وجود

... loading ...

وجود
وجود

صحافت پر پابندیاں یا اخلاقی بندھن

اتوار 08 اکتوبر 2017 صحافت پر پابندیاں یا اخلاقی بندھن

صحافت جمہوری حکومت کی عمارت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے اس کا گلہ گھوٹنے کی تیاریاں پہلے ہی موجودہ حکمرانوں کی طرف سے جاری تھیں کہ ٹی وی اینکر ارشد شریف کے خلاف اندراج مقدمہ کی باز گشت سنائی دینے لگی پیمرا جو کہ ٹی وی ،سوشل میڈیا و دیگر صحافتی اداروں کا کرتا دھرتا مانا جاتا ہے اور انہیں کنٹرول کرنے کی اتھارٹی اسے حکومت نے دے رکھی ہے کہ وہ ہر نشر ہونے والی خبر اور پروگرام پر گہری نظر رکھے اور جسے چاہے نوٹس دیکر سزا تجویز کرے یہاں تک کہ اسے پورے چینل کو مکمل بند کرنے کی اتھارٹی بھی دی گئی ہے اگر یہ کام اس کے ذمہ لگا ہوا ہے تو پھر اسے ایکشن لینے دینا ہی درست اقدام ہوگا ۔
صدر پی ایف یو جے افضل بٹ ،نیشنل پریس کلب ،آئی آر یو جے ودیگر تنظیموں کا یہ کہنا کہ وفاقی حکمران ایسے ہتھکنڈوں سے باز رہیں اور اگر پیمرا کے فیصلے سے قبل ہی انتقامی کاروائی کی گئی تو احتجاج ہو گااور شک شبہ کی بنیاد پر ہی اندراج مقدمہ پوری صحافی برادری پر مقدمہ تصور ہو گا۔سپریم کورٹ بار کے جنرل سیکریٹری آفتاب باجوہ نے جو ڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکیوں کی مذمت کی ہے اور ایسے افراد کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ باجوہ نے مزید بتایا کہ میں نے کئی پروگرام ارشد شریف کے ساتھ کیے ہیں وہ شریف النفس انسان ہیں ۔سابق آمروں ایوب خان یحییٰ ضیا ء الحق حتیٰ کہ بھٹو صاحب کے ادوار میں بھی ایسے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے مگر بالآخر اپنے ہی بنائے ہوئے صحافت کو زنجیر پہنانے والے قوانین کو کبھی نرم اور کبھی مکمل ختم کرڈالا۔
صحافیوں کو کوڑے مارنے اور پابند سلاسل کرنے کے کبھی بھی نتائج درست نہیں نکلے ایوبی دور میں پی پی اوکے ذریعے ’امروز ،پاکستان ٹائمز ،انجام، مشرق ودیگراخبارات کو سرکاری قبضہ میں لیا گیاجناب بھٹو نے الطاف قریشی کا زندگی ،حسین نقی کا پنجاب پنچ اور پی پی ایل کا لیل ونہار بند رکھا ۔ضیاء الحق نے جسارت، حریت انگریزی اخبار سن پر پابندیاں لگائیں جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین کو تو ساڑھے تین سال جیل میں رکھاجس پر پرو فیسر عبدالغفور نے کہا تھاکہ جسارت اور بھٹو اکٹھے ہی نکلیں گے ۔
77کے انتخابات کے بعد دھاندلی زدہ الیکشن پر پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کردی جو کہ بعد ازاں تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہو گئی۔ حکومت اس قدر کمزور ہوگئی کہ خود ہی کچھ شہروں کو افواج کے حوالے کرنا پڑا جس پر ڈکٹیٹر ضیا ء الحق نے قبضہ کرکے مارشل لاء نافذ کردیا اور پھر یہ سیاہ رات 11سال تک طویل رہی۔
اس وقت چونکہ ملک چاروں اطراف سے دشمنان سے گھرا ہوا ہے اور ہم چو مکھی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ افواج پاکستان ہی ہماری ملکی و نظریاتی سرحدوں کی واحد محافظ ہیں اور ان کی قربانیاں تو نظر انداز کی ہی نہیں جاسکتیں اس لیے کسی اختلافی بحث و مباحثہ سے گریز کرتے ہوئے ملکی دفاع کو اولین حیثیت دینا اشد ضروری ہے اور آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کرتے ہوئے انتشار و افتراق کی بجائے اتحاد واتفاق اور پیار و محبت کی صورتحال پیدا کریں تاکہ قومی اتحاد متاثر نہ ہو کہ اب تک بھی شر پسند عناصرجب چاہتے ہیں جھل مگسی کی درگاہ فتح پور شریف میں مزیدخود کش دھماکے کرکے دو درجن سے زائد افراد کو شہید کر ڈالتے ہیں ۔
رہا آزادیٔ ٔصحافت کا مسئلہ تو صحافیوں کی تمام تنظیموں کے بشمول ملک بھر سے صحیح سوچ رکھنے والے افراد و ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیٹی بنا کر ایسا ضابطہ اخلاق ضرور مرتب کیا جانا چاہیے جس کی رو سے صرف ریٹ بڑھانے کے لیے بڑ ھک بازی ،مخالفین کو رگیدنے ،غیر اخلاقی و غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے کی مکمل پابندی ہو اور ایسا بڑے چھوٹے سبھی سیاستدانوں کے لیے بھی ضروری ہو اور اینکر پرسن بھی اس کا مکمل دھیان رکھیں اور پروگرام شروع کرنے سے قبل سبھی شرکاء سے بھی خصو صی گزارش کریں کہ پروگرام میں کسی طرف سے بھی ایسی کو ئی بات نہ ہو جس سے دوسرے کا دل دکھتا ہو ،جس سے لسانی ،مذہبی ،علاقائی یا فرقہ وارانہ اختلاف کے ابھرنے کا امکان ہو ۔
حکمرانوں نے پہلے ہی ممبران اسمبلی کے فارم نامزدگی میں الفاظ کی تبدیلی کرکے منہ کی کھائی ہے اور اپنا ہی روسیاہ کیا ہے اس طرح اندیشہ ہے کہ حکومت نے اگرپائپ لائن میں موجود صحافت پر پابندیاں لگانے والے اپنے مسودوں کو تلف نہ کرڈالاتو اندیشہ ہے کہ اپنے چوتھے ستون صحافت کے خلا ف کاروائی کرکے کہیں حکمران مزید قعرِ مذلت میں نہ جا گریں اور اپنا تھوکا ہی پھر خود ہی نہ چاٹنا پڑجائے۔
آئی ایس پی آر کے جناب آصف غفور نے حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کردیا ہے کہ اداروں میں تصادم نہیں بلکہ کو آرڈینیشن بہتر ہونی چاہیے اور کوئی ادارہ ملک سے بڑھ کر نہیں ہے ، ملک کی حفاظت ہی سپریم ہے اس لیے موجودہ حکمران بھی عقل کے ناخن لیں اور صحافت ، نیب ودیگر ادارو ں میں مزیدقوانین کی تبدیلیوں سے باز رہیں اور 1973کے آئین کا حلیہ نہ بگاڑیں کہ یہ آئین سبھی کے اتفاق سے منظور ہوا تھا جس میں صوبوں کو مکمل خود مختاری بھی دی گئی تھی آج اگر یہ آئین نہ ہو تو ہم کسی صورت متحد و متفق نہیں رہ سکتے اور ملک کو لاحق خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں ۔
امریکی سامراج اسرائیل اور ہندو مہاشے ہمارے اندر انتشار پیدا کرنے اور قتل و غارت گری کروانے کے لیے “را “و دیگرتنظیموں اور ہمارے اندر ہی موجود ملک دشمن افراد کے ذریعے ہمیں مختلف تفرقوں میں الجھا کر ریزہ ریزہ کرڈالنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں آپس میں یک رنگ ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا وگرنہ ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔اگر جمہوری اقدارکے حامل سیاستدانوں نے ہوش کا دامن مکمل ہاتھ سے چھوڑ ڈالاتو آپس کے کشتم کشتہ کے نتائج پھر کسی غیر قوت کے قابض ہوجانے کی صورت میں ہی نکلیں گے اور ہم خود ہی گم کردہ جمہوری فاختہ کوچراغ لیکر ڈھونڈھا کریں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر