وجود

... loading ...

وجود
وجود

نوجوان طلباء اور دہشت گرد تنظیمیں

جمعه 22 ستمبر 2017 نوجوان طلباء اور دہشت گرد تنظیمیں

وزارت داخلہ کا یہ کہنا کہ طلبا ء دہشت گرد تنظیموں کی طرف راغب ہو رہے ہیں اس انتہائی تشویش ناک معاملے پر اب فکر لاحق ہوئی ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کیسے اور کیونکر ملک دشمن دہشت گردانہ تنظیموں میں شمولیت کرکے قتل و غارت گری میں ملوث ہورہے ہیں۔ ایوبی آمریت کے دور میں بھی جب ا سٹوڈنٹس یونینز کے تحت منظم ہوکر طلباء آمرانہ دور کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو اسے بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے اور اسے اقتداری تخت سے دستبردار ہونا پڑا۔
ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو جب شملہ معاہدہ پر اختلاف کے بموجب وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے تو وہ بذریعہ ٹرین کراچی کے لیے روانہ ہوئے لاہور کے اسٹیشن پر اس کا آنسوئوں بھرا رومال 10000روپے میںفروخت ہوا۔راقم اور کئی دوسرے طلباء رہنما اس کے ساتھ کراچی گئے وہاں بھٹو صاحب کا ڈائو میڈیکل کالج میں پہلا خطاب ہواجہاں اسٹوڈنٹ لیڈر ڈاکٹر رشید حسن خان نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور راقم و معراج محمد خان اس کے ساتھ بیٹھے۔
گزارشات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ طلباء اور ان کے رہنما ہی تھے جنہوں نے ایوب کواقتدار سے الگ اور مسٹر بھٹو کو عوام میں پاپولر بناڈالاجس نے پی پی پی بنا کر 1970کے انتخابات میں مغربی پاکستان کے تمام پرانے جغادری سیاستدانوں ،جاگیرداروں اور وڈیروں کو چاروں شانے چت کرڈالا۔یہ طلباء یونینیں اور ان کے رہنما تھے جو مشرقی پاکستان میں البدر و الشمس کے نام پر پاکستانی آن کے نام پر قربان ہو گئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حادثے کے بعد مسٹر بھٹو مقتدر ہو گئے تو یہ طلباء یونینیں ہی تھیں جنہوں نے اس کے بھی آمرانہ اقدامات کے خلاف مسلسل اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔طلباء یو نینز کے انتخابات جیتنے والے طلباء رہنما ہی تھے جنہوں نے مختلف سیاسی پارٹیوں میں نیا خون شامل کیا۔جاوید ہاشمی‘ شیخ رشید‘ فرید پراچہ‘ حافظ سلمان بٹ‘ احمد بلال محبوب ،شفیع نقی جامعی،لیاقت بلوچ ،چوہدری نثار علی خان ،حفیظ خان ،حسین حقانی ،شیخ مجیب الرحمٰن سب پاکستان میں طلباء یونینز کے انتخابات جیت کر ہی سیاست میں آئے مگر کبھی کبھار “ماس میں غدودیں “بھی نکل آتی ہیں اس لیے موخر الذکردونوں پاکستانی دھرتی کے غدار نکلے۔
مسٹر بھٹو کے خلاف پہلا احتجاج نشتر کالج ملتان سے اٹھا اور پورے پاکستان کے میڈیکل کالج 11روز تک بند رہے 1977کے عام انتخابات میں بیشتر طلباء رہنما پاکستان قومی اتحاد کے امیدوار بنے اور اس دور میں چلنے والی نظام مصطفی تحریک کا ہراول دستہ ثابت ہوئے۔جنرل ضیاء الحق نے شب خون مارا اور قابض ہوگیا9جماعتو ں پر مشتمل قومی اتحاد کے بیشتر رہنما ضیا ء الحق کی کابینہ میں وزیر بن گئے مگر ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بھی طلباء سرگرم رہے وہ طلباء کی طاقت سے خائف تھے اس لیے طلباء انجمنوں کے انتخابات پر پابندی لگادی ۔
ائیر مارشل اصغر خان نے قومی اتحاد کو خیر باد کہہ کر اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک ڈالی۔ضیا ء الحق فضائی حادثہ میں اگلی دنیا کو سدھار گئے جس کے بعد انتخابات کے نتیجے میں کبھی محترمہ بینظیر بھٹو اور کبھی نواز شریف مقتدر رہے مگر کسی نے طلباء انجمنوں کی بحالی کے لیے عملاً کوشش نہ کی کہ سبھی طلباء قوت سے خائف تھے آصف علی زرداری کی صدارت کے دور میں یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے طلبا ء انجمنوں کے انتخابات کروانے کا اعلان کرڈالا مگر عملا ً یہ معاملہ ٹھپ ہی رہا۔یہی وہ وجہ ہے جس کے بموجب نوجوان طلباء مختلف محیر العقول نام نہاد معرکے کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کا آسان نوالہ بننے لگے پھر طلباء کا یہ تاثر کہ پڑھ لکھ کر سرکاری ملازمت تو ملے گی نہیں کہ آج تک کسی حکمران نے میرٹ پر کام ہی نہیں کیااس لیے طلباء تاریک مستقبل کی وجہ سے انہیں جہاں مفاد محسوس ہوا اسی طرف چل نکلے دہشت گرد تنظیمیں انہیں بھاری مفادات اور ڈھیروں رقوم کا وعدہ ہی نہیں کرتیں بلکہ عملاً دیتی ہیںجو آج کے دور کی کسی بھی ملازمت کے معاوضہ سے بیسیوں درجہ زیادہ ہو تا ہے اس لیے ایسے غریب طلباء جن کے ماں باپ ان کے تعلیمی اخراجات تک بھی پورے نہیں کرسکتے وہ ایسی نام نہاد تنظیموں کے بہکاوے میں آکر ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے پاس چمک کے علاوہ بھی کئی حربے ہیںجو ایک دفعہ ان میں پھنس جاتا ہے وہ ان کے شکنجے سے باہر نکل ہی نہیں سکتا کہ ان دہشت گرد تنظیموں نے اس نوجوان سے کئی وارداتیں کروالی ہوتی ہیںاور پھر اگر کوئی ان سے علیحدہ ہو بھی جائے تو انہیں اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے ۔
آمدم برسر مطلب یہ کہ نوجوان نسل بالخصوص طلباء کو دہشت گرد تنظیموں کا تر نوالہ بننے سے روکنے کے لیے صرف اور صرف طلباء انجمنو ں کے انتخابات ہی ہیں۔اس میں حکومتوں کو ڈر ہے کہ طلباء منتخب یونینیں ان کے خلاف تحریک چلائیں گی اب ایسی باتوں کو بھول جانا ہو گاکہ اس دور میںایسا ناممکن ہے طلباء انجمنوں کے انتخابات سے قطعاً تعلیم کا حرج نہیں ہوتا اور نہ ہی طلباء آپس میں سر پٹھول کرتے ہیںجو ایسا کرے گا وہ منتخب ہو ہی نہیں سکتاطلباء کی تعلیم کے ساتھ ا ن کو انتخابات کے ذریعے تقاریر و دیگر بیسیوں مصروفیات میں رہنا ہوتا ہے اور اس طرح مختلف تنظیموں اور انجمنوں کے تحت طلباء کا مصروف رہنا ہی فائدہ مند ہے تاکہ ان کا آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کے لیے بذریعہ انتخابات مقابلہ ہوتا رہے اور طلباء بہتر سے بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے اس سے کالجوں یونیورسٹیوں کا ماحول بھی پرسکون ہو جائے گا اور کوئی ایسی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث نہ ہوسکے گا کہ اس کے لیے دیگر مصروفیات ہوں گی جس میں وہ تعلیم کے علاوہ فارغ اوقات میں بھی مصروف رہے گا۔
قوم حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل کرتی ہے کہ طلباء یونینوں کے انتخابات کو فوری بحال کرے کہ اس میں ملک و قوم کا ہی فائدہ ہوگا۔طلباء محب وطن ہوتے ہیں اور ملک کے مفاد اور اپنی تعلیم کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے اور سیاسی جماعتوں کو بھی پڑھے لکھے اور جرآت مند رہنما میسر آتے رہیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر