وجود

... loading ...

وجود
وجود

عید الاضحیٰ اور آج کے زندہ نمرود

جمعرات 31 اگست 2017 عید الاضحیٰ اور آج کے زندہ نمرود

(گزشتہ سے پیوستہ)
آج روئے زمین نمرودوں اور فرعونوں کے ظلم و جبر سے بھری پڑی ہے۔ انسانوں نے انسانوں کو خوبصورت ناموں اور اصطلاحات میں پابہ زنجیر کر کے اپنا غلام بنارکھا ہے ۔فلسطین ،عراق،شام،یمن ،برما،افغانستان ،چیچنیا اور کشمیر جیسیے مسلم خطوں میں آج کے زندہ نمرودوں نے انسانیت کو تباہ برباد کر رکھا ہے ۔ہر جگہ انسانی جانوں اور عزتوں کو یہی نمرودی سپاہ پاؤں تلے رو ندتی ہوئی نظر آتی ہے ۔امت مسلمہ کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے ۔چہار جانب امت روئے زمین کے بدترین نمرودوں اور فرعونوں کے چنگل میں بُری طرح پھنس چکی ہے ۔امت نمرودوں کے ساتھ بر سر پیکار ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ اس لیے کہ جا نبین میں جو اختلافات ہیں وہ اتنے وسیع ہیں کہ انہیں کسی طرح سے ختم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان نمرودوں سے نپٹنا یا دوبدو رہنا اُمت کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انہونی ۔یہ سلسلہ چلتا رہاہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا ۔مگر امت اسلامیہ کو سب سے زیادہ نقصان نمرودوں نے کم ان کے ایجنٹوں نے زیادہ پہنچایا ہے اور بد قسمتی کے ساتھ ایجنٹوں کی یہ پوری جماعت امت کے ہی بعض افراد ہوتے ہیں جو ظاہر میں اسلام کی وفاداری کے دم بھرتے ہیں مگر بباطن ان کی نظر صرف ذاتی اور مالی مفادات پر ہوتی ہے ۔نفس پرستی کے مرض میں مبتلا ان زہریلے سانپوں نے امت کو لہو لہان کرکے رکھ دیاہے۔ فلسطین سے لیکر کشمیر تک یہی ایجنٹ مسلم لیڈروں کے لباس میں امت کو گمراہی ،شرک،کفر اور بدعات وخرافات کے غلیظ غار میں دھکیل رہے ہیں اور امت کی حالت یہ ہے کی دھتکارنے اور جھٹلانے کے باوجود بھی وہ ان سے اپنا دامن چھڑا نہیں پاتی ہے ۔حد یہ کہ اسلام کے ابجد سے ناواقف ان جاہلوں کی حالت یہ ہے کہ دین سے تعلق تو دکھاوے کی حد تک تو ہے مگر دین کے اوامر سے ایسے بدکتے ہیں جیسے منافقین ۔نماز عیدین اور جمعہ تو ضرور پڑھتے ہوئے دکھتے ہیں مگر گھروں میں نماز کا کوئی نام ونشان نہیں ۔ جمعہ کے روز مسلم لیڈروں کی نمازوں کا زیادہ تر تعلق عوام کے ساتھ تعلق بنائے رکھنے سے ہوتاہے نماز سے نہیں ۔قرآن وحدیث کی ہوا بھی ان بے چاروں کو نہیں لگی ہے ۔
مصطفیٰ کمال سے لیکر جنرل سیسی تک ہر ایک مسلم رہنما کو جب بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اسلام کی ضرورت پڑی تو انھوں نے اس سے بے دریغ استعمال کیا البتہ جب بعض علماء نے اس سے ایک مکمل ضابطۂ حیات مانتے ہوئے حکومتی ایوانوں میں نافذ کرنے کی بات کی تو ان کمینوں نے ان کے مطالبے کو انتہا پسندی کی گالی سے بے جان کردیا۔کشمیر ہی کو لیجیے1947 سے لیکر اب تک تمام لیڈروں نے اس مظلوم قوم سے اسلام کے نام پر قربانیاں مانگیں اور اس مظلوم قوم نے بھی اس سلسلے میں کسی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اب تک اسلام ہی کے نام پر یہاں کے نوجوان سروں پر کفن باندھے میدان کار زار میں بر سر پیکار ہیں ۔ مگر آج ہی کی تاریخ میں بعض لیڈروں کو اس کے اسلامی کہلائے جانے سے تکلیف محسوس ہو رہی ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس سے مغربی ممالک اس تحریک کو اسلامی دہشت گردی کے کھاتے میں جمع کردیں گے ۔حالانکہ تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ مغربی ابلیسوں نے کسی بھی وقت امت مسلمہ کی کوئی مدد نہیں کی ہے اور آج کی تاریخ میں بھی وہ اس سے بھارت کا ہی حصہ قراردیتے ہیں ۔مغربی ممالک بالخصوص امریکا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے اپنے مفادات عزیز ہیں نہ کہ کچھ اور ۔۔۔اور تو اور جب امریکا کو اپنے مفادات کا تحفظ’’ اسلامی انتہا پسندی ‘‘میں نظر آتاہے تو وہ ان کے حصول اور تحفظ کے لیے اسلامی انتہا پسندوں کو گلے لگاتے ہوئے ساری دنیا کو انھیں ’’ مجاہدین اسلام ‘‘کے نام سے یاد کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ امت مسلمہ کو فائدہ کس سے ہے دین داری سے یا دین بیزاری سے ؟؟؟ آخر ہمیں ہی دین کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر نے کی صلاح کیوں دی جاتی ہے ؟مرنے مارنے کی نوبت ہو تو دین ،قیام حکومت اور نظام کی باری آئے تو بے دینی آخر کیوں ؟
نمرود جیسا مفلس کب کا مر گیا مگر ہمیں ایک نئی مصیبت میں مبتلا کر کے چل بسا !وہ یہ کہ نظام ِشرک میں رہنے سے بعض طبیعتوں میں ایک قسم کی بیماری پیدا ہوتی ہے جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کے دور ِمبارک میں عبداللہ بن اُبیع اور اس کے حواریوں کی جماعت میں پیدا ہوئی ۔یہ لوگ کام تو نمرودی ،فرعونی ،قارونی اور ابو جہلی ہی کرتے ہیں مگر نام ان کا اسلامی رکھتے ہیں اور بعض بے چارے سادہ لوح مسلمان ان کی اس منافقت سے دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔وہ انہیں ہر طرح کی مدد و نصرت فراہم کر کے ان کے حقیر دنیاوی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے کام کرتے ہیں ۔نمرود ،فرعون ،ابو جہل کب کے مر گئے ابن اُبیع کا کوئی نام ونشان تک باقی نہیں ہے مگر ان کے کافرانہ نظام اب تک مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہیں ۔آج کے نمرودوں نے بت پرستی کا طریقہ بدل دیا ،اپنے کفر و شرک کے نام بدل دیے ہیں ۔ایک وسیع و عمیق فکر کے تحت طریقہ عبادت کو تبدیل کر دیا ہے اور بقول اقبال ’’لات و عزیٰ در حرم باز آورد‘‘جو کل ہو رہا تھا وہی آج بھی ہو رہا ہے۔ البتہ کل کو میدان جنگ میں ایک طرف نمرود و فرعون ہوتا تھا اور دوسری جانب ابراہیم ؑ و موسیٰ ؑ۔۔۔اور آج ایک طرف نمرودو فرعون اکیلے نہیں ان کے ساتھ بعض مسلمان نامی انکے کرایہ کے ٹٹو بھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔گو آج کی جنگ میں مسلمانوں کو بہت سے انبیائے کرام ہی کی طرح بیک وقت کفار کے ساتھ ساتھ منافقین کے ساتھ بھی بر سر پیکار رہنا پڑتا ہے اور ان منافقین کی چالاکی سے اللہ کی پناہ کہ امت کا بہت بڑا طبقہ ان کی منافقت سمجھنے سے بے بس ہے۔ منافقت کی یہ ہیبت ناکی اتنی خطرناک ہے کہ بڑے بڑے چالاک اور مدبر بھی کسی نہ کسی شکل میں ان کے دام ہم رنگ میں پھنس جاتے ہیں ۔
اس کی اصل نمرود و فرعون نہیں بلکہ وہ ابلیس لعین ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری کے بجائے تکبر کی راہ اختیار کرتے ہوئے سارے جن و انس کو گمراہ کرنے کی ٹھان لی اور یہ اسی ابلیس کی کا رستانی ہے جس نے بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ آج کے نمرودوں کو یہ بات سجھائی کہ اُمت مسلمہ کو گمراہ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ’’ کفرو شرک ‘‘کا براہ راست نام لینے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ ’’کفر و شرک کو ماڈیفائی کر کے اسلام کے سانچے میں ڈالتے ہوئے کسی دوسرے نام کے ساتھ ‘‘اُمت کے سامنے پیش کیا جائے اور آ ج امت ایک ایسے شرک و کفر میں مبتلا ہے جس سے شرک وکفر کے بجائے بعض مولوی صاحبان بھی ’’تاویلات‘‘کا سہارا لیکراسلام قرار دیے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔عام مسلمان کو دھوکا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اسے’’ اسلام‘‘ قرار دینے والے نام نہاد مسلم لیڈر اور نفس پرست علماء ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُمت نمرودوں اور فرعونوں کے ساتھ ساتھ توحید وشرک کی اس معرکہ آرائی میں بعض مسلمان نامی افراد اور لیڈروں کے ساتھ بھی بر سر جدوجہد ہے ۔اگر قرآن و حدیث کے مطالعے کے بعد ایک مسلمان نفس پرستی اور فرقہ پرستی سے بچتے ہوئے ان نمرودی ایجنٹوں کو اپنے صفوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے ان موذی سانپوں کی پہچان ہو جانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ارشاد الٰہی ہے ’’کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا ،ہم چاہیں تو اُنہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیں اور اُن کے چہروں سے تم ان کو پہچان لو گے۔مگر ان کے انداز کلام سے تو تم ان کو جان ہی لو گے ۔اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے ۔ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کو جانچیں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں (سورۃ المحمد۔30تا32)
( ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر