وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغان مسئلے کا حل اور افغان طالبان !

پیر 18 ستمبر 2017 افغان مسئلے کا حل اور افغان طالبان !

پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے حالیہ دورہ ٔ چین کے دوران جو مثبت بات سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ چین نے امریکا کا نام لیے بغیر یہ بات واضح کردی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اس انداز میں اعتراف نہیں کیا گیا جس کا وہ مستحق تھا۔ پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران میں چینی وزیر خارجہ وانگ لی کے اس بیان کو پاکستان کے بارے میں حالیہ امریکی رویے کا جواب کہا جاسکتا ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں امریکا کا نام نہیںلیا لیکن بعض ممالک کا کہہ کر انہوں نے واضح اشارہ کردیا ہے کہ امریکا کسی طور بھی پاکستان کی قربانیوں کے اعتراف سے اجتناب کررہا ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ چین اپنے دیرینہ دوست پاکستان کے ساتھ پورے عزم کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر صورت ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ـ درحقیقت یہ اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے افغانستان کے حوالے سے حالیہ بیان کے خلاف پاکستان کے ساتھ اتحاد کا مظہر ہے۔
دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تلخیوںکے خاتمے کے لیے چین نے پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان بھی کیا ہے جو بیجنگ میں اس سال کے آخرمیں منعقد کیا جائے گا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں پاکستان کے مخصوص میڈیا پر برکس کانفرنس کے دوران پاکستان مخالف بیان کا خاصا چرچا رہا ہے جس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں چین مکمل طور پر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ باقاعدہ مذاکرات میں ہے اور یہ مسئلہ صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کسی صورت بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کرے گا۔ اس بات سے امریکی اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن چونکہ افغانستان میں امریکا کے مطلب کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آرہا تو اس کی ذمہ داری وہ پاکستان پر ڈال کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکا کی جانب سے افغانستان میں بھارت کے سیکورٹی سے متعلق تحفظات کو جائز قرار دینے یا دوسرے الفاظ میں افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دینے کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان نے دوست ممالک کے ساتھ مسلسل مشاورت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اس لیے کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ چین اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ انہی معاملات کے تناظر میں چین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے میں اہم اور تعمیری کردار ادا کرے گا ۔ اس حوالے یہ معاملات مزید اہم ہوجاتے ہیں کیونکہ اس سال کے آخر میں چین نے پاک افغان اور چین کے وزرائیخارجہ کے اجلاس میں افغان طالبان کے وفد کو بھی شریک کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔یقینا چین کی جانب سے یہ سوچ ایک مثبت اور تعمیری قدم ہے۔ لیکن امریکا اور بھارت اسی معاملے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیںجبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ افغان طالبان کے بغیر افغانستان کے حل کے کوششیں کرنا بے کار ہیں کیونکہ افغان طالبان اس وقت افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے ایک اہم فریق ہیں۔ جس وقت امریکا اور اس کے صہیونی دجالی مغربی اتحادی افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے، اس وقت ان حملوں کا سامنا افغان طالبان نے کیا تھا۔ ان کی ہی حکومت کو شمالی اتحاد کی مدد سے گرایا گیا تھااور پھر افغان طالبان نے ہی ڈیڑھ عشرے پر پھیلی ہوئی عسکری مزاحمت میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ناک افغان زمین پر رگڑوائی۔ اس لیے اگر عالمی سطح پر کوئی فریق یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل افغان طالبان کے بغیر نکل سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے کیونکہ افغان طالبان ہی افغانستان کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ اشرف غنی جیسی کٹھ پتلی حکومت کا کابل سے باہر کیا رسوخ ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔امریکیوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر معصوم لوگوں کے قتل عام کے سوا اب تک کچھ نہیںکرسکے ہیں۔امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ اور کرتا دھرتا کبھی افغانستان میں مستقل قیام کے خواب دیکھتے ہیں تو کبھی بھارت کو ’’بڑا کردار‘‘ دے کر اپنی جنگ میں اب بھارت کو بھی جھونکنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو بڑا کردار امریکا بھارت کو افغانستان میں سونپنا چاہتا ہے گزشتہ سولہ برسوں کے دوران میں وہ یہ کردار خود کیوں نہ ادا کرسکا ؟ جو تیر امریکا اور اس کے مغربی اتحادی نہ مار سکے وہ کیا بھارت مار لے گا؟ امریکا نے بحالی کے نام پر افغانستان میں بھارت کا جو کھیل کھیلنا چاہاہے، اس میں مزید تباہی کے سوا کچھ نہیں اور یہی بات امریکی چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا کا کردار کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور دیگر تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ قرار دیا ہے تو دوسری جانب اب برکس کانفرنس کے موقع پر لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ اپنی کارروائیاں کرتے وقت پاکستان کی سرزمین استعمال کرتی ہیں۔جس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس امریکی موقف کی کھل کر مزاحمت کرنے کے بجائے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’ہم نے اپنے دوستوں کو آگاہ کردیا ہے کہ ہم نے اپنا گھر بہت حد تک ٹھیک کرلیا ہے‘اور عالمی برادری کے اعتماد کے لیے ہم اس پر مزید کام کررہے ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر