وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایک خوبصورت پری سے منسوب سحر انگیز آبشار ’’ڈونچار‘‘

اتوار 13 اگست 2017 ایک خوبصورت پری سے منسوب سحر انگیز آبشار ’’ڈونچار‘‘

سرِدست ایک فرضی کہانی ملاحظہ ہو، جو ‘ڈونچار’ کے حوالے سے سننے کو ملی۔ اس کے بعد میں نہیں مانتا کہ آپ زندگی میں کم از کم ایک بار اس پیاری آبشار کو دیکھنے کا پروگرام نہیں بنائیں گے۔قدیم زمانے کے لوگوں کاکہناہے کہ”پہلے پہل اس آبشار میں اتنا پانی نہیں ہوا کرتا تھا، یہ ایک چھوٹی سی آبشار تھی۔ پھر ننگو نامی ایک دیو اس علاقے میں ایک پیاری پری کے ساتھ وارد ہوا اور جیسے ہی اس آبشار کے اوپر چڑھا، دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی ایک بڑی مقدار اوپر سے گرنے لگی۔ یہ بھی مشہور ہے کہ پہاڑی کے اوپر ایک جھیل ہے، وہاں سے پانی کے اخراج کے کئی راستے ہوا کرتے تھے۔ننگو دیو کے اوپر چڑھتے ہی سارے راستے بند ہوئے اور پانی کا اخراج اسی آبشار کے ذریعے شروع ہوا، جس کی وجہ سے آج تک جو بھی اس آبشار کے پاس سے گزرتا ہے، پانی کی بھاری آواز کی وجہ سے ایک بار جھرجھری ضرور لیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈونچار علاقے کا ایک گڈریا روز آبشار کے پاس سے بکریاں چرانے آتا۔ وہ بسا اوقات ترنگ میں آ کر بانسری بجاتا اور اس کے سْر جیسے ہی پری کی سماعت سے ٹکراتے تو وہ سسک سسک کر روتی۔ دوسری طرف پْرشور آبشار میں گڈریے کو کسی کے سسکنے کی آواز سنائی دیتی جسے وہ اپنا وہم گردانتا۔
ایک روز گڈریے کے خواب میں ایک بزرگ آیا اور ننگو دیو کے ظلم کے بارے میں ساری کہانی لفظ بہ لفظ سنائی۔ ساتھ ننگو کو ختم کرنے کا طریقہ بھی اسے سکھایا جو کہ بہت سہل تھا۔ ننگو روزانہ صبح سویرے ڈونچار کے علاقے سے نکلتا اور سرِ شام جیسے ہی آتا، پری پر نظر ڈالتا، اْس سے دل بہلاتا اور پھر لمبی تان کر سو جاتا۔
بزرگ نے خواب میں ایک مخصوص پودے کے بارے میں گڈریے کو بتایا کہ اسے کاٹ کر جیب میں رکھنا اور جیسے ہی ننگو سو جائے، تو اْسے احتیاط سے سونگھانا۔ منصوبے کے مطابق گڈریے نے چودھویں کی ایک رات کو ہمت باندھی اور آبشار کے اوپر چڑھ کر ننگو کو جیسے ہی پودا سونگھایا، وہ جل کر بھسم ہو گیا اور یوں پری کو آزادی ملی۔ کہتے ہیں کہ آج بھی چودھویں رات کو پری آبشار کے اوپر کھڑی ہو کر اْس گڈریے کا شکریہ ادا کرنے ضرور آتی ہے۔”
ڈونچار کالام کوہستان کی مقامی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی بھاری آواز کے ہیں۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ اس کے معنی بازگشت کے بھی ہیں۔ڈونچار آبشار تک پہنچنے کے لیے مینگورہ شہر سے بحرین تک کا راستہ ایک پکی سڑک کی شکل میں موجود ہے۔ ضلع سوات کے صدر مقام سیدو شریف سے 57 سے 58 کلومیٹر کا یہ راستہ باآسانی ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ سیاحوں کو چاہیے کہ صبح سویرے سفر شروع کریں اور ناشتہ بحرین میں کسی چائے کے کھوکھے میں کریں۔ بحرین بازار میں ناشتے کیلئے ایک سے ایک اچھا کھوکھا یا ریسٹورنٹ موجود ہیں، جو کم خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ معیاری ناشتہ بھی فراہم کرتا ہے ۔بحرین کے آگے راستہ کچا اور پْرخطر ہے۔ اس اْکتا دینے والے سفر میں تھوڑا سا سستانے اور دوپہر کا کھانا تناول کرنے کے لیے موزوں جگہ کالام بازار ہے، جہاں مختلف ریسٹورنٹ، مقامی و غیر مقامی کھانے آفر کرتے ہیں، بیشتر ریسٹورنٹ اہلِ پنجاب چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کالام بازار میں آپ کو ضرورت کی ہر چیز مل سکتی ہے۔
کالام سے آگے گھنے جنگل میں ایک دو راہا آتا ہے، جہاں سے ایک راستہ اتروڑ اور گوجر گبرال کی طرف نکلتا ہے جبکہ دوسرا مٹلتان کے علاقے سے ہوتے ہوئے جھیل مہو ڈنڈ، جھیل سیف اللہ اور ڈونچار آبشار تک نکلتا ہے۔
ڈونچار تک سفر صبر آزما ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے۔ راستے میں مشہور گلیشیئر، چشمہ ِ شفا، فلک بوس پہاڑ سے نیچے گرتی ہوئی ایک سحر انگیز آبشار اور علاقے کی بلند ترین چوٹی ‘فلک سیر’ کے نظارے مل کر راستے کی سختیوں کو یکسر بھلا دیتے ہیں۔فلک سیر چونکہ بیشتر بادلوں کی اوٹ میں رہتا ہے، اس لیے مشہور ہے کہ یہ اپنا دیدار نصیب والوں کو ہی کرواتا ہے۔ جاتے وقت ہمیں اس کا دیدار نصیب نہیں ہوا، مگر واپسی میں ہمیں اس عظیم چوٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اس سفر میں رات گزارنے کے لیے دو جگہیں آئیڈیل ہیں۔ پہلی جگہ جھیل مہو ڈنڈ ہے جبکہ دوسری جھیل سیف اللہ۔ دونوں جھیلوں کی شکل تقریباً ایک جیسی ہے، بس مہوڈنڈ قدرے بڑی ہے۔ مجھے بذاتِ خود جھیل سیف اللہ کافی پسند آئی جس کی بڑی وجہ وہاں کا صاف و شفاف ماحول تھا۔
مہو ڈنڈ میں چونکہ ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور سیاح پکنک منا کر یا دن گزار کر واپس جاتے ہوئے کچرا ٹھکانے لگانا بھول جاتے ہیں، ساتھ مہو ڈنڈ کی انتظامیہ بھی صفائی کے حوالے سے کوئی خاص اقدام نہیں کرتی، اس لیے بسا اوقات جھیل کی رونق کوڑے کی وجہ سے ماند پڑ جاتی ہے۔جھیل سیف اللہ کی انتظامیہ نسبتاً اس حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہے۔ روزانہ شام کو جھیل کے ارد گرد چراگاہوں سے کچرا اٹھانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے، جو قریب گھنٹہ بھر جاری رہتا ہے۔ بیشتر سیاح جھیل مہو ڈنڈ کو ہی اپنا منزل مقصود گردانتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جھیل سیف اللہ اور جھیل پنغال دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ جھیل مہو ڈنڈ اور سیف اللہ سے ہوتے ہوئے جھیل پنغال کے کنارے ڈونچار تک کا سفر کافی مسحور کن ہے، یوں ایک ٹکٹ میں آدمی کو تین مزے مل جاتے ہیں۔رات گزارنے کے بعد دوسرے روز باآسانی ڈونچار کے علاقے تک پیدل سفر شروع کیا جاسکتا ہے۔ مہو ڈنڈ اور جھیل سیف اللہ کے بیچ دس منٹ کا پیدل فاصلہ ہے۔ دونوں جھیلوں سے درمیانی چال چلتے ہوئے دو گھنٹے کی پیدل مسافت پر باآسانی ڈونچار آبشار تک پہنچا جا سکتا۔ڈونچار کو مقامی لوگ ‘چغو آبشار’ بھی کہتے ہیں۔ لفظ ‘چغہ’ کا اردو متبادل ‘چیخ’ ہے۔ نیلگوں پانی کے اوپر لکڑیوں سے بنا پْل پار کر کے آبشار تک دس منٹ میں پہنچا جاسکتا ہے۔
مہو ڈنڈ سے آگے پیدل سفر میں میٹھے پانی کے جھرنے، دائیں بائیں اوپر سے گرتی چھوٹی بڑی آبشاریں، چرند پرند اور زمرد سی رنگت لیے بل کھاتی ہوئی ندی مشامِ جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ اوپر سے پانی کی ایک بڑی مقدار جب ساتھ گرتی ہے، تو زمین لرزتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔عموماً شور ہر کسی کو برا لگتا ہے، مگر ڈونچار کا پْرشور ماحول ایک عجیب سی طمانیت کا احساس دلاتا ہے۔ دو ڈھائی سو میٹر اوپر سے گرتا پانی پچیس تیس میٹر تک پھوار کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں جب سورج کی کرنیں اس پھوار پر پڑتی ہیں، تو ہوا میں مختلف رنگ اْڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
آبشار دور سے چیختی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ میری اس پر پہلی نظر پڑی، تو لگا کہ جیسے وہ شدت سے مجھے اپنی طرف بلا رہی ہے۔ جوں جوں آبشار نزدیک ہوتی جاتی ہے، توں توں اس کا پْرشور پانی دل کی دھڑکنوں کو تیز کرنے کا مؤجب بنتا ہے، ایسے میں اگر منگو دیو یاد آ جائے تو دل سینے میں دھکڑ پکڑ کرنے لگ جاتا ہے۔مگر دوسرے ہی لمحے یہ خواہش بھی سینے میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے کہ اے کاش، آج چودھویں کی رات ہو اور اس پیاری پری کا دیدار نصیب ہو جائے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر