وجود

... loading ...

وجود
وجود

سودا

هفته 05 اگست 2017 سودا

عائشہ گلالئی نے بھی تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیا عائشہ تحریک انصاف کو چھوڑنے والی پہلی خاتون نہیں ہے ان سے پہلے ناز بلوچ بھی تحریک انصاف کو الوداع کہہ چکی اور سیاست میں ان سے بڑ انام جاوید ہاشمی جو تحریک انصاف کے مرکزی عہدیدار بھی تھے تحریک انصاف کو چھوڑ چکے لیکن ناز بلوچ نے اور نہ ہی جاوید ہاشمی نے عمران خان کے کردار پر کوئی الزام تراشی کی پالیسیوں سے اختلاف تھا ان کا پہلے فورم پراظہار کیا اور جب فورم سے انہیں پذیرائی نہ ملی تو اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی قائم کر لی ناز بلوچ پیپلزپارٹی سے آئی تھی اور پیپلزپارٹی کی طرف رجوع کر گئیں جاوید ہاشمی نے اگرچہ تاحال کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے لیکن ان کا واضح جھکاؤ مسلم لیگ “ن”کی جانب ہے کہ مسلم لیگ سے ان کی طویل رفاقت رہی ہے اور مخدوم کے بہت سے دوست آج بھی مسلم لیگ میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ مرکزی عہدوں پر بھی فائز ہیں پھر مخدوم جاوید ہاشمی کے ساتھ یہ بھی معاملہ تھا کہ ان کا اور مخدوم شاہ محمود قریشی کا حلقہ انتخاب تقریباً ایک جیسا ہی ہے یوں ان کے لیے انتخابا ت میں اپنے ساتھیوں کو ٹکٹ دلانا آسان نہ تھا پھر مخدوم شاہ محمود قریشی نے جو موقف ریمنڈڈیوس کے حوالے سے اختیار کیا تھا اور جس پر قائم رہتے ہوئے وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت کو چھوڑ دیا تھا اور اس طرح مخدوم شاہ محمود قریشی کا قد جاوید ہاشمی سے بڑھ گیا تھا ۔
عائشہ گلالئی نے پریس کانفرنس میں عمران خان پر جو الزامات لگائے اور جس طرح سے نوازشریف اور مسلم لیگ کی تعریف کی وہ حیرت ناک ہی نہیں افسوسنا ک بھی ہے عائشہ گلالئی کی سیاسی عمر تو کجا حقیقی عمر بھی مخدوم شاہ محمود قریشی،مخدوم جاوید ہاشمی کی سیاسی عمر سے بہت کم ہے پھر مخدوم جاوید ہاشمی ہوں یا مخدوم شاہ محمود قریشی اور ناز بلوچ سب نے سیاسی خانوادوں میں آنکھیں کھولی ہیں یوں سیاست ان کی گھٹی میں رچی بسی ہے عائشہ گلالئی کے الزامات سن کر ایک وقفہ کے لیے سکتہ طاری ہوا کہ قبائلی روایات کی امین ہونے کی دعویدار یہ کیا باتیں کر رہی ہے قبائل میں یہ باتیں کی نہیں جاتیں ایسے معاملات پر عملی اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں عائشہ گلالئی کا کہنا ہے کہ اکتوبر2013 میں انہیں پہلا نازیبا ایس ایم ایس ملا اور اسی نوعیت کا آخری ایس ایم ایس گزشتہ سال جولائی میں ملا گویا یہ عمل کم وبیش پونے تین سال تک چلتا رہا لیکن عائشہ گلالئی نے اس عرصہ میں نا تو اپنے اہلخانہ کو اعتماد میں لیا نہ پارٹی میں کسی کو اپنا ہمراز بنایا یہاں تک کے شیریں مزاری ناصرف پارلیمان میں پارٹی کی چیف وہپ ہے بلکہ پارٹی میٹنگز میں بھی اپنا موقف کھل کر پیش کرتی ہیں لیکن عائشہ گلالئی نے ان سے بھی اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موضوع اصل موضوع نہیں ہے بلکہ کسی کا لکھا ہوا اسکرپٹ ہے جو تیاری کے بغیر عائشہ گلالئی کے حوالے کر دیا گیا جس کا اندازہ پریس کانفرنس میں اس کی گفتگو سے زیادہ گفتگو کے دوران ملنے والے لقمے تھے عائشہ کے والد جو ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ ہیں وہ بار بار عائشہ کو جملے بتا رہے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عائشہ جو کچھ بیان کررہی تھی وہ اس کے ساتھ بیتا نہیں تھا بلکہ کسی اسکرپٹ کا حصہ تھا اور اسکرپٹ لکھنے والا شاید ناکام ہدایتکار تھا کہ اس نے اپنے کریکٹر کو اسٹیج پر پیش کرنے سے پہلے بھرپور تیاری نہیں کرائی تھی عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس کلی طور پر ایک سیاستدان کی پریس کانفرنس تھی لیکن ایک میڈیا گروپ جو اس وقت کپتان کے ٹارگٹ پر ہے کے تین نمائندے وہاں موجود تھے جن میں سے ایک کورٹ رپورٹر بھی تھا میڈیا میں رپورٹنگ کے حوالے سے شعبہ جات تقسیم ہوتے ہیں اور اگرکسی بھی پروگرام میں ادارہ ایک سے زائد نمائندوں کی ضرورت محسوس کرے تو اسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے رپورٹر کو بھیجا جاتا ہے کہ وہ اس شعبہ کے حوالے سے خبر بنانے میں مہارت رکھتا ہو لیکن عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس میں اس میڈیا گروپ کے کورٹ رپورٹر کی موجودگی کسی اور کہانی کی خفیہ داستان بیان کرتی ہے ۔
عائشہ گلالئی وزیرقبائل کی ذیلی شاخ گلالئی سے تعلق رکھتی ہے اور ابھی اس نے اپنی حیات کی 30/31 بہاریں دیکھی ہیں لیکن اس عرصہ میں وہ سیاسی سفر میں اے این پی ،پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (ق) سے گھومتی پھرتی تحریک انصاف تک پہنچی اور اب اگلی منزل ۔۔۔۔۔شنید ہے کہ عائشہ گلالئی نے جماعت اسلامی کے مقامی ذمہ داران سے رابطہ کیا ہے لیکن کیا جماعت اسلامی کے لیے ایک ایسی خاتون کو اپنے نظم میں ضم کرنا ممکن ہو گا جواپنی مختصر سیاسی زندگی میں کئی پارٹیاں تبدیل کر چکی ہو۔ جن میں بائیں بازوں کی پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی شامل ہیں جبکہ لبرل مسلم لیگ (ق) کی بھی وہ ممبر رہ چکی ہے ۔ان حالات میں عائشہ گلالئی جماعت اسلامی کے سخت نظم وضبط کی پابند ہو سکے گی دوسری جانب عائشہ گلالئی کا یہ کہنا کہ عمران خان پاکستان میں مغربی تہذیب کو پروان چڑھا رہا ہے اور وہ اس تہذیب کا حصہ نہیں بن سکتی اس لیے وہ پارٹی چھوڑ رہی ہے لیکن عائشہ گلالئی کی بہن ماریہ طور اسکوائش کی بین الاقوامی کھلاڑی ہے اور وہ جس لباس میں اسکوائش کورٹ میں جاتی ہے کیا وہ مغربی تہذیب اور اسلامی اُصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے ماریہ طور واحد کھلاڑی نہیں ہے جو بین الاقوامی سطح پر کھیلوں میں حصہ لیتی ہو دیگر بہت ساری لڑکیاں کھیلوں میں حصہ لیتی رہتی ہیں لیکن ان کے لباس تو ماریہ طور کے برعکس ہوتے ہیں اور انہوں نے بھی اپنے اپنے میدانوں میں کامیابیاں سمیٹی ہیں ۔
عائشہ گلالئی نے اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان پر نازیبا پیغامات بھیجنے کا الزام لگایا ہے اور یہ سلسلہ تقریباً تین سال چلا لیکن اس عرصہ میں انہوں نے شاید ان نازبیاں پیغامات پر کبھی کسی بھی فورم پر بات نہیں کی یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے “کسی صاحب کو ایک شخص نے غصہ میں گینڈا کہہ دیا ان صاحب نے اس وقت کسی ردعمل کیا مظاہرہ نہیں کیا لیکن کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد اچانک ان صاحب نے اس شخص کا گریبان پکڑ لیا جس نے انہیں گینڈا کہا تھااس وقت موجود افراد نے ان صاحب سے پوچھا کہ بھائی کیا ہوا کیوں گریبان پکڑتے ہو تو اس شخص نے کہا کہ اس نے مجھے گینڈا کہا تھا لوگوں نے کہا کہ بھائی ابھی تو اسے نے کچھ نہیں کہا اس شخص نے کہا کہ اس نے کچھ عرصہ قبل مجھے گینڈا کہا تھا پھر لوگوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل کہا تھا تو آج ردعمل کس بات کا تو اس شخص نے کہا کہ میں ابھی چڑیا گھر سے آ رہا ہوں وہاں میں نے گینڈا دیکھا ہے گینڈا ایک انتہائی بدہیت جانور ہے اور اس شخص نے مجھے اس سے ملایا ہے ”
شاید عائشہ گلالئی کو بھی ان پیغامات کے نازیبا اور اخلاق سے گرنے ہونے کا اندازہ نوازشریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے دروغ گو اور بدیانت قرار دینے اور امیر مقام سے ملاقات اور معاملات طے ہونے کے بعد وہ پیغامات نازیبا محسوس ہوئے اس پریس کانفرنس کی سب سے خطرناک بات عائشہ گلالئی کی جانب سے قبائلی غیرت کا اعلان ہے بلاشبہ قبائلی بہت باغیرت قوم ہے کہ جو غیرت کے نام پر جان دے دینا اعزاز سمجھتے ہیں ۔یہ وزیر ،محسود اور آفریدی قبائل ہی تھے جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں بھی بابائے قوم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کشمیر میں بھارتی مداخلت کا بے جگری سے ناصرف مقابلہ کیا تھا بلکہ آزاد کشمیر بھی انہیں غیرت مند قبائل کی قربانیوں کے نتیجہ میں آزاد ہوا ہے عائشہ گلالئی کی جانب سے قبائلی غیرت کا اعلان عمران خان کے لیے واضح دھمکی کا درجہ رکھتا ہے اور یوں بھی تحریک انصاف کے یوم تشکر کے پروگرا م میں مسلح افراد کا خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہونا خطرناک صورتحال کا عکاس ہے سیاست میں اختلاف نہ ہونا سیاسی سوچ کی کمی کا عکاس ہوتا ہے جہاں سیاسی سوچ بالغ ہوتی ہے وہاں اختلاف رائے لازمی حصہ ہوتا ہے اختلاف رائے صرف وہاں نہیں ہوتا جہاں بادشاہت قائم ہویاپھر مافیامیں اختلاف کے اظہار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی مافیا میں گاڈ فادر سے اختلاف کا مطلب اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنا ہوتا ہے عمران خان کو پہلے بھی ادارے محتاط رہنے کا مشورہ دے چکے ہیں اب عمران خان کو مزید محتاط ہو جانا چاہیے کہ اس مرتبہ دھمکی اس جانب سے آئی ہے کہ جس کے بعد حملہ غیرمتوقع نہیں ہے اب قبائل میں تعلیم عام ہو رہی ہے اور جذباتیت اپنی جگہ لیکن اب قبائلی بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور عائشہ گلالئی نے جس طرح سے اپنی پریس کانفرنس میں نوازشریف اور ان کے خاندان اور مسلم لیگ کی تعریف کی ہے اس نے بھی درپردہ کہانی کو کھل کر بیان کر دیا ہے یوں اسکرپٹ رائٹر کا اسکرپٹ اسٹیج ہونے سے قبل ہی فلاپ شو بن چکا ہے۔اب عائشہ گلالئی کو سوچنا چاہیے کہ اس نے جو فیصلہ کیا ہے کہ وہ نفع کا سودا ہے یا خسارہ کا ۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر