وجود

... loading ...

وجود
وجود

قائد اعظم ؒ اور دو قومی نظریہ کے مخالفین

هفته 26 اگست 2017 قائد اعظم ؒ اور دو قومی نظریہ کے مخالفین

قائد اعظمؒ کے سب سے بڑے مخالف تو انگریز تھے جن کی جاتے جاتے خواہش تھی کے ہندوستان کو کانگریس کی مرکزی حکومت کے حوالے کر کے جائیں اور مسلمان ان کے غلام بن کے رہیں ۔ قائد اعظم ؒ کی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے برپاہ کردہ دو قومی نظریہ کی مہم کی وجہ مجبوراً ہندوستان کی تقسیم منظور کی تھی۔ ہندوتقسیم کو مجبوراً مانتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کرتے تھے کہ پاکستان چل نہیں سکے گا اسے واپس بھارت میں شامل کر لیں گے۔ کانگریسی علماء بھی قائد اعظم ؒ کے مخالف تھے۔ ہندوستان کے مسلمان اور علماء مسلم لیگ اور قائد اعظم ؒکے ہم نوا تھے۔ ہند کے وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن جو برطانیہ سے تقسیم ہند کا فارمولہ لے کر آئے تھے،مسلمانوں کے دشمن ہونے اور نہرو کے ذاتی دوست ہونے کے حوالے سے قائد اعظم ؒ کی مخالفت کیا کرتے تھے ۔ اسی دشمنی میں دو قومی نظریہ کی بنیاد تقسیم کی اسکیم جو برطانیہ کی پارلرلیمنٹ نے پاس کی تھی اس سے قائد اعظم ؒاور مسلم لیگ کو آخری وقت تک جان بوجھ کر لارڈ مونٹ بیٹن نے بے خبر رکھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ مونٹ بیٹن انڈیا اور پاکستان کے مشترکہ گورنر جرنل بننا چاہتے تھے۔ اورقائد اعظمؒ کو اُس کی ہندوؤں سے ہمدردیوں کی وجہ سے یہ پسند نہیں کرتے تھے ۔ قائد اعظم ؒکے انکار پر مونٹ بیٹن نے دھمکی دی تھی کہ اس سے تمہیں نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ قائدؒ نے کہا تھا کہ ہاں مجھے معلوم چند ٹکوں کا۔ حوالہ از کتاب’’ قائد اعظمؒ اور مسلم تشخص ‘‘( مصنف ڈاکٹر خالد علوی )ہندوؤں نے مجبوری کی حالت میں ہندوستان کی تقسیم قبول کی تھی۔
انہوں نے تقسیم کے وقت ان خیالات کا اظہار کیا تھا’’جغرافیہ، پہاڑوں اور سمندروں نے ہندوستان کی موجودہ صورت کی تشکیل کی ہے۔کوئی انسانی طاقت اس کے حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کی آخری تقدیر میں حائل ہو سکتی ہے۔ آل انڈیا کانگریس دیانتداری سے بھروسہ کرتی ہے کہ جب جذبات ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ ہندستان کے مسائل کو اس مناسب تناظر میں دیکھا جا سکے گا تو دو قوموں کے غلط نظریہ کو سب لوگ مستردکر دیں گے‘‘۔ قائد اعظم ؒ کے مخالف کانگریسی لیڈر مولانا آزادنے تقسیم کے وقت کہا تھا’’ کہ مجھے یقین ہے کہ یہ حیثیت تھوڑی دیر چلے گی‘‘۔ہندومہا سبھا نے اس بات کو عجیب قرار دیا تھا ۔ واضع انداز میں کہا’’انڈیا وحدت ہے جو ناقابل تقسیم ہے اور یہاں کبھی امن نہیں ہو گا جب تک الگ ہونے والے تمام حصے واپس انڈین یونین میں نہیں لائے جاتے اور اس کا لازمی حصہ نہیں بن جاتے‘‘ ۔
ان بیانات کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو بھارت ان خیالات کی تکمیل کے لیے پاکستان بننے کے وقت سے پاکستان توڑنے اور اسے اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے کی پالیسی پر قائم ہے۔بھارت نے اربوں روپے اس کے لیے مختص کیے رکھے۔ اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے بنگال میں ان کو شیخ مجیب الرحمان میسر ہوا ۔اس نے بھارت کی اگر تلہ سازش میں حصہ لے کر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے بھارت کی ایماپر علیحدہ کیا۔ لو گ کہتے ہیں کہ اس نے الیکشن میں اکثریت حاصل کی تھی اگر اس کو اقتدار سونپ دیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹا۔ یہ نظریہ غلط ہے ۔ ایک تو وہ الیکشن ہی جبر، دھاندلی اور قومیت کی بنیاد پر لڑے گئے تھے ۔جو پاکستان کے دوقومی نظریہ کے خلاف تھے۔دوسرا وہ پاکستان کا غدار تھا۔ وہ اقتدار میں آ کر پاکستان کو اور زیادہ نقصان پہنچا تا۔ سندھ میں غلام مصطفیٰ شاہ المعروف( جی ایم سید) نے پاکستان میں دو قومی نظریہ کی مخالفت میں سندھ قوم پرستی کو فروغ دیا اور پاکستان کی جڑیں کمزور کیں ۔ اندرہ گاندھی سے درخواست کی تھی کہ سندھ پر حملہ کر دو۔
سندھ کے شہر کراچی میں الطاف حسین نے قومیت کی بنیاد پر مہاجروں کو پاکستان کے خلاف اُکسایا۔ تیس سال تک ظلم کا بازار گرم کیا۔ را سے دہشت گردی کی ٹریننگ اور فنڈ لیتا رہا۔ آخر ذلیل ہوا اور مہاجروں نے اس ظالم سے قطع تعلق کر لیا۔اب خاک چھان رہا ہے ۔ سابق صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی عبدلغفار خان قائد اعظمؒ کے مخالف اور گانگریس کے حامی تھے۔ انہوں نے پاکستان بنتے ہی پشتونستان کا مسئلہ کھڑا کیا رکھا ۔اس کو افغانستان میں قائم طا لبان کی اسلامی حکومت نے ختم کیا۔ اس پاداش میں امریکا نے 40 نیٹو ملکوں اور نان نیٹو اتحادی ڈکٹیٹر پرویزمشرف کی لاجسٹک مدد سے طالبان کی اسلامی حکومت پر حملہ کر کے روس کے بعد افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ افغان طالبان نے روس کی طرح ان 40 نیٹو ملکوں کی فوج اور امریکی فوج کو شکست فاش دی۔ اب امریکا اس شکست کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو سخت دھمکی دی ہے ۔اس غلط پالیسی کی وجہ سے امریکا کے سی آئی کے سابق چیف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاگل ہے۔
پختون ملی خواہ کے قوم پرست لیڈر بھارت کے ہم نوا بن کر پاکستان کے دو قومی نظریہ کی اور قائد اعظمؒ کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہوئے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے ایک حصہ، آزاد کشمیر کو آزاد کر دینے کی باتیں کرتاہے۔ یہ اور نیشنل عوامی پارٹی کے قوم پرست لیڈر افغانستان میں بھارتی اور امریکی پٹھو اشرف غنی کی قوم پرست حکومت کی حمایت کرتے ہیں ۔ جبکہ افغان قوم پرست حکومت میں بیٹھے قوم پرست دہشت گرد بھارت کی ایما پر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں ۔ بھارت اپنے پرانے ڈاکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان اور پورے پاکستان میں افغانستان قوم پرست حکومت کے ذریعے دہشت گردی کر رہا ہے۔
ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے قائد اعظمؒ اور دو قومی نظریہ کے مخالف پاکستان دشمنوں کے ساتھ رواداری برت کر ان کو پالا اور یہ قائد اعظم ؒ کے پاکستان کو نقصان پہچانے سے باز نہیں آتے۔ ڈکٹیٹرجنرل ضیا نے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں ایم کیو ایم بنائی جس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ ا سی جرنل ضیاء نے جی ایم سید کوسر پر بٹھایا ۔ جو پاکستان توڑنے میں مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کی مدد کرتا رہا۔نواز شریف جو مسلم لیگ کا لیڈر ہے مسلم لیگ اور قائد اعظم ؒ کے دوقومی نظریہ کی نفی کرتے ہوئے کہتا کہ میں سیکولر ہوں ۔ اپنے دور حکومت میں قائد اعظمؒ کے مخالف سیکولر حضرات کو عہدوں پر تعینات کیا جو دو قومی نظریہ کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔بانی پاکستان قائد اعظمؒ کہتے ہیں ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں ۔نواز شریف کہتا ہے ہم دونوں ایک ہیں بس ایک لکیر نے ہم کو جدا کیا ہوا ہے۔ پاکستان کو اعلانیہ توڑنے کی حامی بھرنے والے مودی کے ساتھ ذاتی دوستی کرتے ہوئے اس کو اپنی نواسی کی شادی میں لاہوربلاتے ہیں ۔ بھارت کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ نواز شریف ان سے آلو پیاز کی تجارت کو اہمیت دیتا رہا ہے۔
بھارت اور امریکا کہتے ہیں پاکستانی فوج دہشت گردوں کی مدد کرتی ہے۔ نواز شریف اس کے تاہید کرتا اور ڈان لیکس جیسے سازش میں شریک رہتا ہے۔ آج تک بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے ایک بیان بھی نہیں دیا۔ہمشیہ فوج کے خلاف سازش کرتا رہا ہے۔ مندرجہ بالا بیان کیے گئے سارے لیڈر پاکستان کا کھاتے ہیں اور پاکستان کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے تحریک پاکستان طر زکی نظریہ پاکستان کی بنیاد پر پھر سے تحریک جاری کی جائے اور عوام کے سامنے پاکستان کے اندر چھپے ہوئے قائد اعظمؒ اور نظریہ پاکستان کے دشمنوں کو بے نقاب کیا جائے۔ قائد اعظمؒ کے ویژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کی جائے۔ قومیت ،لسانیت اور علاقیت کی بنیاد پر سیاست کو بند کیا جائے۔صرف نظریہ پاکستان، نظریہ اسلام پر سیاست کی اجازت دی جائے۔ عوام کے فلاح و بہبود پر سیاست کی جائے۔ اللہ مثل ِ مدنیہ جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فر مائے آمین۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر