... loading ...
19 سال کے طویل انتظار کے بعد ہونے والی مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے اگرچہ سندھ اور بلوچستان سمیت تقریباً تمام صوبوں نے اس پر اعتراضات شروع کردیے ہیں لیکن ان اعتراضات میں اصل مسئلہ دب کر رہ گیا ہے یا کسی نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، تازہ ترین مردم شماری کی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف ہوا ہے کہ آبادی کا ٹائم بم جو ایک عرصے سے ٹِک ٹِک کر رہا تھا، اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔جہاں دوسرے ترقی پزیر ممالک میں آبادی میں شرحِ اضافہ میں بے پناہ کمی ہوئی ہے، وہاں مردم شماری کی تازہ ترین رپوٹ کے مطابق پاکستان میں کہانی ہی مختلف ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے بھارت، چین، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے ۔ملک میں موجود غربت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ہر سال 2.4 فیصد کی زبردست شرحِ اضافہ کے ساتھ ملک کی آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ 1998 میں آخری مردم شماری سے 57 فیصد زیادہ ہے اور پہلے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔19 سال کے طویل انتظار کے بعد ہونے والی مردم شماری کے جو نتائج سامنے آئے اگرچہ سندھ اور بلوچستان سمیت تقریباً تمام صوبوں نے اس پر اعتراضات شروع کردیے ہیں لیکن ان اعتراضات میں اصل مسئلہ دب کر رہ گیا ہے یا کسی نے اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، تازہ ترین مردم شماری کی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف ہوا ہے کہ آبادی کا ٹائم بم جو ایک عرصے سے ٹِک ٹِک کر رہا تھا، اب پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔جہاں دوسرے ترقی پزیر ممالک میں آبادی میں شرحِ اضافہ میں بے پناہ کمی ہوئی ہے، وہاں مردم شماری کی تازہ ترین رپوٹ کے مطابق پاکستان میں کہانی ہی مختلف ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے بھارت، چین، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے ۔ملک میں موجود غربت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ہر سال 2.4 فیصد کی زبردست شرحِ اضافہ کے ساتھ ملک کی آبادی 20 کروڑ 80 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ 1998 میں آخری مردم شماری سے 57 فیصد زیادہ ہے اور پہلے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔مردم شماری کے تازہ ترین اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں محکمہ بہبودِآبادی کے تحت جو پالیسی اپنائی گئی ہے اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلے۔ محکمہ بہبود آبادی کے معروف نعرے ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ تازہ ترین مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی اب 20 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خاص طورپر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہروں کی آبادی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ فیصل آباد‘ ملتان‘ راولپنڈی کی آبادی بھی بے حد بڑھ گئی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ لاہور ، فیصل آباد‘ ملتان اورراولپنڈی کی آبادی میں آج سے 15 برس پہلے کے مقابلے میں دُگنی ہوجانے لیکن کراچی کی آبادی میں اس شرح سے اضافہ نہ دکھائے جانے کی وجہ ہی سے مردم شماری کے اعدادوشمار پر شکوک وشبہات کے اظہار کا موقع ملا ہے اور اب ہر ایک اس کو سیاسی فائدے کے لیے کیش کرانے کی کوشش کررہاہے، جو لوگ 15برس قبل کے اسلام آباد سے واقف ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ ملک کا دارالحکومت کس قدر پرسکون اور سرسبز تھا ۔آج اسلام آباد میں آبادی کا دباؤواضح طورپر محسوس کیا جا سکتا ہے۔انسانی ترقی کے مایوس کن اشاریوں کے ساتھ آبادی میں یہ اضافہ ملک کے اقتصادی و معاشی تحفظ اور سلامتی کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ایک اندازے کے مطابق ملک کی 60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور روزگار کے مواقع اتنے نہیں ہیں ۔اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ آبادی میں اس اضافے کی صورت میں ایک تباہی جنم لے رہی ہے۔اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ آبادی میں اس بے پناہ اضافے اور اس کے نتائج پراس وقت اقتدار کی جنگ میں مصروف سیاسی قیادت نے کم ہی توجہ دی ہے۔صورتحال کی سنگینی کے باوجود اس مسئلے پر قومی سطح پر بحث نہیں ہوئی۔ حیرانی کی بات نہیں کہ آئین کے مطابق ہر10سال میں ہونے والی مردم شماری اب دو دہائیوں بعد ہوئی ہے، وہ بھی اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کے بعد۔ اس میں بھی حیرت نہیں کہ تازہ ترین مردم شماری کے نتائج پر بھی تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ردم شماری کے طریقہ کار پر، اور شہری و دیہی کی تفریق کیسے کی گئی کے حوالے سے چند سوالات موجود ہیں ۔ سندھ اس وقت پیچ و تاب کی کیفیت میں ہے کیوں کہ اس کے مطابق حکومت نے جان بوجھ کر اس کی آبادی کو کم دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ حقیقت، کہ کراچی کی آبادی اندازوں سے کم ہے، سندھ کے اعتراضات کو کچھ حد تک تقویت دیتی ہے۔ اس دوران لاہور کی آبادی میں اسی دوران دُگنا اضافہ ہوا ہے، جس پر کچھ حلقوں کو حیرت ہے۔واقعتا ان تضادات کی کچھ تاویلات پیش کی جا سکتی ہیں ۔ جہاں کراچی کا ایک حصہ دیہی علاقہ قرار پایا ہے، وہیں حکومتِ پنجاب نے اپنے دار الخلافہ میں دیہی اور شہری علاقوں کی تفریق ختم کر دی۔ اس کے بعد خیبر پختونخواہ کی آبادی میں غیر متوقع اضافے پر بھی سوالات موجود ہیں ۔سی طرح بلوچستان کی آبادی میں ملکی آبادی کے اوسط شرحِ اضافہ سے زیادہ اضافے پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ صوبے میں افغانوں کی آمد کی وجہ سے ہے، اور یہ کہ اس سے بلوچ اور پختون آبادیوں کے درمیان لسانی توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔مگر اس سب کے ممکن ہونے کے باوجود مردم شماری کی تمام تفصیلات اور اس کے مشاہدات فوراً سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سیاسی مسائل ہر مردم شماری کے بعد اٹھتے ہیں ۔سیاسی تنازعات اپنی جگہ، مگر اس پوری بحث میں جو چیز ہماری توجہ حاصل نہیں کر سکی ہے، وہ اس بڑھتی آبادی سے معاشرے کو لاحق چیلنجز، اور اس ٹائم بم کو کس طرح پھٹنے سے بچایا جائے۔ اس سب سے واضح ہوتا ہے کہ ہم آبادی کی کتنی کم فکر کرتے ہیں ۔جہاں پوری دنیا میں شرحِ تولید اور آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے، وہاں پاکستان میں اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں شرحِ تولید خطے میں انتہائی زیادہ ہے۔ کیا کسی کو فکر ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور ایران جیسے دیگر مسلم ممالک نے اپنی آبادیوں پر کامیابی سے قابو پا لیا ہے۔اس کا ثبوت ان کے پاس انسانی ترقی کے بہتر اشاریوں کی صورت میں ہے۔ جب تک خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کی کوششیں نہیں کی جائیں گی، تب تک شرحِ آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور اگر یہی صورتحال رہی، تو 2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہوجائے گا، اور انڈونیشیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس وقت پاکستان انسانی ترقی کے لحاظ سے 147 ویں درجے پر ہے، جبکہ اس کی 30 فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ شرحِ خواندگی اب تک صرف 58 فیصد ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے اصل خواندگی اتنی بھی نہیں ہے۔اس صورت حال میں اگر ہر سال آبادی میں ہزاروں بچوں کا اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان کے لیے 147 واں نمبر برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ایک اور تشویشناک بات شہری آبادی میں تیز ی سے اضافہ ہے جو کہ بڑے شہروں کے نازک انفراسٹرکچر پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ مردم شماری کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں اب شہری آبادیوں میں لامحدود اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی 21 کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں غالب تعداد نوجوانوں کی ہے جن کی عمریں 15سال سے30 سال کے درمیان ہیں ۔ نوجوان کسی بھی ملک کے لیے ایک اثاثہ ہوتے ہیں لیکن یہ اسی صورت میں اثاثہ ہوتے ہیں جب نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوں ۔ ناخواندہ‘ نیم خواندہ اور غیر ہنر مند نوجوان ملک اور معاشرے کے لیے اثاثہ نہیں بلکہ ایک عذاب بن جاتے ہیں ۔ پاکستان میں کتنی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی اور قطعی تعداد ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ کچھ سروے‘ دعوے کرتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 63 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ بعض سروے کہتے ہیں کہ ہماری آبادی کا 64 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو معاشی اور سماجی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی ہماری حکومت کے پاس نہیں ہے اور کیا اتنے وسائل ہیں کہ وہ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنا کر انہیں ترقی کے انجن کی شکل دے سکیں ۔ بظاہر تو ایسا نظر نہیں آتا۔ ہمارے تعلیمی اور فنی اداروں سے جو نوجوان فارغ ہو کر نکلتے ہیں انہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں ۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے کوئی حکمت عملی موجود ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے منصوبہ ساز ہی دے سکتے ہیں ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی جامع حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ ہمارے کئی ادارے اور لیڈر تسلسل سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ2 کروڑ سے زیادہ پاکستانی بچے تو ایسے ہیں جو اسکول نہیں جا رہے۔ یہ بچے ہمیں گھروں ‘ کھیتوں ‘ ورکشاپوں پر کام کرتے یا بڑے شہروں میں صفائی کا کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ جو کروڑوں نوجوان ڈگری یافتہ ہیں وہ ہاتھ میں ڈگری اٹھائے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ انہیں کوئی روزگار نہیں مل رہا۔ اس صورتحال سے جہاں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے وہاں جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔انتہاپسندی اور غربت میں شاید براہِ راست تعلق نہ ہو مگر کچھ تحقیقات کے مطابق ناخواندگی نوجوانوں کے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی جانب کھنچے جانے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ایک ان پڑھ اور بے روزگار آبادی ہر طرح کے عسکریت پسندوں کے لیے ریڈی میڈ رضاکار فراہم کرتی ہے۔ملک کو لاحق ان تمام مسائل کو اس وقت تک حل نہیں کیا جا سکتا جب تک آبادی کنٹرول میں نہیں لائی جاتی۔ ہوسکتا ہے کہ دیر ہو چکی ہو، مگر اب بھی اگر ریاست اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، تو حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں ۔آبادی کے اس بم نے ملک کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مگر کیا کوئی اس متوقع سانحہ سے باخبر ہے؟آبادی میں یہ شدید اضافہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی باعث ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی، جنگلات میں کمی، آلودگی، اور کچرا ٹھکانے لگانے کے مسائل درپیش ہیں ، اور ان کی وجہ درست طور پر بڑھتی ہوئی آبادی قرار دی جا سکتی ہے۔پاکستان ان ملکوں میں سے ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرات بھگت رہے ہیں ، چنانچہ اسے آبادی میں اضافے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت ماحول کو برقرار رکھنے کا ہمارا نظام اتنی بڑی آبادی کو اچھا معیارِ زندگی فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔اس دوران، ایک ایسا ملک جو پرتشدد انتہاپسندی کا شکار ہے، وہاں آبادی میں اس قدر اضافہ اور نوجوانوں کی تعداد کا زیادہ ہونا اقتصادی مواقع ختم کر رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر قابو پانا نہایت مشکل ہوتا چلاجائے گا۔مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اس کے سیاسی اثرات پر تو بعض سیاستدانوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن اصل کام معیشت دانوں اور سماجی سائنسدانوں کا ہے کہ وہ پاکستان میں آبادی کے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی سامنے لائیں ۔
پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی طرح جواب دیں گے جیسے مئی میں دیا تھا،بھارت کیخلاف جنگ میں جذبہ ایمانی سے فتح ملی ، اللہ کے حکم کے مطابق فرائض کی انجام دہی کرتا ہوں جس طرح نبی کریم ﷺکو اللہ نے کامیابی دی، اسی طرح ہمارے لوگوں کو کامیابی دی، جنرل عاصم منیر کا ایوان ص...
معمولی تنازع کے دوران گھریلو ملازم پر تشدد کے کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری موسیٰ مانیکا کو 19 نومبر کو عدالت میں پیش کیا جائے،جج کا پاکپتن صدر پولیس کو حکم خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے چھوٹے بیٹے موسیٰ مانیکا کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔رپورٹ کے مطابق موسیٰ مانیکا 17 جول...
مجموعی طور پر 1375 گھروں، 412 دکانوں، 28 ہوٹلوں کی تلاشی لی گئی 1709 سے زائد افراد کے کوائف چیک ،21 افراد کیخلاف مقدمات درج راولپنڈی پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مضبوط بنانے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیے،آ...
جنوبی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن،مسجد عبادت کیلئے بند کردی تمام داخلی راستے، چوکیاں اور گلیاں سیل،یہودی آباد کاروں کا اشتعال انگیز مارچ قابض اسرائیلی فورسز نے جنوبی مغربی کنارے کے شہر الخلیل (حیبرون) کے قدیم علاقے میں سخت کرفیو نافذ کر دیا ہے اور مسجدِ ابراہیمی...
کیڈٹ کالج پر حملہ کرنے والے درندے ہیں، ان کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم ٹی ٹی پی کو نہیں مانتے، ملک میں امن تباہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی، محسن نقوی کا واضح پیغام ہمارے مقامی شہری حملوں اور دھماکوں میں ملوث نہیں ، ناراضگی ہوسکتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ملک کیخلاف...
شاہ عبداللہ دوم وزیراعظم ہاؤس پہنچے،شہباز شریف نے استقبال کیا، گارڈ آف آنر پیش ملاقات کے دوران بات چیت میں دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے عزم کا اعادہ اردن اور پاکستان نے غزہ کے باشندوں کی نقل مکانی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے اور غزہ جنگ بندی پر کام کرنے والے 8 ممالک سے مزید ر...
تختی خیل؍ ہوید میں خوارج کی تشکیل کی موجودگی پر پولیس اور سی ٹی ڈی کیمشترکہ کارروائیاں آپریشن کے دوران پولیس اہلکار محفوظ رہے،آئی جی پی خیبر پختونخوا کی پولیس اہلکاروں کو شاباش خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں اور لکی مروت میں پولیس اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ کامیاب کارروائیوں میں 5دہ...
5افراد جاں بحق، متعدد مزدورزخمی، لغاری گوٹھ میں کارخانہ تباہ ، خوفناک آگ بھڑک اٹھی دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی، شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، وزیر اعلیٰ کا نوٹس حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں آتش بازی کے کارخانے میں خوفناک دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں...
ٹاسک فورس کو تھانوں کی سطح پر سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ اسٹاف کی معاونت حاصل ہوگی پولیس نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی گرفتاری اور واپس بھیجنے کے معاملے پر 13تھانوں میں ٹاسک فورس قائم کر دیا اور غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔پولیس نے...
سربراہی سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کو سونپ دی،ہر تھانے کے 4 ممبران ہوں گے ٹاسک فورس کو تھانوں کی سطح پر سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ اسٹاف کی معاونت حاصل ہوگی پولیس نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی گرفتاری اور واپس بھیجنے کے معاملے پر 13تھانوں میں ٹاسک فورس قائم کر دیا...
ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ پر حملہ ہیں، عدلیہ کو انتظامیہ کے ماتحت کرنے کی کوشش ناقابل قبول ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں،شخصی بنیاد پر ترامیم کی گئیں،اپوزیشن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے پر خراج تحسین، جمہوری مزاحمت جاری رہے ...
ہم نے تجارت پر افغان رہنماؤں کے بیانات دیکھے، تجارت کیسے اور کس سے کرنی ہے؟ یہ ملک کا انفرادی معاملہ ہے،ٹرانزٹ ٹریڈ دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ممکن ہے، دفتر خارجہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پاکستان کے دشمن ہیں مذاکرات نہیں کریں گے،دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے وا...