وجود

... loading ...

وجود
وجود

گاڈ فادر بنتے کیسے ہیں؟

هفته 22 جولائی 2017 گاڈ فادر بنتے کیسے ہیں؟

امام غزالی ؒ کی کتاب نصیحتہ الملوک سماج میں روشنی کرتی ہے، فرمایا : دیانت داری کا انحصار حکمران کے کردار پر ہے۔کتاب میں ساسانی حکمرانوں کی کھلی کچہری کی ایک سالانہ روایت کا بھی ذکر ملتا ہے، عام لوگ اپنی معروضات اور شکایات پیش کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ تب طاقت ور سب سے کمزور اور کمزور سب سے طاقت ور ہوجاتے۔ یہاں تک کہ بادشاہ قاضی القضاہ یعنی منصف اعلیٰ (چیف جسٹس) کے سامنے دو زانوں بیٹھ جاتا اور اپنے اوپر شکایتوں کا فیصلہ لیتا۔انصاف کی روشنی حکمران کے کردار سے پھوٹتی ہے اور احتساب کی امید بھی اُس کے میلے دامن کی صفائی سے بندھتی ہے۔ یہ نہ ہو تو پھر بابا سب کہا نیاں ہیں۔ عرب کہاوت جوہری طور پر اس پورے مقدمے کا احاطہ کرتی ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔کوئی نوازشریف کے کان میں چپکے سے کہے کہ مچھلی سڑر ہی ہے۔
عربی کہاوت کا پیغام بالکل واضح ہے۔ حکمران کے باب میں معاشرے اور اداروں کو زیادہ بے رحم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اُنہیں رعایت ملنے لگے تو پھر سماج بے رحمی کے پھندے پر جھولتااور ناانصافی کے ہاتھوں جھونجھتا رہے گا۔امام غزالی نے توریت کی ایک آیت کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں فرمایا گیا کہ’’ اہلکاروں کی بے انصافی اور ظلم جو بادشاہ کی نظر میں آئے اور وہ خاموش رہے تو یہ اُس کی اپنی ہی بے انصافی میں شمار کیا جائے گا، اور اس پر اُسے سزا ملے گی‘‘۔ یہاں معاملہ اہلکاروں کا ہی نہیں خود اپنے خاندان اور اُس کے ہر فرد کا ہے۔ پاکستان اپنے حساس ترین دور میں داخل ہوچکا۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے جب 20؍ اپریل کو اپنا فیصلہ سنایا اور اس میں محترم منصف آصف سعید کھوسہ نے 1969ء کے مشہور ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُس کے ایک طویل ترین فقرے کو چند مختصر لفظوں میں سمیٹا کہ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔‘‘ تو اس کاچرچا توخوب خوب ہوا۔ مگر کم لوگوں نے غور کیا کہ گاڈ فادر بنتے کیسے ہیں؟گاڈ فادر ظلم پر قائم سماج میں جنم لیتے ہیں۔جہاں انصاف کی امید دم توڑتی چلی جائے۔ یہ فقرہ زیادہ صحیح معنوں میں ہمارے نظامِ انصاف پر ہی سوالات اُٹھاتا ہے۔جہاں نصیحتہ الملوک کا ظالم بادشاہ اور آج کے دور کا حکمران تمام چھلنیوں کو چھید تا ہوا غراتا پھرے اور نظام انصاف اُسے پنپنے کا موقع فراہم کرتا رہے۔اورعام لوگ جبر کی سان پر کَسے جاتے رہے۔ماریو پوزو کے ناول کا پہلا ہی باب اس امر کی تشریح کرتا ہے کہ آخر گاڈ فادر بنتے کیسے ہیں؟
یہ گاڈ فادر کے پہلے باب کا پہلا ورق ہے۔ جس پر نیویارک کی ایک کرمنل کورٹ نمبر 3 لگی ہوئی ہے۔ جہاں پر ایمریگو نامی شخص اپنی بیٹی پر بے رحمی سے تشدد اور بے آبرو کرنے کی زبردستی پر انصاف کا طالب تھا۔ منصف نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نہایت ترشی سے کٹہرے میں کھڑے دونوجوانوں کو کہا کہ ’’تم نے ذلیل لوگوں کی سی گھٹیا حرکت کی ہے‘‘۔’’جانور ۔ وحشی درندے‘‘۔جج بول رہا تھا کہ’’ تم لوگوں نے جنگلی درندوں جیسی حرکت کی ہے۔ شکر ہے کہ تم نے اس لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانا نہیں بنایا، ورنہ تمہیں بیس برس تک جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتا۔‘‘
جج دم بھر توقف لیتا ہے۔اورپھر یوں گویا ہوتا ہے کہ : مگر تمہاری جوانی، ستھرے ماضی کا ریکارڈ، اعلیٰ خاندانی پس منظرا ور قانون کی عدم انتقام کی خواہش کے باعث تمہیں تین سال کے لیے اصلاحی قید خانے کی سزا سنائی جاتی ہے او ریہ سزا معطل کی جاتی ہے۔‘‘
انصاف کے طالب باپ نے اپنی اُس خوب صورت بیٹی کو یاد کیا جو ابھی بھی اسپتال میں اپنے ٹوٹے ہوئے جبروں کے ساتھ پڑی تھی۔ اور اس مضحکہ خیز ناٹک پر اپنے چہرے پر پھیلتی نفرت اور مایوسی کو چھپایا۔تب مجرم بچے کٹہرے سے باہر اپنے عزیزوں کے گر دجمع ہو کر فاتحانہ مسکراہٹیں اور طنزیہ لاپروائی کے ساتھ انصاف کا منہ چڑا رہے تھے۔باپ ایمریگو ،رومال سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اپنی بیوی کی جانب مڑتا ہے ، جو اب تک کچھ بھی سمجھنے سے قاصر رہی تھی۔وہ اُسے نفرت، مایوسی اور بے بسی کے ساتھ سمجھاتا ہے کہ کس طرح اس پورے نظامِ انصاف نے مل کر اُنہیں بے وقوف بنایا ہے۔ پھر وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ
’’ہمیں اپنا انصاف ڈان کارلیون ہی دے سکتا ہے۔ ہمیں اس کے پاس ہی جانا ہوگا۔‘‘
ڈان کارلیون کون؟ گاڈ فادر۔ گاڈ فادر اس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ نظام کی ناکامیاں لوگوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ متوازی طور پر قائم نظام کی طرف دیکھے جو قانون سے بالا ہے اور جہاں طاقت کاراج ہے۔ اگر لوگ انصاف کی دہلیز سے مایوس ہوجائے یا انصاف کی دہلیز طاقت کے آگے سجدہ ریز رہے تو پھر اس معاشرے میں گاڈ فادر امید کا مرکز بن کر اُبھرتے ہیں۔ قانون کے خلاف اپنے قانون کا سکہ چلانے والے یہ عناصر مایوسی کی تجارت کرتے ہیں۔اُنہیں امید بیچتے ہیں اور پھر اُنہیں اپنے مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ۔ پورا پاکستان اس کی تصویر بن چکا۔
مایوس باپ نے عدالت سے مایوس ہو کر جس ڈان کارلیون سے انصاف کی امید باندھی، وہ وہی ڈان کارلیون ہے جو گاڈ فادر نامی ناول کا مرکزی کردار ہے۔ عدالت عظمیٰ کے معزز منصف نے اپنے فیصلے میں اسی ناول کا فقرہ لکھا تھا۔ ’’ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے‘‘ ۔انصاف! جناب والا انصاف! معاشرے کا آہنگ اس کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتا۔ پاکستان میں عام لوگوں کی امیدیں اب نظام سے وابستہ نہیں رہی۔ وہ اپنی مصیبتوں کا حل متوازی ذرائع میں ڈھونڈتے ہیں۔گاڈ فادرکو اب کو ئی اور نہیں عدالتیں ہی روک سکتی ہیں۔ وگرنہ لوگ مایوس باپ ایمریگو کی طرح عدالت سے باہر نکلتے ہوئے ڈان کارلیون کا راستہ ڈھونڈتے رہیں گے۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر