وجود

... loading ...

وجود
وجود

سی پیک ،پاک چین اور روس اتحاد کی بنیاد ثابت ہوسکتاہے

جمعه 06 اکتوبر 2017 سی پیک ،پاک چین اور روس اتحاد کی بنیاد ثابت ہوسکتاہے

پاک روس دوستی کبھی بھی ایسی نہیں رہی جسے مثالی کہاجاسکے ،ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں روس اورپاکستان کے درمیان دوریاں ختم کرنے کی کوششیں کیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے لیکن ان کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ جمانے والے آمر جنرل ضیاالحق نے افغان تنازعہ میں امریکا کاساتھ دے کر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے کی گئی کوششوں پر پانی پھیر دیااور پاک روس تعلقات ایک دفعہ پھر جمود بلکہ تلخیوں کاشکارہوگئے،لیکن گزشتہ دو برسوںکے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات پر طاری یہ جمود ٹوٹنا اور برف پگھلنا شروع ہوئی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ دونوں ملکوں کو رہنمائوں کو باہمی دوستی اور تعاون کی اہمیت کاکسی حد تک اندازہ ہوگیاہے،خاص طورپر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعددونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور تعاون کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے ۔
چین کے رہنما ژی جی پنگ کی جانب سے سی پیک منصوبے کوون روڈ ون بیلٹ کے تصور میں بدل دیئے جانے سے چینی رہنما کی فراست کااندازہ ہوتاہے اور اس سے ظاہرہوتاہے کہ کوئی دور اندیش رہنما کس طرح اپنے خیالات کو عملی شکل دے سکتاہے۔شنگھائی تعاون کونسل کی رکنیت ملنے کے بعد پاکستان بڑی حد تک روس کے قریب آگیاتھا اور اس وقت سے علاقے میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے۔
جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں عام طورپر پایاجانے والا یہ خیال کہ یہ محض سڑکوں اورپلوں کے ایک ایسے جال کانام ہے تو مختلف ممالک کو آپس میں ملانے اور فاصلے کم کرنے کا ذریعہ ہے مکمل طورپر درست نہیں ہے کیونکہ سی پیک صرف شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس میں راستے میں آنے والے علاقوں میں مختلف صنعتوں اور پراجیکٹس کی تعمیر اور قیام شامل ہے جس کا اندازہ پاکستان میں بجلی کے مختلف منصوبوں کے سی پیک سے تعلق سے لگایاجاسکتاہے۔
سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جس نے پاکستان اور چین کے درمیان انفرااسٹرکچر ،انرجی اور زراعت کے مختلف پراجیکٹ میں باہمی تعاون کی بنیاد فراہم کی اور سی پیک کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں انفرااسٹرکچر کی بحالی کے ساتھ ایسے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ بعض منصوبے قبل از وقت ہی تکمیل کے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور عنقریب ان کا افتتاح یقینی نظر آنے لگاہے۔یہ خبریں بھی ملی ہیں کہ کوریڈور سے تیل کی ایک پائپ لائن بھی گزاری جائے گی جس کے ذریعہ یومیہ 10 لاکھ بیرل تیل چین کوپہنچایاجاسکے گا۔یہ چین کے لیے ایک بہت بڑی سہولت کی فراہمی کا ذریعہ ہوگا کیونکہ چین کو فی الوقت اپنی تیل کی ضروریات کی تکمیل کے لیے مختلف ممالک سے کم وبیش 8 ملین یعنی 80 لاکھ بیرل تیل درآمد کرنا پڑتاہے اور اس کی نقل وحمل کے لیے چین کو بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی ہے اس طرح کی پائپ لائن کی تنصیب سے چین کو تیل کی فراہمی آسان بھی ہوجائے گی اس میں کسی طرح کی رکاوٹ اور خلل پڑنے کا امکان بھی نہیں ہوگا دوران ترسیل تیل کے ضائع ہونے کا خدشہ نہیں رہے گا اور تیل کی ترسیل پر اخراجات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائیںگے۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا سی پیک منصوبے سے پاکستان کو بھی کچھ فائدہ ہوگا اور اس منصوبے کے تکمیل کے بعد اس پر آنے والی لاگت کی رقم چین کو کس طرح ادا کی جائے گی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سی پیک سے خود چین کو اتنے زیادہ فوائد حاصل ہوں گے کہ چین اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو خوشی خوشی برداشت کرنے کو تیار ہوجائے گابلکہ تیار ہے۔تاہم پاکستان کو سی پیک کے تحت مکمل کئے جانے والے متعدد منصوبوں کی لاگت بہر طورسود کے ساتھ ادا کرنا ہوگی اور اس پر پاکستان کی حکومت او ر عوام کا پریشان ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اس بات کابار بار دعویٰ کیاجارہاہے کہ سی پیک کا یہ منصوبہ اس پورے خطے کی تاریخ بدلنے کی بنیاد بنے گا اوریہ حقیقی معنوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔اس بات کا بھی خدشہ ظاہرکیاجارہاہے کہ بھارت سی پیک کے خلاف محاذ آرائی شروع کردے گا اور منصوبے کے مطابق اس کومکمل کرنے کی راہ روکنے کی کوشش کرے گا یہ خدشہ اپنی جگہ بے بنیاد نہیں ہے بلکہ پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ محاذ آرائی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر اس کی فوجوں کی چھیڑ چھاڑ اسی منصوبے کی کڑیاں ہیں دراصل بھارت پاکستان کو اشتعال دلاکر جنگ چھیڑنے پر مجبور کرنا چاہتاہے تاکہ پاکستان کی پوری توجہ سرحدوں کی حفاظت کی جانب مبذول ہوجائے اور سی پیک پر کام رک کر رہ جائے،لیکن بھارت اس ضمن میں کوئی بڑی فوجی کارروائی کرنے کامتحمل نہیں ہوسکتا،کیونکہ سی پیک منصوبہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تعاون کامنصوبہ نہی ہے بلکہ اس میں اس خطے کے متعدد دیگر ممالک بھی شامل ہیں اس لیے بھارت کو اس منصوبے کے خلاف محاذ آرائی سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ اس میں مزید کتنے ملک شامل ہیں ،اس منصوبے میں شامل ممالک فوجی اعتبار سے کتنے مضبوط ہیں اور ان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی نوعیت کیاہے۔ظاہر ہے کہ بھارت اتنے سارے ممالک کے خلاف کھڑانہیں ہوسکتا اور اس پراجیکٹ کے خلاف محاذ آرائی کے ذریعے اتنے ملکوں کی مخالفت مول لینے کی غلطی کبھی نہیں کرے گا۔
جہاںتک روس کاتعلق ہے تو یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ روس کے ساتھ بھارت کے قریبی دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں روس سرفہرست ہے۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا روس بھارت کے ساتھ قریبی مراسم اور گہرے تجارتی فوجی تعلقات کے باوجود بھارت کے دو بنیادی دشمن چین اور پاکستان کے ساتھ سی پیک معاہدے میں شامل ہوجائے گا، تو اس حوالے سے اب تک جو حقائق سامنے آرہے ہیں اور جو اشارے ملے ہیں ان سے ظاہرہوتاہے کہ روس بھارت کو پیچھے چھوڑ کر اس معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ہے خاص طوپرامریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد اب امریکا کے مقابلے ایک بڑا اتحاد قائم کرنا وقت کی ضرورت بن چکاہے اور روس اور چین کااپنا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اس خطے کے دیگر ممالک کو ملاکر ایک ایسا اتحاد قائم کریں جو امریکا کی جانب سے روس اور چین کو گھیرنے کی پالیسی کو ناکام بناسکے۔یہ وہ صورت حال ہے جس نے اس خطے میں پاکستان کی اہمیت دوچند کردی ہے،اور اس بات کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں کہ روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کوعروج پر لے جانے کی کوشش کرے گا اور سی پیک معاہدہ پاک، روس اورچین کے درمیان ایک نئے اور مضبو ط اتحاد کی صورت میں سامنے آئے گا،اس امکان کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے پاکستان کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان کے بعد جب پاکستان نے امریکا کے سامنے جھکنے اور منانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے نظر انداز کرکے روس اور دیگرممالک کے دورے کے پروگرام کااعلان کیاتو امریکا کے غبارے سے ہوانکل گئی اور اہم امریکی رہنما وضاحتوں کے لیے پاکستان کی طرف دوڑ پڑے لیکن پاکستان کی جانب سے ان سے ملنے سے انکار نے امریکی منصوبہ سازوں کے صفوں میں کھلبلی مچادی۔
روس کے پاکستان کے قریب آنے اور سی پیک کاحصہ بننے کے امکانات کااندازہ اس طرح بھی لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ دنوں روس کی انٹیلی جنس کے سربراہ الیگزنڈر بگدانوف نے گوادر کی بندرگاہ کا دورہ کرنے کے بعد چین اورپاکستان کے ساتھ سی پیک کاحصہ بننے کی خواہش کابرملا اظہار کیاتھا،روس کی جانب سے سی پیک کاحصہ بننے کی اس خواہش کاایک بڑا سبب گوادر کی بندرگاہ بھی ہے ۔سی پیک کاحصہ بن جانے کے بعد روس کی اس بندرگاہ تک رسائی آسان ہوجائے گی جبکہ روس طویل عرصے سے گرم پانی تک رسائی کی راہیں تلاش کرتارہاہے۔اس سے اس خطے میں روس کے جنگی اخراجات میں کمی آئے گی اور مختلف ممالک تک اس کی رسائی زیادہ آسان ہوجائے گی۔
روس کے رہنما پاک بھارت تعلقات کی نوعیت اور دونوں ملکوں کے درمیان میں تلخیوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی بھارتی رہنمائوں کوبوکھلا کررکھ دے گی لیکن بھارتی رہنمائوں کی جانب سے امریکا کی جانب حالیہ جھکائو اس خطے کے حوالے سے امریکی پالیسی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسیوں اور سی پیک سے ہونے والے متوقع فوائد،افغانستان سے وابستہ روس اور پاکستان کے مفادات، افغانستان میں داعش کی مبینہ موجودگی کے امکانات جو افغانستان سے بآسانی روس کی پڑوسی اور زیر نگیں ریاستوں تک پہنچ سکتے ہیں، روس کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر مجبور کرسکتے ہیں اور اس طرح اس خطے میں پاک ،چین روس اتحاد کے وجود میں آنے کے امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتا۔
اب دیکھنایہ ہے کہ ہمارے منصوبہ ساز ان امکانات سے فائدہ اٹھانے اور بار بار پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے امریکا سے جان چھڑانے کے لیے کیاحکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اور پاک چین روس اتحاد اس خطے اور خاص طورپر پاکستان کی قومی سلامتی وخودمختاری کے دفاع اور پاکستان کے عوام کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہوسکتاہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر