف ہے ۔اس خوف کوسامنے رکھ کرصرف سرمایہ داروں نے اپنی مصنوعات بیچنی ہوتی ہے ۔
الغرض ہم وہ تمام چیزیں جوبازارسے پیسے دے کرگھرلائی جاتی ہیں ہم ان کے سدباب کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ اگر خاتون خانہ گھر میں رہے تویہ چیزیں گھرمیں تیارہوسکتی ہیں ۔ اور ان کی لاگت بھی بازارکے مقابلے میں انتہائی کم ہوگی ۔دوڑتی بھاگتی اندھی لولی لنگڑی زندگی جینے سے بہترہے کچھ دیررک کرجائزہ لیں اورسادہ زندگی کی طرف لوٹ جائیں جسے رسول ﷺ اور صحابہ کرام علیہ الرضوان اللہ اجمعین کی زندگیا تھیں ۔ مگراس کے لیے ضروری ہے کہ عورتیں اپنے مردوں کی کمائی پرراضی ہوجائیں معیار زندگی کو بلند کرنے کی دوڑ سے نکل آئیں اور عورتیں گھروں میں صبروشکرکے ساتھ بیٹھیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر