وجود

... loading ...

وجود
وجود

نہ آسما ن گرا نہ زمین پھٹی جمہوریت چلتی رہی

جمعرات 03 اگست 2017 نہ آسما ن گرا نہ زمین پھٹی جمہوریت چلتی رہی

جب مسلم لیگ نون کے حمایتی سپریم کورٹ کی کاروائی سن کر سپریم کورٹ کے باہر اپنی خود ساختہ کورٹ لگاتے ، جے آئی ٹی اور ججوں کے خلاف مہم چلاتے تھے تو سپریم کورٹ کے لارجرز بینچ کے معزز ججز صاحبان نے پاناماکیس کی کاروائی کے دوران یہ ریمارکس دیے کہ فریقین جتنا بھی واویلا کر لیں ،آسمان گرے اور چاہے زمین پھٹے ہم آئین پاکستان کے مطابق پاناما کیس کا فیصلہ کریں گے۔آخر کار سپریم کورٹ کے معزز ججز صاحبان نے نواز شریف کو جھوٹ بولنے اور آرٹیکل 62-63پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے نا اہل قرار دے دیا۔
آئین پاکستان کے مطابق صدر پاکستان نے عمل شروع کیا اور نواز شریف کے نامزدکردہ شاہدخاقان عباسی صاحب کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے 45 دن کے لیے پاکستان کا نیا عبوری وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ انہوں نے اپنی کابینہ کا بھی چنائو کر لیا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق جمہورت قائم وائم رہی اور نہ آسمان گرا اور نہ ہی زمین پھٹی ملک کے معاملات اور جمہورت چل پڑی اور انشا ء اللہ آئندہ بھی چلتی رہے گی ۔کوئی بھی شخص پاکستان کے لیے ناگزین نہیں۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تحقیقی رپورٹ کی روشنی کے مطابق نیپ کو حکم دیا تھاکہ نواز شریف ،حسن نواز، حسین نواز،مریم نواز اور اسحاق ڈار کے خلاف فیصلہ کے چھ ہفتوں کے اندر کیس دائر کرے اور ان کیسز کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر سنایا جائے۔ سپریم کورٹ نے ایک معزز جج کو ان کیسوں کی نگرانی کے لیے مقرر بھی کر دیا۔ واویلا کرنے والوں میں سب سے زیادہ غیر مناسب دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرنے والے نواز لیگ کے ایک ممبر سینیٹ کے خلاف کاروائی کی اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا اس کے خلاف مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے خلاف غیر قانونی اعتراض کرنے پر نواز لیگ کے ممبر اسمبلی کے رشتہ دار کو گرفتار لر لیا گیا ہے ۔اسے بھی اس غیر آئینی حرکت پرشاید مقدمے کا سامنا کرنا پڑے۔الیکٹرونگ میڈیا میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پرڈسکشن کے دوران میڈیا کے پروگرام میں کے دوران مریم نواز کے متعلق بھی کہا گیا کہ انہوں نے بھی سپریم کورٹ کے متعلق غیر آئینی باتیں کی ہیں جو مناسب نہیں ۔ الیکٹرونگ میڈیا کے اینکر پرسن نے ان باتوں کو دُہرانے سے اجتناب کیا۔
صاحبو!سپریم کورٹ کے معزز ججز صاحبان پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔مگر ہم لکھتے آئے ہیں کہ سیاست دان خود قانون بناتے ہیں اور جب اسی قانون کی زد ان پر پڑتی ہے تو طاقت کے نشے میں تکبر میں مبتلا ہو کر عدلیہ کے خلاف بولتے ہیں جو مناسب نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں ہمیں عوام نے منتخب کیا
ہے وہ ہی ہمیں ڈی سیٹ کر سکتے ہیں اور کسی کو اس کا اختیار نہیں۔ ارے بھائی عوام نے آئین پاکستان کے مطابق آپ کو اس عہد ے پر منتخب کیا ہے کہ آپ عوام کے خزانے کے امین اور صادق بن کر حکومت کریں گے نہ کہ اس لیے منتخب کیا ہے آپ عوام کے خزانے میں خیانت کے مرتکب ہوںگے اور جھوٹ بولیں۔ عوام کا پیسہ لوٹ کر باہر ملکوں میں منتقل کریں۔ آپ کے ہی یعنی پاکستان کی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اس کا فیصلہ نہ کرے تو اور کون سا ادارہ عوام کے حقوق کا نگہبان ہو گا۔ کرپشن پر ملک کی سپریم کورٹ نے شہریوں کی طرف سے دائر مقدمات کا پاکستان کے آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔جس کی پابندی سیاستدانوں سمیت ہر کسی پر لازم ہوتی ہے۔یہ شخصیت پسندی ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں اور ملک چلتے رہتے ہیں۔اقتدار کے ارد گرد کے لوگ چاپسلوسی کر کے ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
سپریم کورٹ سے عوام کا مطالبہ ہے کہ عمران خان چیئر مین تحریک انصاف کے خلاف بھی باہر ملکوں سے ممکنہ ناجائز فنڈ حاصل کرنے کا حنیف عباسی نے مقدمہ قائم ہے اس کو بھی تیز رفتاری سے سناجائے اور انصاف کے مطابق فیصلہ جلدسنایا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق صاحب نے آف شور کمپنیاں رکھنے والے مذید 436 لوگوں کی لسٹ سپریم کورٹ میں داخل کی ہوئی ہے۔ ان کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے جائیں اور جن کے خلاف فیصلہ سامنے آچکاہے ان سے بھی عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لے کرقومی خزانے میں جمع کرایا جائے تاکہ ملک سے مہنگائی اور بے روز گاری ختم ہوں اور ملکِ پاکستان کی آدھی آبادی جوخط غربت سے نیچے زندگی گراز رہی ہے ان کو کچھ نہ کچھ ریلف ملے۔ یہ سلسلہ رکنا نہیںچاہیے بلکہ مستقل چلنا چاہیے تاکہ ملک کرپشن فری ہو اور دنیا کے ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک کی صف میں شامل ہوجائے۔ سارے ادارے ملک کی ترقی پر گامزن ہو جائیں۔ غربت ختم ہو۔ ملک خوش حال ہو۔سیاست دان جو الیکشن جیتنے کے لیے کروڑلگائو اور جیت کر اربوں کمائو والی پالیسی چھوڑ کر سیاست میں عوام کی خدمت کرنے
کے لیے داخل ہوں نہ کہ عوام کا پیسہ لوٹنے کے لیے سیاست میں آئیں۔ سیاست ایک نفع بخش کاروبار کی بجائے عبادت بن جائے۔ پرمٹ،ٹھیکے حاصل کرنے اورنوکریاں بیچنے کی ریت ختم ہو۔قابلیت کی بنیاد پر سب شہریوں کو نوکریاں ملیں۔ قانون کے مطابق پرمنٹ اورٹھیکے ملیں۔ سفارش کا کلچر ختم ہوں۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہو۔ امن و امان ہو۔ ملک میں کارخانے لگیں۔ کارخانوں کو بجلی اور گیس ملے۔ کارخانے پیداواربڑھائیں۔ ملک سے اشیاء باہر در آمند کی جائیں زر مبادلہ ملک میں آئے ۔ جس سے عوام میں خوش حالی ہو۔
یہ سب باتیں تب ہی ممکن ہیں جب انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو۔ بڑے چھوٹے سب کے لیے ملک کاقانون برابر ہو۔ پہلے قومیں اس لیے برباد ہوئیں تھیں کہ اُن کے بڑوں کے لیے قانون کچھ اور ہوتا تھا اور چھوٹوں کے لیے کچھ اور ہوتا تھا۔کیا ہمارے ملک میں بھی ایسا نہیں ہے کہ بڑوں کے لیے قانون کچھ اور ہے اور چھوٹوں کے لیے کچھ اور ہے۔پاکستان کی تاریخ میںپہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ملک کے ایک طاقت ور وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ کی نگرانی میں حکومت کے اٹھارہ اُنیس گریڈ کے ملازمین نے اپنی اخلاقی جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے تحقیقات کیں۔عوام نے ان کی جرأت کو سلام پیش کیا۔ اس قبل ہماری عدالتیں بھی نظریہ ضرروت کے تحت ڈکٹیٹروں اورحکمرانوں کے حق میں فیصلے کرتی رہیں۔ اب پاکستان تبدیل ہو رہا ہے ہماری معزز اعلیٰ عدالت نے طاقت ور کے خلاف عوام کی سنی اور حق و انصاف کے بنیاد پر فیصلہ دے کر تاریخ میں نام پیدا کیا۔ یہ سلسلہ یہیں پر رکنا نہیں چاہیے۔ کرپشن کے خلاف مزید فیصلے آنے چاہئیں۔ جس نے بھی اس ملک کو لوٹا ہے اس کو انصاف کے کہٹرے میں لا کر اور اس سے پیسہ واپس لیکر خزانے میں جمع کیاجانا چاہیے۔اس وقت ملک کا ہر شہری ایک لاکھ پچیس ہزار کا مقروض ہے۔ نواز حکومت نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے اُدھار لے کرپچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔کرپٹ لوگوں سے کرپشن کے پیسے وصول کر کے یہ قرضے ختم کرنے چاہیے۔ انشاء اللہ جمہوریت چلتی رہے گی۔ منتخب حکومت کو اپنی پانچ سال مکمل کرنے چاہئیں۔ اس پارلیمنٹ کو دنیا کے آزاد ملکوں کی طرح آزاد الیکشن کمیشن بنانا چاییے۔ بیرون ملکوں کی طرح الیکٹرونک مشنیوں سے الیکشن کا طریقہ رائج کرنا چاہیے۔ تاکہ ہارنے والے جیتنے والوں پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام نہ لگائیں اور جمہورت چلتی رہے۔ اس ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے انشا اللہ۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر