وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’انقلابی‘‘ نواز شریف

پیر 14 اگست 2017 ’’انقلابی‘‘ نواز شریف

کیا سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اسلام آباد تا لاہور ریلی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا ’’ایکشن ری پلے ‘‘ ہے، جب وہ 1967ء میں وقت کے طاقتور حکمران صدر ایوب خان کو چھوڑ کر راولپنڈی سے ٹرین میں سوار ہوکر کراچی تشریف لائے تھے اور راستے میں جگہ جگہ ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا ۔ چاہتوں کے اس سفر نے ہی بھٹو مرحوم کو یہ حوصلہ دیا تھا کہ وہ اپنی نئی سیاسی جماعت قائم کریں۔ صدر جنرل ایوب خان سے جنگ لڑیں اور اقتدار کی منزل تک پہنچ جائیں۔اس لڑائی میں ان کا اسٹیبلشمنٹ سے تصادم ہوا ۔ سانحہ مشرقی پاکستان نے انہیں وزارت عظمیٰ کی گدی تک تو پہنچا دیا مگر اسٹیبلشمنٹ نے معاف نہیں کیا ۔ بالآخر 5 جولائی 1979ء کو انہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا ۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی جان کا خطرہ موجود ہے ۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی ہے اور پاکستان کی عدلیہ کو للکارا ہے ۔ ان کا نشانا وہ پانچ جج صاحبان ہیں جنہوں نے انہیں اقتدار سے ہٹانے اور نا اہل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ جے آئی ٹی بنائی جس کی رپورٹ میاں نواز شریف کے خلاف ہے ۔ یہ معاملہ اب احتساب عدالت میں سماعت کے لیے جارہا ہے ۔ میاں نواز شریف کا مقصد احتساب عدالت پر دبائو ڈالنا ہے ۔ ملک میں ان کے نامزد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت ہے ۔ اس کے باوجود میاں نواز شریف نے ریلی نکالی ہے اور راستے میں پڑائو ڈالتے ہوئے جلسوں سے خطاب کیا ہے ۔ ان کی تقاریر طنز کے زہر سے آلودہ تھیں ۔ ان کا شکوہ ہے کہ پانچ ججوں نے ایک منٹ میں عوام کے منتخب وزیر اعظم کو فارغ کردیا ۔ سابق وزیر اعظم کی تقاریر میں فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی نشانا بنی ۔ ان کا کہنا تھا کہ 70سال سے پاکستان کے وزرائے اعظم کے ساتھ یہی سلوک ہوتا آیا ہے ۔ اس دوران 18 وزیر اعظم برسر اقتدار آئے اور سارے مدت پوری کیے بغیر اقتدار سے ہٹا دیے گئے ۔ یہ سوال حقیقتاً پریشان کن ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے آصف علی زرداری تو اپنے 5 سال پورے کرکے اقتدار سے الگ ہوتے ہیں اور وزرائے اعظم کیوں اپنی مدت پوری نہ کرسکے ۔ یہ فرق سیاست کا ہے ۔ سوچ اور سمجھداری کا ہے ۔ جن افراد کو نواز شریف ’’کون ہیں یہ لوگ جنہوں نے اقتدار سے ہٹایا‘‘ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں ،ان ہی لوگوں نے تو ان کا ہاتھ پکڑ کر پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب اور پھر وزیر اعظم بنایا تھا ۔پاکستان میں ووٹوں کی شرح تو 30 فیصد بھی نہیں ہوتی ‘ پس پردہ فرشتے ہی جوڑ توڑ کے ذریعے وزیر اعظم یا صدر بنواتے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوکر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ ’’مہربانوں‘‘ کی وہ عنایت بھی جو وزیر اعظم بنواتی ہے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسہ عام کے دوران گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا ۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ پاکستان سے جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کی بات کابینہ کے اجلاس میں کردی تھی ۔ اس کابینہ کے بیشتر اراکین جاگیردار اور وڈیرے تھے ۔ وہ اپنا خاتمہ کیوں کراسکتے تھے ۔ چنانچہ افغانی قاتل سید اکبر تلاش کیا گیا جس نے اُنہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام کے دوران گولی مار کر شہید کردیا ۔
انقلاب کے لیے انقلابی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 1947ء کے بعد والی مسلم لیگ جاگیرداروں ‘ وڈیروں اور مفاد پرستوں پر مشتمل تھی ۔ میاں نواز شریف کی پارٹی بھی بیشتر ان ہی موروثی سیاستدانوں اور سیاسی خانوادوں پر مشتمل ہے، ان کی بنیاد پر وہ کون سا انقلاب برپا کرسکتے ہیں یہ مستقل مفاد کے حامل لوگ ہی تو انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ڈر یہ ہے کہ یہ لوگ میاں نواز شریف کو بھی پانی پر چڑھا کر ان کی بلی نہ چڑھا دیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی زیادہ ریڈیکل اور انقلابی پروگرام کی حامل تھی مگر انقلاب اس لیے نہ لاسکی کہ ذوالفقار علی بھٹو خود جاگیردار تھے، اُن کا رویہ جاگیردارانہ تھا ۔ اُنہوں نے جنرل ایوب خان کی گود میں بالکل اسی طرح سے پرورش پائی تھی جیسے میاں نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں اقتدار کا سفر شروع کیا تھا اور جنرل جیلانی کی گود میں پلے بڑھے تھے ۔ پاکستان میں انقلاب کے دعویداروں کو پہلے طبقاتی فرق ختم کرنا ہوگا ۔ یہ نہیں چل سکتا کہ غریب عوام کے بچوں کو تو اپنے ہی ملک میں کالا پیلا اسکول بھی میسر نہ ہو اور اقتداری ٹولے کے بچے بیرون ملک حلیم کے مزے لوٹیں ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نہایت شدت سے تین فوجی حکمرانوں ایوب خان ‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا ذکر کررہے ہیں کہ ان ’’ڈکٹیٹروں‘‘ نے 30 سال حکومت کی ہے ۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں سب سے زیادہ صنعتی ترقی ہوئی اور پی آئی ڈی سی جیسا ادارہ وجود میں آیا ۔ سویلین حکمرانوں نے اس ادارے کا حلیہ بگاڑ دیا اور آج یادگار کے طورپر کراچی میں صرف ایک پی آئی ڈی سی بلڈنگ رہ گئی ہے۔ کراچی کو اس کے میئر مصطفی کمال کے ذریعے جنرل پرویز مشرف نے بنایا ۔ اتنا کام کسی بھی سویلین حکمران نے نہیں کیا ۔ پاکستان میں ترقیاتی فنڈز خورد برد کرکے سرے محل اور رائے ونڈ محل بنانے والے سویلین حکمرانوں نے پاکستانی قوم کو ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے جال اور زنجیروں میں جکڑ دیا ہے جو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور سفر کے دوران جگہ جگہ انقلاب لانے کی بات کی ہے اور عوام سے کہا ہے کہ وہ ان کے اگلے اعلان کا انتظار کریں، اگر چہ عوام ان کی کال پر سڑکوں پر نکلے تو پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف ‘ جماعت اسلامی بھی خاموش نہیں رہیں گی ۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی نے بڑے جلسے کیے ہیں ۔ وہ اب’’ میثاق جمہوریت‘‘ کے فریب میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انقلاب لانے کے لیے انقلابی پارٹی بنانا ہوگی ‘ پارٹی کی صفوں سے وڈیروں کو نکال باہر کرنا ہوگا ،اپنی بودوباش اور رہائش کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔ بیرونی ملکوں میں جمع اربوں روپے کا سرمایہ واپس لانا ہوگا ۔ عوام اور پاکستان سے سچی محبت کا اظہار کرنا ہوگا ۔ پاکستان کو اون کرلیا تو خود بخود انقلاب آجائے گا ۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر