وجود

... loading ...

وجود
وجود

جہازی کابینہ

منگل 08 اگست 2017 جہازی کابینہ

وفاقی کابینہ تشکیل پا گئی جس میں 47 وزیر اور وزراء مملکت شامل ہیں یوں معاشی مسائل میں گھرا ہوا ملک اور بھاری بھرکم کابینہ کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے دنیا کے 8 ترقی یافتہ ممالک کی کابیناؤں کا جائزہ لیں تو ان میں سب سے بڑی کابینہ کینیڈ ا کی ہے جس میں 30 اور سب سے چھوٹی کابینہ جرمن کی ہے جس میں صرف 14 وزیر ہیں امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے اور عملاً دنیا کے ایک بڑے حصہ پر حکمران ہے لیکن اس کی کابینہ بھی 15 ارکان پر مشتمل ہے فرانس کی کابینہ 16 ،روس کی کابینہ21 ،چین کی کابینہ20 اوربرطانیہ کی کابینہ 21 ،پڑوسی ملک بھارت کی کابینہ بھی پاکستانی کابینہ کے حجم سے چھوٹی ہے جس میں 27 وزیر شامل ہیں ۔
47 رکنی کابینہ کے بعد ابھی اس میں توسیع کا واضح امکان موجود ہے کہ اس میں شامل بہت سے وزراء مملکت ،وزیرمملکت بنائے جانے پر خوش نہیں ہیں اور وہ مکمل وزیرکا درجہ چاہتے ہیں اسی طرح وزیرداخلہ احسن اقبال اور وزیر مملکت برائے امور داخلہ طلال چوہدری کے درمیان اختلافات بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں احسن اقبال طلال چوہدری کو بطور وزیرمملکت قبول کرنے کو تیار نہیں جبکہ طلال چوہدری بھی وزیرمملکت بنائے جانے پر خوش نہیں ہیں اور مکمل وزیر کا درجہ چاہتے ہیں ۔دانیال عزیز وزیر نہ بنائے جانے پر ناراض ہیں اور جس کا اظہار بھی وہ کھلے عام کر چکے ہیں ۔
ہم نے اوپر جی8 ممالک کی کابیناؤں کا جائزہ لیا ہے یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا پر معاشی حکمرانی کر رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی کابینہ 30 ارکان سے زائد نہیں لیکن پاکستان میں 47 رکنی کابینہ تشکیل پا چکی ہے جبکہ اس میں اضافہ کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ آئین کی 18 ویں ترمیم میں کہ کابینہ بشمول مشیر اور معاونین خصوصی سمیت کابینہ کا حجم مذکورہ اسمبلی کے ارکان کے11 فیصد سے زائد نہیں ہو گا یوں پاکستان کی کابینہ اس ترمیم کے بعد زیادہ سے زیادہ 38 ارکان سے زائد پر مشتمل نہیں ہو سکتی جن میں وزراء ،وزراء مملکت ،مشیر اورمعاونین خصوصی شامل ہیں ۔
ایک وزیر کا کم وبیش خرچ 2 کروڑ روپے ماہانہ ہوتا ہے یوں وزراء کا ماہانہ خرچ تقریباً1 ارب روپے ہوتا ہے جبکہ اضافہ کی صورت میں یہ خرچ مزید بڑھ سکتا ہے ایک جانب عوام کو سرکاری اسپتالوں میں نہ تو ادویات میسر ہے نہ علاج معالجہ کی سہولیات ،اسکول لائبریوں ، لیبارٹریوں اور فرنیچر سے بھی محروم ہیں ۔ملک کے کسی بھی شہر میں صحت وصفائی کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے اور وجہ ایک ہی ہے وسائل کا نہ ہونا ۔
نوازشریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے نتیجہ میں تحلیل ہونے والی کابینہ کے کئی ارکان شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل نہیں ہیں جن میں سرفہرست چوہدری نثار احمد کا نام آتا ہے چوہدری نثار احمد جن دنوں وزیرداخلہ تھے اس عرصہ میں اگرچہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اس کی روح کے مطابق نہ ہو سکا لیکن چوہدری نثار احمد کے تعلقات مقتدر اداروں سے بہت مستحکم تھے اور ملک کے مختلف حصوں میں جو امن قائم ہوا ہے اس میں چوہدری نثار کا کردار بہت واضح ہے ۔انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرایااگرچہ سندھ میں رینجرز کو دئیے گئے اختیارات میں بار بار رخنہ ڈالا گیا اور رینجرز کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن ہر اس مرحلہ پر جب سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع سے گریز کا راستہ اپنایا تو چوہدری نثار نے واضح پیغامات دیئے کہ اگر سندھ حکومت اختیارات میں توسیع نہیں کرتی تو وفاقی حکومت آئین میں حاصل اختیارات کے تحت ناصرف رینجرز کے اختیارات میں توسیع کر دے گی بلکہ ایک بار ایسی توسیع کے نتیجہ میں سندھ حکومت کا اختیار ختم ہو جائے گا اور آئندہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا معاملہ وفاق اپنے ہاتھ میں لے لے گایہی وہ پیغام تھا جس کے بعد سندھ حکومت پس وپیش کے بعد رینجرز کے اختیارات میں توسیع کرتی رہی چوہدری نثار کو بھی اس پس وپیش پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ اس طرح سندھ حکومت کو جہاں سیاسی فیس سیونگ کا موقع مل رہا تھا وہی یہ پس وپیش سندھ حکومت کو عوام خصوصاً کراچی میں بے نقاب کرنے کا سبب بھی بن رہا تھا چوہدری نثار نئی کابینہ میں شامل نہیں ہیں اب شاہد خاقان عباسی (نواز شریف) نے انہیں پسند نہیں کیا یا وہ اس ڈوبتی ناؤ میں سوار نہیں ہونا چاہتے تھے اس کی وضاحت تو چوہدری نثار یا شاہد خاقان عباسی ہی کر سکتے ہیں لیکن جو معاملات اب تک سامنے آئے ہیں اس میں دوسرا عنصر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
دنیا بھر میں رجحان چل رہا ہے کہ چھوٹی کابینہ کے ذریعہ معاملات زیادہ بہتر اندازمیں حل کئے جا سکتے ہیں لیکن پاکستان میں معاملا الٹ ہے مسلم لیگ (ن) اسمبلی میں اکثریت کے باوجود اتحادی بنانے اور اتحادیوں کی خوشنودی کے لیے بہت کچھ کرنے پر مجبور ہے کہیں مال وزر کام آتا ہے تو کہیں وزارتیں مطلوب ہوتی ہیں اس کا واضح ثبوت جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن ہے جس نے اسمبلی میں حصہ سے زیادہ وزارتیں حاصل کیں ہیں ۔
47 وزارتوں کے باوجود مسلم لیگی مطمئن نہیں ہے محسوس ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی جو اپنے ارکان اسمبلی کو مطمئن رکھنے کے لیے تین نئی وزارتیں تشکیل دے چکے ہیں انھیں آئندہ چند دنوں میں مزید نئی وزارتیں تشکیل دینا ہو گی کہ مسلم لیگ میں ابھی وزارتوں کے امیدوار بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر امیدوار اپنے ساتھ چند ارکان اسمبلی کا ایک گروپ رکھتا ہے جیسا کہ شنید ہے کہ ریاض پیرزادہ کے معاملات پی ٹی آئی سے چل رہے تھے لیکن انہیں وزارت کا لولی پوپ دے کر منہ بند رکھنے پرآمادہ کیا گیا ہے ریاض پیرزادہ اپنے ساتھ ارکان اسمبلی کا ایک بڑا گروپ رکھتے تھے جس کے پی ٹی آئی میں جانے سے اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اپنی اکثریت کھوسکتی تھی لیکن ایسے انتظامات بدحال معیشت کے شکار ملک میں کتنے عرصہ چل سکتے ہیں ۔
٭٭…٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر