وجود

... loading ...

وجود

مردم شماری کے نتائج پر شوروغوغا اور اصل مسئلہ!!!

اتوار 10 ستمبر 2017 مردم شماری کے نتائج پر شوروغوغا اور اصل مسئلہ!!!

19 سال کے طویل انتظار کے بعد ہونے والی مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے اگرچہ سندھ اور بلوچستان سمیت تقریباً تمام صوبوں نے اس پر اعتراضات شروع کردیے ہیں لیکن ان اعتراضات میں اصل مسئلہ دب کر رہ گیا ہے یا کسی نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، تازہ ترین مردم شماری کی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف ہوا ہے کہ آبادی کا ٹائم بم جو ایک عرصے سے ٹِک ٹِک کر رہا تھا، اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔جہاں دوسرے ترقی پزیر ممالک میں آبادی میں شرحِ اضافہ میں بے پناہ کمی ہوئی ہے، وہاں مردم شماری کی تازہ ترین رپوٹ کے مطابق پاکستان میں کہانی ہی مختلف ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے بھارت، چین، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے ۔ملک میں موجود غربت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ہر سال 2.4 فیصد کی زبردست شرحِ اضافہ کے ساتھ ملک کی آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ 1998 میں آخری مردم شماری سے 57 فیصد زیادہ ہے اور پہلے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔19 سال کے طویل انتظار کے بعد ہونے والی مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے اگرچہ سندھ اور بلوچستان سمیت تقریباً تمام صوبوں نے اس پر اعتراضات شروع کردیے ہیں لیکن ان اعتراضات میں اصل مسئلہ دب کر رہ گیا ہے یا کسی نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، تازہ ترین مردم شماری کی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف ہوا ہے کہ آبادی کا ٹائم بم جو ایک عرصے سے ٹِک ٹِک کر رہا تھا، اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔جہاں دوسرے ترقی پزیر ممالک میں آبادی میں شرحِ اضافہ میں بے پناہ کمی ہوئی ہے، وہاں مردم شماری کی تازہ ترین رپوٹ کے مطابق پاکستان میں کہانی ہی مختلف ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے بھارت، چین، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے ۔ملک میں موجود غربت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ہر سال 2.4 فیصد کی زبردست شرحِ اضافہ کے ساتھ ملک کی آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ 1998 میں آخری مردم شماری سے 57 فیصد زیادہ ہے اور پہلے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔مردم شماری کے تازہ ترین اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں محکمہ بہبودِآبادی کے تحت جو پالیسی اپنائی گئی ہے اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلے۔ محکمہ بہبود آبادی کے معروف نعرے ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ تازہ ترین مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی اب 20 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خاص طورپر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہروں کی آبادی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ فیصل آباد‘ ملتان‘ راولپنڈی کی آبادی بھی بے حد بڑھ گئی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ لاہور ، فیصل آباد‘ ملتان اورراولپنڈی کی آبادی میں آج سے 15 برس پہلے کے مقابلے میں دُگنی ہوجانے لیکن کراچی کی آبادی میں اس شرح سے اضافہ نہ دکھائے جانے کی وجہ ہی سے مردم شماری کے اعدادوشمار پر شکوک وشبہات کے اظہار کا موقع ملا ہے اور اب ہر ایک اس کو سیاسی فائدے کے لیے کیش کرانے کی کوشش کررہاہے، جو لوگ 15برس قبل کے اسلام آباد سے واقف ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ ملک کا دارالحکومت کس قدر پرسکون اور سرسبز تھا ۔آج اسلام آباد میں آبادی کا دباؤواضح طورپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔انسانی ترقی کے مایوس کن اشاریوں کے ساتھ آبادی میں یہ اضافہ ملک کے اقتصادی و معاشی تحفظ اور سلامتی کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ایک اندازے کے مطابق ملک کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور روزگار کے مواقع اتنے نہیں ہیں ۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ آبادی میں اس اضافے کی صورت میں ایک تباہی جنم لے رہی ہے۔اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ آبادی میں اس بے پناہ اضافے اور اس کے نتائج پراس وقت اقتدار کی جنگ میں مصروف سیاسی قیادت نے کم ہی توجہ دی ہے۔صورتحال کی سنگینی کے باوجود اس مسئلے پر قومی سطح پر بحث نہیں ہوئی۔ حیرانی کی بات نہیں کہ آئین کے مطابق ہر10سال میں ہونے والی مردم شماری اب دو دہائیوں بعد ہوئی ہے، وہ بھی اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کے بعد۔ اس میں بھی حیرت نہیں کہ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج پر بھی تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ردم شماری کے طریقہ کار پر، اور شہری و دیہی کی تفریق کیسے کی گئی کے حوالے سے چند سوالات موجود ہیں ۔ سندھ اس وقت پیچ و تاب کی کیفیت میں ہے کیوں کہ اس کے مطابق حکومت نے جان بوجھ کر اس کی آبادی کو کم دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ حقیقت، کہ کراچی کی آبادی اندازوں سے کم ہے، سندھ کے اعتراضات کو کچھ حد تک تقویت دیتی ہے۔ اس دوران لاہور کی آبادی میں اسی دوران دُگنا اضافہ ہوا ہے، جس پر کچھ حلقوں کو حیرت ہے۔واقعتا ان تضادات کی کچھ تاویلات پیش کی جا سکتی ہیں ۔ جہاں کراچی کا ایک حصہ دیہی علاقہ قرار پایا ہے، وہیں حکومتِ پنجاب نے اپنے دار الخلافہ میں دیہی اور شہری علاقوں کی تفریق ختم کر دی۔ اس کے بعد خیبر پختونخواہ کی آبادی میں غیر متوقع اضافے پر بھی سوالات موجود ہیں ۔سی طرح بلوچستان کی آبادی میں ملکی آبادی کے اوسط شرحِ اضافہ سے زیادہ اضافے پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ صوبے میں افغانوں کی آمد کی وجہ سے ہے، اور یہ کہ اس سے بلوچ اور پختون آبادیوں کے درمیان لسانی توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔مگر اس سب کے ممکن ہونے کے باوجود مردم شماری کی تمام تفصیلات اور اس کے مشاہدات فوراً سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سیاسی مسائل ہر مردم شماری کے بعد اٹھتے ہیں ۔سیاسی تنازعات اپنی جگہ، مگر اس پوری بحث میں جو چیز ہماری توجہ حاصل نہیں کر سکی ہے، وہ اس بڑھتی آبادی سے معاشرے کو لاحق چیلنجز، اور اس ٹائم بم کو کس طرح پھٹنے سے بچایا جائے۔ اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ ہم آبادی کی کتنی کم فکر کرتے ہیں ۔جہاں پوری دنیا میں شرحِ تولید اور آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے، وہاں پاکستان میں اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں شرحِ تولید خطے میں انتہائی زیادہ ہے۔ کیا کسی کو فکر ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور ایران جیسے دیگر مسلم ممالک نے اپنی آبادیوں پر کامیابی سے قابو پا لیا ہے۔اس کا ثبوت ان کے پاس انسانی ترقی کے بہتر اشاریوں کی صورت میں ہے۔ جب تک خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کی کوششیں نہیں کی جائیں گی، تب تک شرحِ آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور اگر یہی صورتحال رہی، تو 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہوجائے گا، اور انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس وقت پاکستان انسانی ترقی کے لحاظ سے 147 ویں درجے پر ہے، جبکہ اس کی 30 فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ شرحِ خواندگی اب تک صرف 58 فیصد ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے اصل خواندگی اتنی بھی نہیں ہے۔اس صورت حال میں اگر ہر سال آبادی میں ہزاروں بچوں کا اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان کے لیے 147 واں نمبر برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ایک اور تشویشناک بات شہری آبادی میں تیز ی سے اضافہ ہے جو کہ بڑے شہروں کے نازک انفراسٹرکچر پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ مردم شماری کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں اب شہری آبادیوں میں لامحدود اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی 21 کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں غالب تعداد نوجوانوں کی ہے جن کی عمریں 15سال سے30 سال کے درمیان ہیں ۔ نوجوان کسی بھی ملک کے لیے ایک اثاثہ ہوتے ہیں لیکن یہ اسی صورت میں اثاثہ ہوتے ہیں جب نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوں ۔ ناخواندہ‘ نیم خواندہ اور غیر ہنر مند نوجوان ملک اور معاشرے کے لیے اثاثہ نہیں بلکہ ایک عذاب بن جاتے ہیں ۔ پاکستان میں کتنی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی اور قطعی تعداد ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ کچھ سروے‘ دعوے کرتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 63 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ بعض سروے کہتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 64 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو معاشی اور سماجی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی ہماری حکومت کے پاس نہیں ہے اور کیا اتنے وسائل ہیں کہ وہ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنا کر انہیں ترقی کے انجن کی شکل دے سکیں ۔ بظاہر تو ایسا نظر نہیں آتا۔ ہمارے تعلیمی اور فنی اداروں سے جو نوجوان فارغ ہو کر نکلتے ہیں انہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں ۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے کوئی حکمت عملی موجود ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے منصوبہ ساز ہی دے سکتے ہیں ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی جامع حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ ہمارے کئی ادارے اور لیڈر تسلسل سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ2 کروڑ سے زیادہ پاکستانی بچے تو ایسے ہیں جو اسکول نہیں جا رہے۔ یہ بچے ہمیں گھروں ‘ کھیتوں ‘ ورکشاپوں پر کام کرتے یا بڑے شہروں میں صفائی کا کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ جو کروڑوں نوجوان ڈگری یافتہ ہیں وہ ہاتھ میں ڈگری اٹھائے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ انہیں کوئی روزگار نہیں مل رہا۔ اس صورتحال سے جہاں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔انتہاپسندی اور غربت میں شاید براہِ راست تعلق نہ ہو مگر کچھ تحقیقات کے مطابق ناخواندگی نوجوانوں کے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی جانب کھنچے جانے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ایک ان پڑھ اور بے روزگار آبادی ہر طرح کے عسکریت پسندوں کے لیے ریڈی میڈ رضاکار فراہم کرتی ہے۔ملک کو لاحق ان تمام مسائل کو اس وقت تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک آبادی کنٹرول میں نہیں لائی جاتی۔ ہوسکتا ہے کہ دیر ہو چکی ہو، مگر اب بھی اگر ریاست اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، تو حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں ۔آبادی کے اس بم نے ملک کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مگر کیا کوئی اس متوقع سانحہ سے باخبر ہے؟آبادی میں یہ شدید اضافہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی باعث ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی، جنگلات میں کمی، آلودگی، اور کچرا ٹھکانے لگانے کے مسائل درپیش ہیں ، اور ان کی وجہ درست طور پر بڑھتی ہوئی آبادی قرار دی جا سکتی ہے۔پاکستان ان ملکوں میں سے ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرات بھگت رہے ہیں ، چنانچہ اسے آبادی میں اضافے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت ماحول کو برقرار رکھنے کا ہمارا نظام اتنی بڑی آبادی کو اچھا معیارِ زندگی فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔اس دوران، ایک ایسا ملک جو پرتشدد انتہاپسندی کا شکار ہے، وہاں آبادی میں اس قدر اضافہ اور نوجوانوں کی تعداد کا زیادہ ہونا اقتصادی مواقع ختم کر رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر قابو پانا نہایت مشکل ہوتا چلاجائے گا۔مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اس کے سیاسی اثرات پر تو بعض سیاستدانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن اصل کام معیشت دانوں اور سماجی سائنسدانوں کا ہے کہ وہ پاکستان میں آبادی کے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی سامنے لائیں ۔


متعلقہ خبریں


افغان ہمارے مہمان نہیں، واپس چلے جائیں،دھماکے برداشت نہیں کر سکتے ، وزیر داخلہ وجود - منگل 02 دسمبر 2025

سوشل میڈیا پر 90 فیصد فیک نیوز ہیں، جلد کریک ڈاؤن ہوگا،کوئی لندن میں بیٹھ کر بکواس کررہا ہے اداروں میں مسئلہ چل رہا ہے ،بہت جلد آپ یہاں آئیں گے اور ساری باتوں کا جواب دینا ہوگا، محسن نقوی تینوں صوبوں میں افغان باشندوں کیخلاف کارروائی جاری ، پختونخوا میں تحفّظ دیا جا رہا ہے، ج...

افغان ہمارے مہمان نہیں، واپس چلے جائیں،دھماکے برداشت نہیں کر سکتے ، وزیر داخلہ

مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت،سندھ اسمبلی میں احتجاج، اپوزیشن کا واک آؤٹ وجود - منگل 02 دسمبر 2025

حکومت اس طرح کے واقعات کا تدارک کب کریگی، کھلے ہوئے مین ہول موت کو دعوت دینے کے مترادف ہیں، معصوم بچے کی لاش گیارہ گھنٹے کے بعد ملی ،بی آر ٹی ریڈ لائن پر تیسرا واقعہ ہے،اپوزیشن ارکان کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے،بچے کی تصویر ایوان میں دکھانے پر ارکان آبدیدہ، خواتین کے آنسو نکل ...

مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت،سندھ اسمبلی میں احتجاج، اپوزیشن کا واک آؤٹ

لکی مروت،پولیس موبائل پر خودکش حملہ، اہلکار شہید، 6 زخمی وجود - منگل 02 دسمبر 2025

دونوں حملہ آور سڑک کنارے کھڑے تھے، پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی پولیس اسٹیشن تجوڑی کی موبائل قریب آنے پر ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس موبائل پر خودکش حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید اور 6زخمی ہوگئے۔پولیس کے مطابق لکی مروت میں خو...

لکی مروت،پولیس موبائل پر خودکش حملہ، اہلکار شہید، 6 زخمی

اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، سہیل آفریدی کا انتباہ وجود - منگل 02 دسمبر 2025

صوبے میں کسی اور راج کی ضرورت نہیں،ہم نہیں ڈرتے، وفاق کے ذمے ہمارے 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ پیسے ہیں بند کمروں کی پالیسیاں خیبر پختونخوا میں نافذ کرنے والوں کو احساس کرنا چاہیے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی نجی ٹی وی سے گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ ص...

اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، سہیل آفریدی کا انتباہ

راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان وجود - پیر 01 دسمبر 2025

  ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے ، شہباز شریف اسے امن کا نوبل انعام دینے کی بات کر رہے ہیں، آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ،بڑے لوگوں کی خواہش پر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں افغان پالیسی پر پاکستان کی سفارت کاری ناکام رہی، جنگ کی باتوں سے مسئلے حل نہیں ہوں گے ، ...

راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان

خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور وجود - پیر 01 دسمبر 2025

متوقع نئے گورنر کے لیے تین سابق فوجی افسران اور تین سیاسی شخصیات کے نام زیر غور تبدیلی کے حوالے سے پارٹی کا ہر فیصلہ قبول ہوگا، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور شروع کردیا گیا، گورنر راج کے لیے فیصل کریم کنڈی کو رکھنے یا ان کی جگہ...

خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے پر غور

اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر جوابدہی ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ وجود - پیر 01 دسمبر 2025

اسرائیل کی بے دریغ بربریت نے غزہ کو انسانیت ،عالمی ضمیر کا قبرستان بنا دیا ہے صورتحال کو برداشت کیا جا سکتا ہے نہ ہی بغیر انصاف کے چھوڑا جا سکتا ہے ، اسحق ڈار نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی قانون کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے گئے جنگی جر...

اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی پر جوابدہی ناگزیر ہے ، وزیر خارجہ

صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - پیر 01 دسمبر 2025

آئینی ترمیم مسترد کرنا کسی عدالت کا اختیار نہیں،قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے کسی ایسے عمل کا ساتھ نہیں دیں گے جس سے وفاق کمزور ہو،تقریب سے خطاب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے ،آئینی ترمیم کو مسترد کرنا کسی عدالت کے ا...

صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا،بلاول بھٹو

طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے ،خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے ،بھارتی آرمی چیف کا آپریشن سندور کو ٹریلر کہنا خود فریبی ہے خیبرپختونخوا میں سرحد پر موجودہ صورتحال میں آمد و رفت کنٹرول...

طالبان حکام دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کریں،ترجمان پاک فوج

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم وجود - اتوار 30 نومبر 2025

  یہ ٹیسٹ رن کر رہے ہیں، دیکھنے کے لیے کہ لوگوں کا کیا ردعمل آتا ہے ، کیونکہ یہ سوچتے ہیں اگر لوگوں کا ردعمل نہیں آتا، اگر قابل انتظام ردعمل ہے ، تو سچ مچ عمران خان کو کچھ نہ کر دیں عمران خان ایک 8×10 کے سیل میں ہیں، اسی میں ٹوائلٹ بھی ہوتا ہے ،گھر سے کوئی کھانے کی چیز...

عمران خان کی صحت سے متعلق خبروں کا مقصد عوام کا ردعمل جانچنا ہے ،علیمہ خانم

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان وجود - اتوار 30 نومبر 2025

سہیل آفریدی کی زیر صدارت پارٹی ورکرزاجلاس میں بھرپور احتجاج کا فیصلہ منگل کے دن ہر ضلع، گاؤں ، یونین کونسل سے وکررز کو اڈیالہ جیل پہنچنے کی ہدایت پاکستان تحریک انصاف نے اگلے ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان کر دیا، احتجاج میں آگے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جائے گا۔وزیر ...

پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا اعلان

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ وجود - اتوار 30 نومبر 2025

جب 28ویں ترمیم سامنے آئے گی تو دیکھیں گے، ابھی اس پر کیا ردعمل دیں گورنر کی تقرری کا اختیار وزیراعظم اور صدر کا ہے ، ان کے علاوہ کسی کا کردار نہیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں۔سیہون میں میڈیا سے گفتگو میں مراد ...

سندھ کی تقسیم کی افواہوں پر پریشان ہونا چھوڑ دیں،مراد علی شاہ

مضامین
یاسین ملک کو سزا دلانے کا بھارتی منصوبہ وجود منگل 02 دسمبر 2025
یاسین ملک کو سزا دلانے کا بھارتی منصوبہ

مسٹر ٹیفلون۔۔۔ وجود منگل 02 دسمبر 2025
مسٹر ٹیفلون۔۔۔

آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ وجود پیر 01 دسمبر 2025
آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ

بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد وجود پیر 01 دسمبر 2025
بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد

کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے! وجود اتوار 30 نومبر 2025
کشمیر ٹائمز کے دفتر پر چھاپہ کیا بتاتا ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر