وجود

... loading ...

وجود
وجود

مردم شماری کے نتائج پر شوروغوغا اور اصل مسئلہ!!!

اتوار 10 ستمبر 2017 مردم شماری کے نتائج پر شوروغوغا اور اصل مسئلہ!!!

19 سال کے طویل انتظار کے بعد ہونے والی مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے اگرچہ سندھ اور بلوچستان سمیت تقریباً تمام صوبوں نے اس پر اعتراضات شروع کردیے ہیں لیکن ان اعتراضات میں اصل مسئلہ دب کر رہ گیا ہے یا کسی نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، تازہ ترین مردم شماری کی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف ہوا ہے کہ آبادی کا ٹائم بم جو ایک عرصے سے ٹِک ٹِک کر رہا تھا، اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔جہاں دوسرے ترقی پزیر ممالک میں آبادی میں شرحِ اضافہ میں بے پناہ کمی ہوئی ہے، وہاں مردم شماری کی تازہ ترین رپوٹ کے مطابق پاکستان میں کہانی ہی مختلف ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے بھارت، چین، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے ۔ملک میں موجود غربت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ہر سال 2.4 فیصد کی زبردست شرحِ اضافہ کے ساتھ ملک کی آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ 1998 میں آخری مردم شماری سے 57 فیصد زیادہ ہے اور پہلے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔19 سال کے طویل انتظار کے بعد ہونے والی مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے اگرچہ سندھ اور بلوچستان سمیت تقریباً تمام صوبوں نے اس پر اعتراضات شروع کردیے ہیں لیکن ان اعتراضات میں اصل مسئلہ دب کر رہ گیا ہے یا کسی نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، تازہ ترین مردم شماری کی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف ہوا ہے کہ آبادی کا ٹائم بم جو ایک عرصے سے ٹِک ٹِک کر رہا تھا، اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔جہاں دوسرے ترقی پزیر ممالک میں آبادی میں شرحِ اضافہ میں بے پناہ کمی ہوئی ہے، وہاں مردم شماری کی تازہ ترین رپوٹ کے مطابق پاکستان میں کہانی ہی مختلف ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے بھارت، چین، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے ۔ملک میں موجود غربت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ہر سال 2.4 فیصد کی زبردست شرحِ اضافہ کے ساتھ ملک کی آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ 1998 میں آخری مردم شماری سے 57 فیصد زیادہ ہے اور پہلے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔مردم شماری کے تازہ ترین اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں محکمہ بہبودِآبادی کے تحت جو پالیسی اپنائی گئی ہے اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلے۔ محکمہ بہبود آبادی کے معروف نعرے ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ تازہ ترین مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی اب 20 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خاص طورپر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہروں کی آبادی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ فیصل آباد‘ ملتان‘ راولپنڈی کی آبادی بھی بے حد بڑھ گئی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ لاہور ، فیصل آباد‘ ملتان اورراولپنڈی کی آبادی میں آج سے 15 برس پہلے کے مقابلے میں دُگنی ہوجانے لیکن کراچی کی آبادی میں اس شرح سے اضافہ نہ دکھائے جانے کی وجہ ہی سے مردم شماری کے اعدادوشمار پر شکوک وشبہات کے اظہار کا موقع ملا ہے اور اب ہر ایک اس کو سیاسی فائدے کے لیے کیش کرانے کی کوشش کررہاہے، جو لوگ 15برس قبل کے اسلام آباد سے واقف ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ ملک کا دارالحکومت کس قدر پرسکون اور سرسبز تھا ۔آج اسلام آباد میں آبادی کا دباؤواضح طورپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔انسانی ترقی کے مایوس کن اشاریوں کے ساتھ آبادی میں یہ اضافہ ملک کے اقتصادی و معاشی تحفظ اور سلامتی کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ایک اندازے کے مطابق ملک کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور روزگار کے مواقع اتنے نہیں ہیں ۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ آبادی میں اس اضافے کی صورت میں ایک تباہی جنم لے رہی ہے۔اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ آبادی میں اس بے پناہ اضافے اور اس کے نتائج پراس وقت اقتدار کی جنگ میں مصروف سیاسی قیادت نے کم ہی توجہ دی ہے۔صورتحال کی سنگینی کے باوجود اس مسئلے پر قومی سطح پر بحث نہیں ہوئی۔ حیرانی کی بات نہیں کہ آئین کے مطابق ہر10سال میں ہونے والی مردم شماری اب دو دہائیوں بعد ہوئی ہے، وہ بھی اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کے بعد۔ اس میں بھی حیرت نہیں کہ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج پر بھی تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ردم شماری کے طریقہ کار پر، اور شہری و دیہی کی تفریق کیسے کی گئی کے حوالے سے چند سوالات موجود ہیں ۔ سندھ اس وقت پیچ و تاب کی کیفیت میں ہے کیوں کہ اس کے مطابق حکومت نے جان بوجھ کر اس کی آبادی کو کم دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ حقیقت، کہ کراچی کی آبادی اندازوں سے کم ہے، سندھ کے اعتراضات کو کچھ حد تک تقویت دیتی ہے۔ اس دوران لاہور کی آبادی میں اسی دوران دُگنا اضافہ ہوا ہے، جس پر کچھ حلقوں کو حیرت ہے۔واقعتا ان تضادات کی کچھ تاویلات پیش کی جا سکتی ہیں ۔ جہاں کراچی کا ایک حصہ دیہی علاقہ قرار پایا ہے، وہیں حکومتِ پنجاب نے اپنے دار الخلافہ میں دیہی اور شہری علاقوں کی تفریق ختم کر دی۔ اس کے بعد خیبر پختونخواہ کی آبادی میں غیر متوقع اضافے پر بھی سوالات موجود ہیں ۔سی طرح بلوچستان کی آبادی میں ملکی آبادی کے اوسط شرحِ اضافہ سے زیادہ اضافے پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ صوبے میں افغانوں کی آمد کی وجہ سے ہے، اور یہ کہ اس سے بلوچ اور پختون آبادیوں کے درمیان لسانی توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔مگر اس سب کے ممکن ہونے کے باوجود مردم شماری کی تمام تفصیلات اور اس کے مشاہدات فوراً سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سیاسی مسائل ہر مردم شماری کے بعد اٹھتے ہیں ۔سیاسی تنازعات اپنی جگہ، مگر اس پوری بحث میں جو چیز ہماری توجہ حاصل نہیں کر سکی ہے، وہ اس بڑھتی آبادی سے معاشرے کو لاحق چیلنجز، اور اس ٹائم بم کو کس طرح پھٹنے سے بچایا جائے۔ اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ ہم آبادی کی کتنی کم فکر کرتے ہیں ۔جہاں پوری دنیا میں شرحِ تولید اور آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے، وہاں پاکستان میں اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں شرحِ تولید خطے میں انتہائی زیادہ ہے۔ کیا کسی کو فکر ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور ایران جیسے دیگر مسلم ممالک نے اپنی آبادیوں پر کامیابی سے قابو پا لیا ہے۔اس کا ثبوت ان کے پاس انسانی ترقی کے بہتر اشاریوں کی صورت میں ہے۔ جب تک خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کی کوششیں نہیں کی جائیں گی، تب تک شرحِ آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور اگر یہی صورتحال رہی، تو 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہوجائے گا، اور انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس وقت پاکستان انسانی ترقی کے لحاظ سے 147 ویں درجے پر ہے، جبکہ اس کی 30 فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ شرحِ خواندگی اب تک صرف 58 فیصد ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے اصل خواندگی اتنی بھی نہیں ہے۔اس صورت حال میں اگر ہر سال آبادی میں ہزاروں بچوں کا اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان کے لیے 147 واں نمبر برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ایک اور تشویشناک بات شہری آبادی میں تیز ی سے اضافہ ہے جو کہ بڑے شہروں کے نازک انفراسٹرکچر پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ مردم شماری کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں اب شہری آبادیوں میں لامحدود اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی 21 کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں غالب تعداد نوجوانوں کی ہے جن کی عمریں 15سال سے30 سال کے درمیان ہیں ۔ نوجوان کسی بھی ملک کے لیے ایک اثاثہ ہوتے ہیں لیکن یہ اسی صورت میں اثاثہ ہوتے ہیں جب نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوں ۔ ناخواندہ‘ نیم خواندہ اور غیر ہنر مند نوجوان ملک اور معاشرے کے لیے اثاثہ نہیں بلکہ ایک عذاب بن جاتے ہیں ۔ پاکستان میں کتنی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی اور قطعی تعداد ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ کچھ سروے‘ دعوے کرتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 63 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ بعض سروے کہتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 64 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو معاشی اور سماجی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی ہماری حکومت کے پاس نہیں ہے اور کیا اتنے وسائل ہیں کہ وہ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنا کر انہیں ترقی کے انجن کی شکل دے سکیں ۔ بظاہر تو ایسا نظر نہیں آتا۔ ہمارے تعلیمی اور فنی اداروں سے جو نوجوان فارغ ہو کر نکلتے ہیں انہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں ۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے کوئی حکمت عملی موجود ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے منصوبہ ساز ہی دے سکتے ہیں ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی جامع حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ ہمارے کئی ادارے اور لیڈر تسلسل سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ2 کروڑ سے زیادہ پاکستانی بچے تو ایسے ہیں جو اسکول نہیں جا رہے۔ یہ بچے ہمیں گھروں ‘ کھیتوں ‘ ورکشاپوں پر کام کرتے یا بڑے شہروں میں صفائی کا کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ جو کروڑوں نوجوان ڈگری یافتہ ہیں وہ ہاتھ میں ڈگری اٹھائے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ انہیں کوئی روزگار نہیں مل رہا۔ اس صورتحال سے جہاں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔انتہاپسندی اور غربت میں شاید براہِ راست تعلق نہ ہو مگر کچھ تحقیقات کے مطابق ناخواندگی نوجوانوں کے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی جانب کھنچے جانے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ایک ان پڑھ اور بے روزگار آبادی ہر طرح کے عسکریت پسندوں کے لیے ریڈی میڈ رضاکار فراہم کرتی ہے۔ملک کو لاحق ان تمام مسائل کو اس وقت تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک آبادی کنٹرول میں نہیں لائی جاتی۔ ہوسکتا ہے کہ دیر ہو چکی ہو، مگر اب بھی اگر ریاست اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، تو حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں ۔آبادی کے اس بم نے ملک کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مگر کیا کوئی اس متوقع سانحہ سے باخبر ہے؟آبادی میں یہ شدید اضافہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی باعث ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی، جنگلات میں کمی، آلودگی، اور کچرا ٹھکانے لگانے کے مسائل درپیش ہیں ، اور ان کی وجہ درست طور پر بڑھتی ہوئی آبادی قرار دی جا سکتی ہے۔پاکستان ان ملکوں میں سے ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرات بھگت رہے ہیں ، چنانچہ اسے آبادی میں اضافے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت ماحول کو برقرار رکھنے کا ہمارا نظام اتنی بڑی آبادی کو اچھا معیارِ زندگی فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔اس دوران، ایک ایسا ملک جو پرتشدد انتہاپسندی کا شکار ہے، وہاں آبادی میں اس قدر اضافہ اور نوجوانوں کی تعداد کا زیادہ ہونا اقتصادی مواقع ختم کر رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر قابو پانا نہایت مشکل ہوتا چلاجائے گا۔مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اس کے سیاسی اثرات پر تو بعض سیاستدانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن اصل کام معیشت دانوں اور سماجی سائنسدانوں کا ہے کہ وہ پاکستان میں آبادی کے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی سامنے لائیں ۔


متعلقہ خبریں


کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی ہے اور اگر کوئی مداخلت ...

کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر ہمیں حق نہ دیا گیا تو حکومت کو گرائیں گے اور پھر اس بار اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر ...

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ وجود - جمعه 26 اپریل 2024

اندرون سندھ کی کالی بھیڑوں کا کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے اناسی پولیس اہلکاروں کا شکارپور سے کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ شہریوں نے ردعمل دیا کہ ان اہلکاروں کا کراچی تبادلہ کرنے کے بجائے نوکری سے برطرف کیا جائے۔ انھوں نے شہر میں جرائم میں اض...

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس کراچی آئے تو ماضی میں کھو گئے اور انہیں شہر قائد کے لذیذ کھانوں اور کچوریوں کی یاد آ گئی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کراچی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئے اور انہیں اس شہر کے لذیذ کھ...

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وزیراعلی کی کرسی اللہ تعالی نے مجھے دی ہے اور مجھے آگ کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچنا پڑا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس کی پاسنگ آٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی۔پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ خوشی ہوئی پو...

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم وجود - جمعه 26 اپریل 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ احتجاج کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، واضح کریں کہ انھیں حالیہ انتخابات پر اعت...

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب نے معاشی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز دے دی۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے گفتگو کی اس دوران کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا کہ آپ نے اسٹاک مارکیٹ کو ریکارڈ سطح پر پہنچایا ...

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑا چلنے کا دعوی کر دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بھائی نے دھوکا دیکر نواز شریف سے وزارت عظمی چھین لی ۔ شہباز شریف کسی کی گود میں بیٹھ کر کسی اور کی فرمائش پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان...

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

غزہ میں صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کے باعث امریکا کی کولمبیا یونیوسٹی میں سات روزسے کلاسز معطل ہے ۔سی ایس پی ، ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔فلسطین کے حامی طلبہ کو دوران احتجاج گرفتار کرنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی ...

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان وجود - بدھ 24 اپریل 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر وجود - بدھ 24 اپریل 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم وجود - بدھ 24 اپریل 2024

سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر