وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاناما کیس کا سبق

پیر 24 جولائی 2017 پاناما کیس کا سبق

پاناماکیس کا پٹارہ کھلنے کے قریب ہے ۔ سپریم کو رٹ آف پاکستان میں مسلسل ڈیڑھ سال تک پاناما کیس کی سماعت کے دوران حکمراں خاندان کے بارے میںبدنامی کی ایسی دھول اُڑی ہے جس نے “شریف حاندان “کا چہرہ دھندلا دیا ہے ۔ پاکستان میں کسی وزیراعظم اور اُس کے خاندان کے خلاف کرپشن کے کیس کی سماعت کا یہ طویل دورانیہ ہے ۔ اس سے قبل سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے خلاف میمو کمیشن بنا ۔سنگین بدعنوانیوں کے الزام عائد ہوئے لیکن انہوں نے اپنی صدارت کے پانچ سال پورے کیے ۔ انہیں اکڑنا اور جھکنا دونوں اُمور پر عبور حاصل ہے۔ ایک ہندی کہاوت ہے کہ جو طاقت دکھائے اس کے آگے جھک جائو اور جو کمزور ہو اس کے آگے تن جائو ۔ وزیراعظم نواز شریف اس کے برخلاف طرزِ عمل کے عادی ہیں۔اس لیے 1990کی دہائی میں بھی صرف دو سال حکومت کرکے اقتدار سے نکال باہر کیے گئے ۔یہ تیسری بار ہے اور سامنے عمران خان اور زرداری ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن اور اسفند یار ولی ان کے ہمرکاب ہیں لیکن اسمبلی میں برائے نام نمائندگی کے باعث پارلیمنٹ کس سطح پر کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے صوبائی حلقہ 114میں ضمنی الیکشن اور گلگت کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن)کو شکست دے کر حکمراں جماعت کو 2018کے الیکشن کے لیے سخت پیغام دے دیا ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ 114کی کامیابی کوچیلنج کرکے جیتنے والے پی پی کے امیدوار سعید غنی کو امتحان میں ڈالنے کی کوشش کی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے ان کی کامیابی کا حتمی اعلان کرکے انہیں سرخرو کر دیا ہے ۔ ماضی میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو سیاست سکھانے اور شاگرد بنانے کا عندیہ دیا تھا جو انہوں نے قبول نہیں کیا ۔ اسے لیے آج راندئہ درگاہ ہیں۔رسوائے زمانہ پاناما کیس نے عزت خاک میں ملانے کی پوری کوشش کی ہے ۔آصف زرداری ہزار الزامات اور کرپشن کہانیوں کے باوجود عزت سے سیاست کررہے ہیں اور 2018کے عام انتخابات بھاری اکثریت سے جیتنے کے دعوے کررہے ہیں ۔جبکہ شریف خاندان شرافت کا ٹیگ لگا ہونے کے باوجود رسوائی اور بدنامی کے اذیت ناک دور سے گزر رہا ہے ۔
پاکستان کی تقریباً ساری سیاسی جماعتیں روایتی سیاست ہی کررہی ہیں ۔ ان میں روس یا چین کی انقلابی جماعتوں کی طرح کوئی جذبہ موجود نہیں ہے اورنہ ہی ان کا عمل سماجی اور معاشی کایا پلٹ کا حامل ہے ۔ ان جماعتوں کے ٹکٹوں پر کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچنے والے بیشتر جاگیردار اور موروثی سیاست کے علمبردار ہوتے ہیں ۔ سندھ کے سب سے زیادہ ایماندار اور دیانتدار سیاستدان قاضی فضل اللہ تھے جو کئی بار وزیر بنے ۔ ان کا تعلق لاڑکانہ سے تھا ۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں وہ سینیٹ کی نشست کے لیے امیدوار بنے تو نامزدگی کے فارم میں پیشہ کے خانہ میں سیاست لکھا تھا۔ فضل اللہ تا حیات کرائے کے گھر میں مقیم رہے۔ ایک پائی کی بھی بددیانتی اور کرپشن نہیں کی لیکن وہ بھی سیاست کو خدمت کے بجائے پیشہ سمجھتے تھے ۔ ان جیسے مخلص اور ایماندار سیاستدان کا مائنڈ سیٹ یہ تھا تو پیشہ ور اور کاریگر قسم کے سیاستدانوں سے ایماندار انہ سیاست کی توقع عبث ہے ۔ زرداری دور میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کرپشن اور توہین ِ عدالت کیس میں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹاکر گھر بھیجا گیا تو پیپلز پارٹی سے ہی راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنادیاگیا ۔ ان کے دور میں ہونے والی اربوں کی کرپشن پروہ آج بھی احتساب عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ سپر پاور امریکا کا صدر بل کلنٹن اپنے دور صدارت تک کرائے کے گھر میں رہائش پزیر رہا ۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن بغیر پروٹوکول سفر کرتے ہیں ۔ یورپ کے بیشتر ملکوں کے حکمراں کرایہ کے یا چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں ۔ پاکستانی حکمرانوں کے صرف ملکی اور غیر ملکی دوروں اور رہائش پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔وزیراعظم نواز شریف کو پاناما کیس کے ذریعے اقتدار سے باہر کرنے کے بعد بھی اجالا نہیں اندھیرا نظر آتا ہے ۔ پاکستانی سیاست کے تالاب کا پانی پاک کرنے کے لیے جاگیرادارنہ نظام کی گلی سڑی اور بدبودار نعش کو باہر نکالنا ہوگا۔ جب تک یہ نعش پانی میںہے کتنے ہی چہرے بدل لیں ،کیسی ہی پوشاک پہنادیں کیسا ہی رنگ جمادیں نتیجہ وہی نکلے گا جو یوسف رضا گیلانی کی معزولی سے برآمد ہوا تھا ۔گیلانی صاحب عدالتی فیصلہ کے تحت پانچ سال تک فعال سیاست سے باہر رہنے کے بعد پھر سیاست میں سرگرم ہیں۔ اگر اگلے انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری کا سکہ چل گیا تو کوئی بعید نہیں کہ یوسف رضا گیلانی پھر کوئی مضبوط پوزیشن بنالیں ۔ پاکستان میں چہرے نہیں نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تب ہی وہ سویرا طلوع ہوسکتا ہے جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔سندھ کی اقتداری سیاست بلاول ہائوس اور پانچ پیاروں کے گرد گھومتی ہے جن میں پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری ، فریال تالپور ، آصفہ بھٹو اور بلاول بھٹو شامل ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے ۔ 2018کے عام انتخابات انکا آخری الیکشن ہوگا۔ ملک اور صوبہ میں کرپٹ سیاسی نظام سے بیزاری بڑھ گئی رہی ہے ۔ حلقہ پی ایس 114میں طوفانی انتخابی مہم کے باوجود صرف 30فی صد ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں ۔
( آخر میں گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک وضاحت ضروری ہے جس میں ایک اخباری کالم سے اقتباس شامل کیا گیا تھا ۔ غیر ملکی میڈیا اور کتابوں سے اقتباسات یا حوالے عام بات ہے جو عموماًہمارے اخبارات اور میڈیا میں نظر آتے ہیں ۔ میرے کالم کے لیے یہ اقتباس اسلام آباد سے ایک دوست نے ارسال کیا تھا جسے من وعن کالم میں شامل کردیا گیا۔ اچھی اور کارآمد بات جہاں بھی ہو، اُسے دہرانے سے اچھائی پھیلتی ہے ۔)
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر