وجود

... loading ...

وجود
وجود

تحریکِ کشمیر پریشان کن مذہبی بحث کی لپیٹ میں

جمعه 11 اگست 2017 تحریکِ کشمیر پریشان کن مذہبی بحث کی لپیٹ میں

کئی مہینوں سے کشمیر میں تحریک آزادی کے مذہبی پہلو کو لے کر نہ رُکنے والی بحث کاآغاز بہت ہی زور و شور سے شروع کیا جا چکا ہے اور تحریک سے وابستہ ہر بزرگ اور جوان اس بات کو لیکر بہت پریشان ہے کہ آخر اٹھائیس برس بعد اس بحث کا آغاز کیوں کیا گیا اور جاری قتلِ عام کے بیچ کنفیوژن پیدا کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟یہ بحث حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر ذاکر موسیٰ کے ایک آڈیو بیان کے سامنے آنے کے بعد شروع ہوئی ہے ۔نوجوانوں کے اصرار پر میں نے ذاکر موسیٰ کا آڈیو پیغام سوشل میڈیا پر سنا ۔جس میں موصوف نے تحریک کشمیر کے مذہبی پہلو پر بات کرتے ہو ئے علمائِ کرام اور حریت لیڈران پر نہ صرف سخت تنقید کی ہے بلکہ علماء کو ڈرپوک اور بزدل ہو نے کے طعنوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ حریت لیڈران کو لال چوک میں لٹکانے کی بھی دھمکی دیدی ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ لوگ تحریک آزادی کشمیر کو سیاسی تحریک یا سیاسی اشو قرار دیتے ہیں مذہبی نہیں ۔اس بیان کا اثر نہ صرف یہ کہ ابھی تک موجود ہے بلکہ نوجوان طبقہ نے اس حوالے سے کئی جگہوں پر جلسوں اور جلوسوں میں اس کے حق میں نہ صرف نعرے بلند کئے بلکہ ’’شہداء کی میتوں‘‘ پر پاکستانی پرچم ڈالنے کی رسم کو توڑتے ہو ئے کالے پرچم (جو داعش کے جھنڈوں سے کافی مماثلت رکھتے ہیں)ڈالنے کا آغاز کیا اور حال ہی میں سجاد گلکار کی تکفین کے موقع پر پاکستان نوازوں کے صبر کے نتیجے میں معاملہ ناخواشگوار صورت اختیار کرنے سے رہ گیا ورنہ شاید بات آگے بڑھ کر جنگ و جدال تک پہنچ جاتی ،یہی وجہ ہے کہ حریت کانفرنس کے بزرگ لیڈر سید علی گیلانی نے 20جولائی2017ء کو اس صورتحال پر تفصیلی بیان جاری کرتے ہو ئے کہا کہ’’کچھ شر پسند عناصر ”جہاد کے نام پر فساد“ والے اس رحجان کو کشمیر بھی درآمد کرانا چاہتے ہیں، تاکہ اس کی آڑ میں” نظریہ پاکستان اور آزادی پسند قیادت کے خلاف وہ اپنی بھڑاس کو نکال سکیں اور قوم کو انتشار اور افتراق کے حوالے کرکے اپنی بیمار نفسیات کو تسکین فراہم کرسکیں، سید گیلانی نے بعض مقامات پر چند گِنے چُنے لوگوں کی طرف سے چاند تارے والے جھنڈے کی توہین کرنے اور مسلمہ آزادی پسند قیادت کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کو ایک بڑی گہری سازش کا شاخسانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ مہم جوئی خون سے سینچی ہوئی تحریکِ آزادی کو کنفیوژن کے حوالے کرنے اور کشمیریوں کی مظلومیت سے توجہ ہٹانے پر منتج ہوگی۔ اس سے بھارت کو بھی یہ پروپیگنڈا کرنے میں بڑی مدد ملے گی کہ کشمیر عالمی دہشت گردی سے جُڑا ایک معاملہ ہے اور اس کی افواج جموں کشمیر میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے اور جبروزیادتیاں ڈھانے میں حق بجانب ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ نیا رحجان کچھ بیمار ذہنیت اور احساسِ محرومی کے شکار لوگ بھی پیدا کرا رہے ہیں اور گنتی کے چند نا فہم بچے بھی اس میں غیر شعوری طور پر استعمال ہورہے ہیں۔‘‘(21جولائی 2017ء ۔روزنامہ بلند کشمیر سری نگر )
ہمارا تعلق ایک ایسی قوم ہے جو کئی طرح کے المیوں کے مجموعات میں جی رہی ہے یہاں جو جس طرح چاہتا ہے مسائل پر بات کرتا ے ۔کچھ سیکھے پڑھے بغیر ہی ہر فرد کشمیر میں عالم ہے ۔سوشل میڈیا کی دریافت کے بعد یوٹیوب اور انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے  مختلف مبلغوں اور واعظین کی تقاریرسن کر ایسی جماعت وجود میں آچکی ہے جو اپنے سواء ہر فرد کو جاہل ،مشرک اور منافق قرار دیتی ہے ۔اسی پر بس نہیں بلکہ جو ان کی فکر یا مسلک کا حامی نہیں ہے اس کے لئے تمام تر عذاب و عتاب کی وعیدیں کتابوں سے تلاش کر کے سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں اور جو ’’اپنے‘‘ہیں وہ موحد،اہل سنت ،اہل الحق اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے اعزازت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اس ذہنیت میں نوجوانوں کی بڑی پود مبتلا ہو چکی ہے ۔یہی نہیں بلکہ اس طبقے کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ دنیاوی مسائل میں اختصاص کو دل و دماغ سے قبول کرتے ہو ئے نہ صرف شعبہ صحت میں اچھے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کی تلاش رہتی ہے بلکہ والدین خود ’’پی ،ایچ،ڈی ‘‘اسکالر ہونے کے باوجود شعبہ تعلیم میں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر مندی کو لیکر ایسے’’ ٹیوشن سینٹر‘‘کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں تمام تر مضامین پڑھانے والے قابل ترین اساتذہ جمع ہوں ۔یہی مشاہدہ معیشت ،معاشرت اور سیاسیات کے میدانوں میں ہو رہا ہے سوائے ایک دین کے جہاں مسلمان ہونا کافی ہے اور اگر کوئی نوجوان ایسا ہو جس کا تعلق کسی بھی مذہبی جماعت سے ہے تو پھر الحفیظ والامان۔وہ خود ہی نہ صرف عالم و فاضل ہے بلکہ مفتی ،مفسر اور محدث بھی !اور تو اور بعض نوجوانوں کی باتیں سن کر بے ساختہ یہ شعر زبان پر آتا کہ ’’حیراں ہوںکہ دل کو روؤںکہ پیٹوں جگر کو میں،مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں‘‘کے مصداق مسائل اس قدر گمبھیر سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ یہاں تک فرما جاتے ہیں کہ کیا ہم خود اجتہاد نہیں کر سکتے ہیں ہم نے تو اتنی کتابیں پڑھی ہیں اور اتنا لٹریچر میرے گھر میں ہے۔ یہ میں ذاکر موسیٰ نامی مجاہد نوجوان سے متعلق نہیں لکھ رہاہوں بلکہ نئی نسل کی نا پختہ ذہنیت کوالفاظ کے روپ میں پیش کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ’’گہرے دینی علوم سے ناآشنا ‘‘ جس کشمیر میں ہم رہتے ہیں وہاں کے اسلام پسند نوجوانوں کی علمی،فکری اور ذہنی حالت کس قدر پریشان کن ہے ۔
اس خام ذہن کا بعض مکاتب فکر نے خوب فائدہ اٹھا کر امت مسلمہ میں ایسی خلیج پیدا کر دی کہ بظاہر اس کو پاٹنا ناممکنات میں نظر آتا ہے ۔کشمیر میں پہلی بار تحریک آزادی کے مذہبی پسِ منظر پر سوالات نہیں اٹھائے گئے ہیں بلکہ ڈاکٹرجاوید غامدی صاحب،مولانا وحید الدین خان صاحب جیسے تمام تر جہادی اور مذہبی تحریکات پر شدید تنقید ہم ہندوستان سے کون سی ماضی کی غلطی کی شکایت کریں گے ؟ان کے نزدیک تب تو وہ ہیرو ہے اور اس نے اکھنڈ بھارت کی خدمت کی ہے ۔برعکس اس کے جب ہم اس کے غلط اور عوامی خواہشات کے بالکل الٹ سیاسی فیصلے کی شکایت کرتے ہیں توبھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اس پر غور و فکر کی زحمت گوارا کرتی ہے اور بعد کی اقوام متحدہ کی قراردادیں ہماری بات میں وزن پیدا کرتی ہیں کہ مہاراجہ نے ایک متعصب ہندؤ کی حیثیت سے ایک سیاسی مسئلے پر غلط سیاسی فیصلہ لیکر ایک قوم کی خواہشات کا خون کرتے ہو ئے انہیں بھارت میں دھکیل کر برصغیر کے وجود میں ناسور پیدا کردیا۔
(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر