وجود

... loading ...

وجود
وجود

اقامہ کا پھندا

هفته 09 ستمبر 2017 اقامہ کا پھندا

ایک فیصلہ 28 جولائی کو ہوا جس نے تخت وتاج چھین لیا۔قاضی وقت نے فیصلہ دیا کہ جس منصب کے لیے صداقت وامانت شرط اول ہیں اس پر فائز شخص ان شرائط پر پورا نہیں اترتا۔عدالت کافیصلہ آیا تو گویا سب کو آگ بگولہ کر گیا۔عدالت جانے کا مشورہ دینے والوں کو اپنی قوت خرید پر اعتماد تھا۔ ماضی میں ان کی لگائی ہوئی ہر بولی کامیاب رہی تھی لیکن کچھ ہستیاں ناقابل فروخت بھی ہوتی ہیں ۔عدالت اعظمیٰ کے معزز ججوں نے ثابت کیا کہ ابھی وہ سکہ نہیں ڈھالا گیا ہے جس میں ان کی بولی لگ سکے معزز عدالت کے جج فیصلہ پر تواس ہی وقت بھی پہنچ چکے تھے اور دو ججوں نے اپنا فیصلہ سنا بھی دیا تھا لیکن اس ہی عدالت کے تین ججوں نے اتمام حجت کا فیصلہ کیا اور مزید تحقیق و تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)تشکیل دے دی ۔سودا گرو ں نے جانا کہ کام آسان ہوا اس ممکنہ آسانی کی خوشی میں بھنگڑے ڈالے گئے اور مٹھائیاں کھائی اور کھلائی گئیں گویا مرحب نے قلعہ خیبر کا کامیاب دفاع کیا ہے اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کو اپنی فتح قرار دیا گیا کہ اب معاملہ معزز عدالت کے ججوں سے نہیں شہنشاہ وقت کے ماتحت عملے سے کرنا تھا ۔نیب ہو یا ایف آئی اے ،ایس ای سی پی ہو یا اسٹیٹ بینک سب ہی سرکار کے ملازم ہیں ، توقع تھی کہ گریڈ 19 اور 20 کے افسران کو لالچ دینا اور دھمکانا آسان ہو گا، بچوں کی زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے یہ توپھر انسان تھے۔ چڑیا جیسا ننھا پرندہ بھی اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے اپنے سے کئی گنا بڑی بلی سے مقابلہ پر آمادہ ہو جاتی ہے تو یہ تو گوشت پوست کے بنے انسان تھے، انہیں بھی اپنے بچے پیارے تھے پھر لالچ وہ راستا ہے جس پر چل کر کسی کو بھی اپنا بے دام غلام بنایا جا سکتا ہے۔ پاناما کے پاجامہ میں الجھے شریفوں نے دونوں ہی حربے استعمال کیے خود بھی دھمکیاں دی اور اپنے لے پالکوں سے بھی کہلوایا ابھی حاضر ڈیوٹی ہو ابھی تحفظ حاصل ہے کل ریٹائر ہو جاو¿ گے پھر پنشن کے لیے ہمارے ہی پاس آو¿ گے اور تحفظ بھی حاصل نہیں رہے گا ۔بلواسطہ ماڈل ٹاون کا حوالہ بھی آیا اور لاپتہ افراد کا ذکر بھی ۔پیغام واضح تھا کہ ہماری بنائی ہوئی راہ پر تحقیقات کرو سب ٹھیک کی رپورٹ دو رونہ۔۔۔۔۔لیکن واجد ضیاءاور اس کی ٹیم نے اپنی خوشحالی اور بچوں کے تحفظ پر قوم کی خوشحالی اور مستقبل کے تحفظ کو ترجیح دی پھر جے آئی ٹی نے وہ لنکا ڈھائی کہ نام کے شریف صادق اور امین نہیں رہے اور جو صادق اور امین نہ ہو وہ کاذب اور خائن ہوتا ہے عدالت اعظمیٰ کے فیصلہ نے سراج الحق اور عمران خان کے دعووں پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
اس فیصلہ سے قبل جو عدالتی فیصلہ کے احترام کا درس دیتے تھے خود فیصلہ تسلیم کرنے اور فریق مخالف کو بھی فیصلہ تسلیم کرنے کی نصیحت کیا کرتے تھے، وہ فیصلہ کے بعد سیخ پا ہیں ۔ آئین سے آرٹیکل 62 اور63 نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ آئین میں ترمیم کر دے۔ آئین سے مناسبت کے لیے صادق اور امین ہونے کی شرط ہذف کر دے لیکن اللہ کی پکڑ میں آتے لوگوں کو عزت وتکریم کون دلا سکتا ہے۔بزرگ کہتے ہیں کہ چاند کی طرف منہ کر کے نہ تھوکو ،چاند کی جانب تھوکا گیا اپنے ہی منہ پر آتا ہے۔سیاسی اختلاف میں شوکت خانم کی مسیحائی کو جس طرح رسوا کیا گیا وہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ کیا اس اسپتال میں علاج کے لیے آنے والوں سے پی ٹی آئی اور عمران سے وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے؟ کیا یہاں علاج کے لیے آنے والوں سے ان کی سیاسی وابستگی معلوم کی جاتی ہے اور مخالفین کی صفوں میں شامل افراد کا علاج کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے یہاں تو علاج کے لیے آنے والوں سے ان کا مذہب ،علاقہ اورذات بھی نہیں پوچھی جاتی۔ یہاں علاج کے لیے آنے والا صرف مریض ہوتا ہے ۔کیا ایسا اسپتال تعمیر کرنا ،موٹروے ،میٹرو اور اورنج لائن سے زیادہ ضروری نہیں تھا ۔موٹروے نہ بنتا،میٹرو نہ آتی اور اورنج لائن نہ چلتی تب بھی سفر کٹ ہی جانا تھا ۔یہ درست ہے کہ بہترین اسپتال اور انتہائی قابل ڈاکٹر بھی انسان کی مہلت عمل میں ایک لمحہ کا اضافہ بھی نہیں کرسکتے کہ قضا اور شفاءکا اختیار تو اس کے دائرہ اختیار میں ہے جو قادر مطلق ہے جو” کن فیکون” کا مالک ہے ۔بہتر اسپتال اور قابل معالج مرض کی شدت تو کم نہیں کر سکتے اس کی اذیت ضرور کم کر سکتے ہیں اور شوکت خانم میں یہی ہو رہا ہے۔ “ملکہ” وقت معمول کے طبی معائنہ کے لیے لندن تشریف لے گئیں تھیں کہ ان کے شوہر نام دار کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے کے باوجود ملک میں ایک بھی ایسا قابل اعتبار اسپتال کا قیام عمل میں نہیں آیا ہے کہ جہاں پر مراعات یافتہ طبقہ اپنا معمول کا طبی معائنہ بھی کرا سکے۔ ملکہ عالیہ کے معمول کے طبی معائنہ میں وہ مرض سامنے آیا کہ جس کے خاص اسپتال کو محترمہ کے شوہر نامدار اور ان کے حواریوں نے اپنی خصوصی تنقید کا ہی نہیں شدید بدکلامی کا نشانا بھی بنایا تھا اور وہ کونسا الزام اور بہتان ہے جو اس اسپتال کے روح رواں پر عائد نہ کیا گیا ہو۔ لیکن رب وہ دکھاتا ہے جو انسان دیکھنا نہیں چاہتا ۔
جس اقامہ کو نااہلی کی وجہ بتاتے ہوئے نواز شریف کہا کرتے ہیں کہ کیا اقامہ لینا جرم ہے، کیا بیٹے کی کمپنی میں ملازمت جرم ہے، کیا معاہدہ ملازمت میں درج تنخواہ نہ لینا جرم ہے ،یہ درست ہے کہ نہ اقامہ لینا جرم ہے نہ ملازمت کرنا اور نہ تنخواہ لینا ۔لیکن کیا دبئی سے نیویارک اور نیویارک سے لاہور منتقل ہونے والی رقم کا اظہار نہ کرنا جرم نہیں ؟ کیا منی لارڈنگ جرم نہیں اور کیا صرف ان مقاصد کے لیے اقامہ لینا جرم نہیں ؟یہ درست ہے کہ ماہانہ دس ہزار درھم تنخواہ نہیں لی لیکن یوں کل عرصہ ملازمت کی تنخواہ دس لاکھ درہم سے زائد نہیں بنتی ۔وہ منی لانڈرنگ جس پر حبیب بینک نیویارک سٹی برانچ کو 63 ارب روپے کے جرمانے اور برانچ کی بندش کی سزا کا سامنا ہے کیا وہ رقم 10 لاکھ درھم کے مساوی ہے؟ یہ رقم تو 10لاکھ درھم سے کئی سو گنا زائد ہے اور پھر اس منی لانڈرنگ کے نتیجہ میں ملک کے سب سے بڑے اور معتبر بینک کی شہرت جو داغدار ہوئی ہے، اس کو روپوں میں نہیں تولا جا سکتا۔ اس انکشاف نے واضح کر دیا ہے کہ جس اقامہ کو نواز شریف بہانہ کہہ رہے تھے کہ کیس تھا پاناما کا اور نا اہلی کا سبب بنا اقامہ۔ وہ اقامہ دھوبی کی وہ دکان ثابت ہوا ہے جہاں سے کھربوں روپے کی دھلائی ہوئی ہے اور وہ شریف خاندان کے لیے پاناما سے بھی بڑا پھندا بن گیا ہے۔
نیب کے انتہائی اعلیٰ افسر امتیاز تاجور نے جو کچھ کہا ہے وہ انتہائی خوفناک منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کسی فرد یا جماعت کا نام نہیں لیا لیکن صورتحال تو واضح ہے کہ دھمکیاں خصوصاً جان سے مارنے کی دھمکیاں تو وہی دیتے ہیں کہ جن کے بڑے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہو اور نیب کی کارروائی سے کس کے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہے یہ سب جانتے ہیں اقامہ کو بہانہ قرار دینے والے اس اقامہ کے پردے میں چھپے اپنے کالے کرتوت سامنے آنے پر مزید اشتعال کا شکار ہیں ۔ الراضی بینک، دبئی سے حبیب بینک نیویارک اور وہاں سے لاہور کے اسٹینڈر چارٹر میں آنے والی رقوم اس اقامہ کی ہی مرہون منت ہے۔ اس ضمن میں نجی ٹی وی چینل پر دکھائی جانے والی منی ٹریل ثابت کر رہی ہے کہ دبئی سے یہ رقوم ہل میٹل کے حسابات سے نیویارک ارسال کی گئی ۔ہل میٹل وہ کمپنی ہے جس کے مالک میاں محمد نوازشریف ثابت ہو چکے ہیں اور کمپنی کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق کمپنی مسلسل بھاری خسارے کا شکار تھی لیکن اس کے حسابات سے کروڑوں ڈالر پہلے نیویارک اور وہاں سے لاہور منتقل ہوئے۔ دبئی سے حبیب بینک نیویارک برانچ میں جن کھاتوں میں رقوم منتقل ہوئی، اس کی تفصیلات تو دستیاب نہیں لیکن وہاں سے لاہور کے اسٹینڈر چارٹر بینک کے جس کھاتے میں رقوم منتقل ہوئی ،وہ میاں محمد نواز شریف کے نام ہے لیکن میاں صاحب کے گوشواروں میں اس کھاتے کا کہیں ذکر نہیں ، ممکن ہے کہ یہ میاں صاحب کے خلاف کوئی سازش ہو جو ان کے شاطر دشمنوں نے تیار کی ہو لیکن اس کا کیا کریں کہ ان کھاتوں میں منتقل ہونے والی رقوم سے مستفید ہونے والوں میں شریف خاندان کے افراد ہی شامل ہیں بلکہ اس سے اصل فوائد حاصل کرنے والوں میں میاں محمد نوازشریف کے اہلخانہ سرفہرست ہیں لیکن اس کے باوجود میاں صاحب ہر موقع اور مقام پر یہی کہتے سنائی دیتے ہیں مجھے کیوں نکالا” ؟
ابھی وقت ہے کہ کرپشن کے خاتمہ کی جدوجہد کرنے والی تمام قوتیں متحد ہوں کہ اس طرح سے ہی عوامی سطح پر کرپشن اور کرپٹ عناصر کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے اپنا کام کر دیا اب سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ساتھی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک اورقو م کے مفاد میں فیصلہ کریں ۔ورنہ ساری جدوجہد کا ثمر حاصل نہ ہو گا اور عدالتی فیصلے کے باوجود کرپٹ عناصر مزید مضبوط ہوں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر