وجود

... loading ...

وجود
وجود

پرویز مشرف نے دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا،پیپلزپارٹی مشتعل

بدھ 04 اکتوبر 2017 پرویز مشرف نے دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا،پیپلزپارٹی مشتعل

پاکستان کی سیاست میں اگر کوئی چالاک اور تیز سیاستدان یا حکمران رہا ہے تو وہ پرویز مشرف ہے کیونکہ پرویز مشرف بیک وقت سچ اور جھوٹ بولنے کے عادی ہیں۔ آرمی چیف بننے سے قبل وہ جس طرح حکومت کو پیغامات دیتے تھے اس سے حکومت کے لیے یہ سوچنا آسان ہوگیا کہ وہ حکومت کے تابعدار بن کر رہیں گے۔ لیکن آرمی چیف بنتے ہی ان کے تیور ہی بدل گئے ۔اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کرکے اقتدارپرقبضہ ہی کرلیا۔اپنے دور اقتدار میں انھوں نے ایسی باتیں کیں جس پراعتبارکرناہرکسی کے لئے ممکن نہ تھا۔ لیکن ایک طبقہ ایساضرورتھاجوان کی تمام باتوں پریقین رکھتا تھا۔اسی دوران جب امریکا میں نائن الیون کاواقعہ پیش آیاتومشرف نے کمال چالاکی سے ایسا رویہ اختیارکیاکہ پاکستانی عوام اورامریکی قیادت دونوں کوخوش رکھا۔ ان کی تضادبیانی کایہ عالم ہوتاتھا کہ امریکیوں کے روبروایک موقف اختیار کرتے توپاکستانی عوام کے سامنے دوسراموقف رکھ کرانھیں مطمئن رکھنے کی کوشش کرتے ۔ اس طرح پرویزمشرف نے اپنے دورحکومت کے آٹھ سال پورے کرلیے۔
پرویزمشرف پاکستان پرمزید حکومت کرنے کاارادہ رکھتے تھے ۔لیکن سابق وزیراعظم بے نظیربھٹوکی وطن واپسی نے ان کے لیے صورت حال خاصی مشکل بنادی ۔ لیاقت باغ میں بم دھماکے کے دوران بے نظیر بھٹوکی شہادت نے توان کے اقتدارکے خاتمے پرمہرتصدیق ہی ثبت کردی اورانھیں عام انتخابات کرانا پڑے۔یہاں پرویز مشرف سے تھوڑی سی چوک ہوگئی اوربوکھلاہٹ میں شاید ساری چالاکی بھول گئے ۔ اگروہ چاہتے توبے نظیر بھٹوکے قتل کی تحقیقات اورامن وامان کی مخدوش صورت حال کوجوازبناکرعام انتخابات کوایک سال کے لیے ملتوی کرسکتے تھے ۔اس طرح 2008کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی اور پرویز مشرف کے اقتدارکاسورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔اقتدارسے علیحدگی کے بعد سابق صدربیرون ملک چلے گئے۔ اور تھوڑے عرصے بعد جب وہ وطن واپس لوٹے توان کے لیے دنیا ہی بدل چکی تھی۔ وہ سیاستدان جوان کے دوراقتدارمیں ان کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے انھوں نے اپنی آنکھیں پھیرلیں ۔ عوام کی جانب سے بھی ان کاخاطرخواہ خیرمقدم نہیں کیاگیا جس سے مایوس ہوکروہ ایک بارپھربیرون ملک سدھارگئے۔
گزشتہ دنوں جب راولپنڈی کی خصوصی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کافیصلہ سنایا اوران کے قتل کے الزام میں گرفتار پانچ ملزمان کو رہا کردیا ۔ دو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو سترہ سترہ سال قید کی سزادی اور پرویز مشرف کے لیے الگ کیس چلانے کا حکم دیا تو اس کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت بھی ہوش میں آئی اورخصوصی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ میں چیلنج کرتے ہوئے پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کی استدعاکرڈالی اورپی پی پی کی قیادت نے براہ راست پرویز مشرف کوبے نظیربھٹوکے قتل کاذمے دارقراردینا شروع کردیا۔ یہ صورت حال پرویز مشرف کے لیے پریشان کن تھی ۔ ان کا طیش میں آنا فطری عمل تھا۔ اس لیے انھوں نے بھی جوابی وار کرتے ہوئے میڈیاپرایک ویڈیوجاری کردی اوراس میں کہا کہ مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قتل میں آصف علی زرداری ملوث ہیں دونوں کیسوں میں آصف زرداری کو گرفتار کیا جائے بھٹو خاندان کو تباہ برباد کرنے والا آصف زرداری ہی ہے۔
پرویز مشرف کا ویڈیو بیان کیا آیا کہ بھونچال آگیا۔پیپلزپارٹی کی قیادت میں کھلبلی مچ گئی۔ مرکزی قیادت سے لے کر تحصیل سطح تک اہم رہنماء احتجاج پر اُتر آئے ہیں اور ہر جگہ پرویز مشرف کے خلاف احتجاج کیا جارہاہے۔ اورمطالبہ کیاجارہاہے کہ پرویزمشرف کوبے نظیرکے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔ اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ پیپلزپارٹی کے اکثر رہنما چاہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ حقیقی معنوں میں درست سمت میں کیا جائے او راس تحقیقات میں اگر کوئی اپنا بھی ملوث ثابت ہوتو اس کو سزا دی جائے۔ بینظیر بھٹو قتل کیس پاکستانی عوام کے لیے ایک ایسی پہیلی ہے جو دس 10سال گزرجانے کے باوجود بھی بوجھی نہیں جاررہی۔اس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں ۔پی پی پی کی قیادت خود بھی اس کیس کے حل میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے ۔حتیٰ کہ جو خط بینظیر بھٹو نے 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آنے سے قبل پرویز مشرف کو لکھا تھا وہ بھی تحقیقاتی اداروں کو نہیں دیا جارہا یوں پاکستان پیپلزپارٹی پانچ سال تک وفاق میں حکومت کرتی رہی اور9سال سے سندھ میں حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ لیکن اس نے نہ تو سانحہ 18اکتوبر کی تحقیقات مکمل کی اور نہ ہی سانحہ لیاقت باغ کا کوئی نتیجہ نکلا۔ وفاقی حکومت بھی اس کیس میں اس لیے بھی دلچسپی نہیں لے رہی کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ پی پی خود اس کیس سے دور ہے تو پھر نواز لیگ کیوں خود کو مصیبت میں پھنسائے؟مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو قتل کیس پر بات کرکے پی پی پی کی دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے جس پر وہ چیخ اُٹھے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر