وجود

... loading ...

وجود
وجود

چلو دنیا گھومیں

بدھ 27 ستمبر 2017 چلو دنیا گھومیں

شہروں کی زندگی بہت مصروف ہوتی ہے۔ کام پر آنا جانا خود ایک کام بن گیاہے اس پر کام کی تھکان گھر کے مسئلے مسائل آپ کو آہستہ آہستہ تھکاتے جاتے ہیں۔ ہفتے میں ایک چھٹی ضرور ملتی ہے لیکن وہ دن بھی رکے ہوئے کاموں اور گھریلوں ذمہ داریوں میں گزر جاتا ہے۔ ایسے میں کم از کم سال میں ایک بار کام سے چھٹیاں لینا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ آپ کسی پرسکون مقام پر یہ چھٹیاں گزار کر سارے سال کی تھکن اتار سکیں۔ یاد کریں آپ نے آخری مرتبہ خود سے کب یہ کہا ہے کہ مجھے چھٹی کی ضرورت ہے۔شاید آپ نے محسوس کِیا ہو کہ آپ کو روزمرہ کی پریشانیوں سے کہیں فرار حاصل کرنا چاہئے۔کیا آپ کبھی کہیں دور چھٹیاں منانے گئے ہیں؟اس پر غور کریں۔
تقریباً ایک صدی پہلے لوگوں کی اکثریت باقاعدہ چھٹیاں نہیں لیا کرتی تھی۔ بیشتر لوگ اپنی جائے پیدائش کے اردگرد ہی ساری زندگی گزار دیتے تھے۔ اپنے شہر گاؤں یا قصبے سے باہر نکلنا کسی کسی کو نصیب ہوتا تھا ۔تفریح یا تعلیم کے لیے دْوردراز سفر کرنے کا شرف صرف مہم جووئوں یا دولتمندوں کا استحقاق سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں سفر کرنا ایک رومانی تجربہ ہوا کرتا تھا سفر نامے ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے دنیا کا احوال انہی سفر ناموں کے ذریعے معلوم ہوتا تھا، کون سا پڑھا لکھا شخص ہوگا جس نے مارکوپولو یا البیرونی کا نام نہیں سنا ہوگا۔
دور جدید میں ٹیکنالوجی میں حیران کن ترقی نے کمپیوٹر اور دیگر ایسی مشینیں ایجاد کردیں جنہوں نے انسانوں کے زیادہ ترکاموں کو سنبھال لیا ہے۔کام کے مواقع بھی بڑھے ہیں اور لوگوں کی اصمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں لوگوں کو فرصت بھی میسر آئی اور پیسے کی فراوانی نے ملک اور بیرون ملک سیاحت کی راہ بھی ہموار کر دی اس سے پوری دنیا میں سیاحت کی صنعت تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔ سیاحت کی اس طلب میں بڑھتے اضافے کی وجہ سے کاروبار،تفریح گاہوں اور سیاحوں کے لیے خدمات فراہم کرنے والے ممالک کی تعدادبھی بڑھتی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی سیروسیاحت زرِمبادلہ حاصل کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ کئی ممالک نے سیاحت کو فروغ دے کر اپنی جی ڈی پی میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ان ممالک میں سیروسیاحت سے حاصل ہونے والا ریونیو بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے، اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنے اور دیگر قومی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔جس سے ان ممالک میں عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان کو اللہ تعالی نے منفرد جغرافیے اور سارے موسم اور انواع و اقسام کی آب و ہوا دی ہے۔ پاکستان میں مختلف لوگ،مختلف زبانیں اور علاقائی ثقافتیں ہیں جو اس ملک کو بہت سے رنگوں کا گلدستہ بنا دیتی ہیں۔ پاکستان میں ریگستان ،سرسبز و شاداب میدان،پہاڑ، جنگلات،سرد اور گرم علاقے، ساحلی و صحرائی خطے، خوبصورت جھیلیں،جزائر اور دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے یہاں سیاحت کی صنعت برے حالات کا شکار رہی ہے۔ سیاحت کی صنعت کے فروغ کے لیے اچھی مارکیٹنگ بہت ضروری ہے لیکن ہم آج تک مارکیٹنگ کی ایسی حکمتِ عملی ترتیب دینے میں ناکام رہے ہیں جس سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنے خوبصورت ملک کی جانب راغب کر سکیں۔
نیپال پاکستان سے کہیں چھوٹا ملک ہے جہاں سیاحوں کے لیے واحد کشش پہاڑی سلسلے اور ٹریکنگ کا ایڈونچر ہیں۔ اِس کے باوجود مارکیٹنگ کی بہترین حکمتِ عملی کی بدولت وہاں سیاحت کی صنعت تقریباً آٹھ فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کررہی ہے۔ اگر ہماری حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے موثر اقدامات کرے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی ملٹی بلین ڈالرز کی عالمی سیاحتی انڈسٹری سے اپنا حصہ لینے کے قابل ہو جائے گا۔۔آخر میں سب سے اہم بات وہ یہ کہ سیاحت کے فروغ کے لیے سیاحوں کو تحفظ کا اطمینان دلانا بنیادی مسئلہ ہے۔ جب تک اس امر کا اطمینان نہ ہو سیاحوں کو متوجہ نہیں کیا جاسکتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر