وجود

... loading ...

وجود
وجود

جشن ِآزادیِ پاکستان اور صوبہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام

بدھ 16 اگست 2017 جشن ِآزادیِ پاکستان اور صوبہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام

پاکستان کے عوام اور حکومت نے جشن آزادیِ پاکستان شان وشوکت سے منایا۔ فجر کی نماز کے بعد پاکستان کے استحکام و ترقی کے لیے عام مسلمانوں نے مساجد میںدعائیں کیں۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں میں31اور صوبائی حکومتوں میں21 توپوں نے سلامی پیش کی۔اسلام آباد میں پاکستان ائیر فورس نے ہوائی مظاہرہ بھی کیا۔ خوشی کے اس موقع پر ہمارے عظیم دوست چین کے نائب وزیر اعظم نے پاکستانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آزادی کی تقریبات میں شرکت کی۔صدر ِپاکستان نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ اختلافات کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کی ترقی میں سب کو شریک ہو نا چاہیے۔ کراچی میں پاک بحریہ کے چاک و چوبند دستے نے قائم اعظمؒ کے مزار پر سیکورٹی کے فرائض سنبھالے اور لاہور میں علامہ اقبالؒ کے مزار پر پاکستان کی بری فوج کے چاک و چوبند دستے نے سیکورٹی کے فرائض سنبھالے۔
دوسری طرف پاکستان کے یوم آزادی پرمقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوں نے پاکستان سے اظہاریکجہتی کے لیے ریلیاں نکالیں اورقومی پرچم لہرائے اس دوران بھارتی فوج نے مظالم کاسلسلہ بھی جاری رکھا ۔ صاحبو! ڈوگرہ راج کے دوران1932ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس سے متاثر سیکولر شیخ عبداللہ نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بنائی تھی جس کا مقصد برٹش انڈیا سے الحاق تھا۔1939ء میں اس کے نام کو نیشنل کانگریس سے تبدیل کیا گیااور اس کے سیکولر ایجنڈے کااعلان کیا۔ اس کے برعکس13؍ جون1941ء میں چوہدری غلام عباس صاحب کی سربرائی میں سیکولر شیخ عبداللہ کے مقابلے میں آل جموں کشمیرمسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے آل انڈیا مسلم لیگ کے دوقومی نظریہ کی فکرسے الحاق کر کے پارٹی کو سیکولرازم کی بجائے نظریہ اسلام کا مینیفسٹو دیا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت، تقسیم ہند کے ایک ماہ بعد 19؍جولائی1947ء کو آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنے ایک اجلاس میں الحاق پاکستان کی قراداد منظور کی تھی۔ جس کے تحت جموں و کشمیر کو قانونی طور پر پاکستان کا پانچواں صوبہ بننا تھا۔ مگر بھارت فوج نے ناجائز طریقے سے فوج کشی کر کے اس پر قبضہ کیا اور اسے غلام بنا لیا۔ اس لیے ہم اپنی تحریروں میںجموںو کشمیر کو پاکستان کا ایک صوبہ کہتے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کی تازہ خبریں یہ ہیں کہ کشمیری، برہمنی اور فرعونی صفت بھارت کے خلا ف15 ؍اگست کو بھارت کی یوم آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منایاگیا ۔
طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیرمیں جاری تحریک آزادی میں مظفر برہان وانی کی شہادت کے بعد مزید شدت آئی ہے دوسری جانب بھارتی فوج مظالم بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت درندوںنے سفاکیت پر مبنی سرچ آپریشن کے دوران مزید تین مظلوم کشمیریوں کو فائرنگ کے بے دردی سے شہید کر دیا۔جن کے نام ماجد شیخ،عادل ملک اورعرفان شیخ شامل ہیں۔ یہی نہیں غاصب فوجیوں نے ایک مسجد اور چار مکانات کو بھی مسمار کر دیا۔ اورجب اس ظلم کے خلاف علاقہ مکین احتجاج کرتے ہوئے باہر نکلے تو اخلاقیات سے عاری بھاتی درندہ صفت فوجیوں نے نہتے عوام پر حسب سابق پیلٹ گن سے فائر کئے جس سے 12 مظاہرین زخمی ہوگئے ۔مقامی ٹیم سے کرکٹ میچ جیتنے پر آزادی اور اسلام کے حق میں نعرے لگانے پر دو نوجوانوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ویری ناگ میں22 سالہ نوجوان کو کالے قوانین کے تحت جیل منتقل کر دیا گیا۔ کشمیری تو تحریک آزادی ِپاکستان کو ابھی تک جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ یوم آزادی پاکستان کے دن اپنے گھروں اور دکانوں اور مظاہروں میں پاکستانی سبز پرچم لہراتے ہیں۔ہر مظاہرے میں کہتے ہیں ہم کیا چاہتے آزادی۔ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چایتے ہیں۔یہ کشمیریوں کا روز کا معمول ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آزادی حاصل کرنے کے لیے ڈوگرہ راج سے لے کر اب تک پانچ لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں تعینات آٹھ لاکھ بھارتی درندہ صفت فوجیوں نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کی اربوں کی جائیدادوں جس میں مکانات، دوکانیں اور باغات شامل ہیں کو آزادی مانگنے اور پاکستان سے الحاق کے بعرے لگانے پر گن پائوڈر چھڑک کر خاکستر کر دیا ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو قید کے دوران اذیتیںدیکر اپائج بنا دیا گیا ہے۔ ہزاروں عزت مآب کشمیری خواتین کی جنگی حربے کے طور پر بھاتی فوجیوں نے آبر وریزی کی ہے۔ کئی کشمیریوں نوجوانوں کو اجتمائی قبروں میں دفنا دیا گیا جن میں اب کچھ میڈیا کے سامنے آ چکی ہیں۔ کئی کشمیریوں کولاپتہ کر دیا گیا ہے۔ اُن کی جوان بیویاں انتظار میں اپنے با ل سفید کر بیٹھی ہیں۔ اُن کی مائیںبہنیں اُن کے لیے رُو رُو کر اپنے آنکھوں کے آنسو ختم کر چکی ہیں۔ ہیومن رائٹ کی بین الاقوامی تنظیموں کو کشمیر کے حالت سے با خبر ہونے سے روکا گیا۔ او آئی سی نے ثالثی کی پیشکش کی جس کو فرعون مزاج بھارتی حکومت نے رد کر دیا۔ اب تو بدنام زمانہ بیلٹ گنز، جن کو انسانیت دشمن اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کے لیے بنایا تھا۔بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے استعمال نہ کر سکا اور یہ بیلٹ گنز اس کے کباڑ خانوں میں پڑی زنگ آلود ہو رہی تھی۔ ان کو بھارتی فوجی درندوں نے اسرائیل سے حاصل کیا اور نہتے کشمیریوں پر استعما ل کر رہا ہے۔ اس سے سینکڑوں کشمیری اندھے ہو چکے ہیں۔
کشمیری تو تحریک آزادیِ کشمیر کو تکمیل پاکستان کے لیے جاری کیے ہوئے ہیں۔ مگر پاکستان کے حکمران اس کے خلاف بھارت کے ساتھ آلو پیاز کی تجارت کو فوقیت دیتے ہیں۔ بھارت کشمیریوںکی نسل کشی کررہا ہے اور اعلانیہ کہتا کہ پاکستان کے پہلے دو ٹکڑے کیے ہیں اب اس کے مذید دس ٹکڑے کریں گے۔ بھارت کا دہشت گرد وزیر اعظم گزشتہ یوم آزادی پر کہتا ہے کہ بلوچستان اور گلگت کے لوگ اسے مدد کے لیے فو ن کال کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی کھلم کھلا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔وہ افغانستان کی قوم پرست بھارتی اور امریکی پٹھو اشرف غنی حکومت کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔اس نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ایجنٹوں کے ذریعے افراتفری پھیلائی اور پاکستان کو ریوینیو کما کے دینے والے شہر کو اپنی نامی گرامی ایجنٹ اور غدار پاکستان الطاف حسین کے ذریعے سیکڑوںہڑتالیں کروا کے تباہ کر دیا۔ جسے فوج نے ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعے کنٹرول کیا ۔ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اپنے پاس بٹھایا ہوا ہے۔ ان کے ذریعے دہشت گردی کروا رہاہے۔ان حالات میں ہمارے حکمران نے بھارتی حکومت کے را کے چیف اور اس کے وزیر اعظم کو اپنی نواسی کی شادی میں بُلایا۔ بھارت کے اسٹیل ٹائیکون کو مری میں بغیر وزارت خارجہ کی اطلاع کے بُلایا جس سے پاکستان میں بدگمانی اور شک و شبات پیدا ہوئے۔ بھارت کے پاکستان توڑنے کے بیانات پر کبھی کوئی رد عمل نہیں دیا۔بھارتی جاسوس حاضر نیوی کے ملازم کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر رد عمل نہیں دیا۔بھارت کے مستقل جارحانہ رویہ کے خلاف ہمیشہ معذرتانہ رویہ اختیار کیا۔
جب بین الاقومی صحافیوں نے پاناما میں آف شور کمپنیاں پکڑیں جس میں سابق حکمران کی فیملی کے نام آئے۔ نواز شریف نے خود کو دو دفعہ الیکٹرونگ میڈیا اور ایک دفعہ پارلیمنٹ کے فلور پر احتساب کے لیے پیش کیا۔ عدالت کے حکم پر ٹی اور آر بنانے میں لیت ولیل سے کام لیا۔جماعت اسلامی ،تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے سپریم کورٹ میں نے انصاف کے حصول کے لیے مقدمہ قائم کیا۔ نواز شریف نے لکھ کر دیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مانیں گے ۔ فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تحقیق کے لیے خود جے آئی ٹی بنائی۔ عدالت کے پانچ معزز ججوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ دیا کہ نواز شریف عوامی عہدے کے لیے نااہل ہیں۔ آئین کے مطابق نواز مسلم لیگ سے ہی نیا وزیر اعظم چن لیا گیا۔ جمہوریت پر کوئی آنچ نہیں آئی نہ آئندہ آئے گی انشاء اللہ۔
نواز شریف کو نہ کشمیر کے مظالم کی فکر ہے نہ اس کی آزادی کی‘انھیں نہ تکمیل پاکستان کی فکرہے۔ پس اسے عہدہ جانے کی فکر کھا گئی ہے۔ راولپنڈی سے لا ہور تک چار روزہ احتجاجی مارچ میںپاکستان کی عدلیہ اور فوج کے خلاف مہم چلائی۔’’ مجھے کیوں ہٹایا گیا۔ مجھے کیوں ہٹایا گیا‘‘ کی رٹ لگائی۔ علامہ اقبالؒ کے مزار پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں 70 سال سے جاری تماشہ بند نہ ہوا تو ملک کسی حادثے کا شکار ہو جائے گا۔ ہاں ٹھیک ہے70 سال سے جاری لوٹ گھسوٹ ا سلسلہ ختم نہ ہوا تو سیاستدانوں کا ایسا ہی حشر ہو گا۔ملک انشاء اللہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ لوگ تو کہتے ہوئے سنے گئے کہ کشمیر کے مظالم سے چشم پوشی اور ممتاز قادری کی پھانسی کی وجہ سے نوازشریف کو اللہ کی طرف سے سز ا ملی ہے۔اے کاش! کہ پاکستان کے حکمران کشمیریوں کی طرف سے جاری تکمیل پاکستان کی تحریک میں شامل ہو جائیں۔ تحریک پاکستان میں اللہ سے کیے گئے وعدے کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت قائم کر دیںتو سیاست دان کرپشن نہیں کر سکیں گے۔ جمہوریت کا تسلسل بھی چلتا رہے گا۔ پھر اللہ آسمان سے رزق نازل کرے گا۔ زمین اپنی اندر کے خزانے اُگل دے گی۔کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کشمیر پاکستان کے ساتھ مل جائے گا۔ کشمیر کی جاری تحریک تکمیل پاکستان ضرور مکمل ہو گی۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر