وجود

... loading ...

وجود
وجود

پہلی مرتبہ انہونی ہوگئی! وزیراعلیٰ کے اختیارات وزیر داخلہ کے سپرد

پیر 17 جولائی 2017 پہلی مرتبہ انہونی ہوگئی! وزیراعلیٰ کے اختیارات وزیر داخلہ کے سپرد


وفاقی حکومت میں وزیر داخلہ کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ مگر صوبوں میں وزیر داخلہ کم ہی رکھا جاتا ہے۔ اکثر یہ محکمہ وزیراعلیٰ کے پاس ہوتا ہے۔ سندھ میں جب جام صادق وزیراعلیٰ بنے تو پہلی مرتبہ مشیر داخلہ کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور عرفان اللہ مروت مشیر داخلہ بنے۔ بعدازاں الیکشن میں کامیاب ہو کر وہ وزیر داخلہ بنے۔ اس دور میں راحیلہ ٹوانہ اور شہلا رضا کو گرفتار کرکے سی آئی اے سینٹر میں وحشیانہ تشدد کا نشانا بنایا گیا۔ وینا حیات سے بھی اسی دور میں بدسلوکی ہوئی۔ سمیع اللہ مروت اس وقت ڈی آئی جی تھے اور سی آئی اے سینٹر ان کے ماتحت تھا، جس میں سیاسی مخالفین کو تشدد کا نشانا بنایا جاتا تھا اور پھر پی پی کی دوسری حکومت میں بھی کوئی وزیر داخلہ نہ بنا اور مسلم لیگ (ن) کی دوسری مخلوط حکومت میں بھی کوئی وزیر داخلہ نہ تھا۔
2002 ء کے عام انتخابات کے بعد سندھ میں پہلے آفتاب شیخ مشیر داخلہ بنے۔ پھر چند ماہ کے لیے سید سردار احمد وزیر داخلہ ہوئے اس کے بعدعبدالر ؤف صدیقی وزیر داخلہ ہوئے اور بعدازاں وسیم اختر مشیر داخلہ بنے ۔وسیم اختر کے دور میں 12 مئی کا واقعہ ہوا۔ عبدالرئوف صدیقی کے دور میں بلدیہ ٹائون فیکٹری کو جلایا گیا جس میں 300 مزدور جل کر راکھ ہوگئے اور پھر عبدالرئوف صدیقی نے مبینہ طور پر دبائو ڈال کر فیکٹری کے مالکان سے کروڑوں روپے وصول کیے کہ جلنے والے مزدوروں کو وہ خود معاوضہ دیں گے۔
2008 میں پی پی حکومت بنی تو اس وقت بھی کسی کو وزیر داخلہ نہیں بنایا گیا۔ مگر 2013 کے الیکشن کے بعد جب دوسری مرتبہ پی پی کی حکومت بنی تو لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن میں منتخب ہونے والے سہیل انور سیال کو وزیر داخلہ بنایا گیا۔ تو اس وقت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کے فرزند بیرسٹر اویس شاہ اغوا ہوگئے ،اس وقت مسلم لیگ (ق) سندھ کے جنرل سیکریٹری بابو سرور سیال نے الزام عائد کیا کہ بیرسٹر اویس شاہ کے اغوا میں وزیر داخلہ سہیل انور سیال ملوث ہیں۔ اس دوران دوسرا اہم واقعہ اربوں روپے کی بے قاعدگیوں میں ملوث لاڑکانہ کے ٹھیکیدار اسد کھرل کی نیب، رینجرز اور حساس اداروں کے ہاتھوں گرفتاری تھی جس کو وزیر داخلہ کے بھائی طارق انور سیال نے مسلح افراد کے ساتھ آکر تھانے سے زبردستی چھڑالیا۔ ان دو واقعات کے بعد حکومت سندھ نے رینجرز پر ناراضی کا اظہار کیا اور پھر رینجرز کے اختیارات میں اضافے پر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ پھر جب مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے کسی کو وزیر داخلہ نہیں بنایا لیکن دو ماہ قبل وزیراعلیٰ ہائوس میں آئی جی سندھ پولیس ایک اجلاس میں گئے تو آصف علی زرداری اور فریال تالپر ناراض ہوئے اور سہیل انور سیال کو دوبارہ وزیر داخلہ بنوا دیا، تاکہ وہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے ساتھ لڑائی لڑسکیں۔ پہلے وزیر داخلہ نے آئی جی سے کہا کہ ان کو پولیس ہیڈ آفس میں ایک کیمپ آفس چاہیے ،جب ان کو بتایا گیا کہ پولیس ہیڈ آفس میں اسپیشل برانچ اور کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر ہیں ،یہ حساس دفاتر ہیں جہاں پر دہشت گردوں کی تفصیلات ہوتی ہیں، وزیر داخلہ سیاسی ہیں وہاں ان کے دفتر میں سیاسی لوگ آتے رہتے ہیں اس لیے حساس معلومات لیک بھی ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ انہیں پیشکش کی گئی کہ انہیں پولیس کے چار اہم دفاتر میں سے ایک دفتر دیا جاسکتا ہے۔ تب انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ پھر آئی جی سے کہا گیا کہ وہ کراچی سے باہر جائیں تو چیف سیکریٹری سے اجازت لے کر جائیں۔ پھر پولیس افسران سے کہا گیا کہ وہ ضلع اور ڈویژن سے باہر جائیں تو چیف سیکریٹری سے اجازت لیں لیکن ان احکامات پر عمل نہ ہوسکا تو یہ احکامات شرمساری میں واپس لیے گئے۔ پھر آئی جی سندھ پولیس سے ایس پی اور ایس ایس پی کے تبادلے کے اختیارات واپس لیے گئے لیکن تین روز بعد وزیراعلیٰ سندھ نے پارٹی قیادت کے دبائو پر یہ حیرت انگیز فیصلہ کر دیا کہ اب وزیر داخلہ کو گریڈ 20 کے ڈی آئی جی کے تبادلے کے اختیارات حاصل ہوں گے یعنی اب ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی کے تبادلے وزیر داخلہ کریں گے۔
سندھ کی تاریخ میں یہ پہلا حیرت انگیز فیصلہ ہے کیونکہ قانون کے مطابق کسی بھی وزیر کو گریڈ 18 تک تبادلوں کا اختیار حاصل ہوتا ہے لیکن وزیر داخلہ سندھ کو گریڈ 19 اور گریڈ 20 تک کے پولیس افسران کے تبادلوں کا اختیار حاصل ہوگیا ہے جو ایک حیرت انگیز بات ہے۔ کیونکہ گریڈ 19 اور گریڈ 20 کے افسران کے تبادلوں کا اختیار وزیراعلیٰ کا ہوتا ہے اب وزیر اعلیٰ کا اختیار وزیر داخلہ سندھ استعمال کریں گے اور وہ اپنی مرضی سے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی کی پوسٹنگ کریں گے۔ وزیر اعلیٰ صرف ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹنگ کریں گے۔ جو صرف 6پوسٹیں ہیں۔ اس طرح وزیر اعلیٰ سندھ پولیس میں صرف 6ایڈیشنل آئی جی کی تقرری کرسکیں گے وہ پولیس میں 6 افسرا ن کے وزیراعلیٰ بن کر رہ گئے ہیں اور باقی پولیس پر وزیر داخلہ سندھ کا احتیار ہوگا۔ یہ گڈ گورننس کی کیسی مثال ہے؟؟
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ عملاً پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کا اعتماد کھو چکے ہیں اور اُنہیں اب سیاسی مجبوریوں یا بہتر متبادل کی تلاش کے باعث اس منصب پر برقرار رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیرداخلہ سہیل انور سیال جو بوجوہ ڈاکٹر فریال ٹالپور اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا خاص اعتماد رکھتے ہیں، ان دنوں مسلسل سندھ حکومت میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتے جارہے ہیں۔ یوں مراد علی شاہ جو آئی جی کے معاملے میں اپنی پارٹی قیادت کا اعتماد تقریباً کھو چکے ہیں اب آہستہ آہستہ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے اختیارات بھی کھوتے جارہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


سندھ میں اعلیٰ افسران کا قحط گریڈ 21 کے افسران ناپید، سینئر افسران سندھ میں آنے کے لیے تیار نہیں الیاس احمد - بدھ 02 اگست 2017

حکومت کی وصف کیا ہے؟ یہ تو سادہ سی بات ہے لیکن پر کسی کو علم نہیں کہ حکومت کس چیز کا نام ہے؟ اصل میں حکومت کی معنی کا بینہ ہوتی ہے لیکن حکومت کو چلانے کے لیے بیورو کریسی ہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ گریڈ 20 سے لے کر گریڈ 22 تک کے افسران ایسے ہوتے ہیں جو بادشاہ گر ہوتے ہیں۔ س...

سندھ میں اعلیٰ افسران کا قحط  گریڈ 21 کے افسران ناپید، سینئر افسران سندھ میں آنے کے لیے تیار نہیں

جونیئرپاس………سینئرماتحت سندھ میں بیوروکریسی میں عجیب وغریب تماشا الیاس احمد - جمعرات 27 جولائی 2017

2008ء سے جو پیپلزپارٹی نمودار ہوتی ہے اس نے تو قانون ‘ آئین اور حکمرانی کے اصول توڑنے کے ریکارڈ قائم کردیے ہیں پی پی نے 2008ء سے لے کر2017ء تک ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ پی پی نے وہ کام کیا ہے جو قانون کے زمرے میں نہیں آتا۔ کرپٹ لوگ تو پی پی پی کے پسندیدہ بن...

جونیئرپاس………سینئرماتحت سندھ میں بیوروکریسی میں عجیب وغریب تماشا

سندھ حکومت کنگال ، تنخواہوں اور پنشن کے علاوہ تمام ادائیگیاں رک گئیں الیاس احمد - بدھ 28 جون 2017

یوں تو بظاہر حکومت سندھ نے تاریخی بجٹ پیش کیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں اور جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ خوفناک ہیں۔ حکومت سندھ نے اس مرتبہ بجٹ میں جو اعلانات کیے ہیں وہ صرف کاغذ تک محدود ہیں کیونکہ وفاقی حکومت نے 77 ارب روپے کے بجائے صرف 18 ارب روپے فراہم کیے ہیں اس صورتحال نے ...

سندھ حکومت کنگال ، تنخواہوں اور پنشن کے علاوہ تمام ادائیگیاں رک گئیں

حکومت سندھ نے نو سالوں میں 900 ارب روپے کہاں خرچ کیے؟ الیاس احمد - پیر 15 مئی 2017

[caption id="attachment_44533" align="aligncenter" width="784"] چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کی عدالت میں لاڑکانہ کے لیے 90 ارب خرچ کرنے کے کیس میں تاریخی آبزرویشن دی کہ ڈائن بھی دو گھر چھوڑتی ہے‘ محکمہ ورکس اینڈ سروسز کو شرجیل انعام میمن دیکھتے ہیں،وہ بڑے صاحب سے بر...

حکومت سندھ نے نو سالوں میں 900 ارب روپے کہاں خرچ کیے؟

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے من پسند چار کے ٹولے کا وزیراعلیٰ ہاؤس میں ڈیرہ وجود - اتوار 15 جنوری 2017

نام بڑے اور درشن چھوٹے کا محاورہ وزیرا علیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ وہ بظاہر کافی سرگرم نظر آتے ہیں اور خود کو صاف ستھرا ثابت کرنے پر بھی تُلے رہتے ہیں۔ مگر اُن کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی سابق وزرائے اعلیٰ کی طرح ہی اپنی سیاست اور ’’دیگر امور‘‘ انجا...

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے من پسند  چار کے ٹولے کا وزیراعلیٰ ہاؤس میں ڈیرہ

سندھ کی نئی حکومت بھی نادیدہ ہاتھوں سے چلائی جارہی ہے؟ وجود - اتوار 08 جنوری 2017

جب محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم بنیں اور دو مرتبہ حکومت سندھ بنائی اور تین وزرائے اعلیٰ کا تقرر کیا جن میں قائم علی شاہ‘ آفتاب شعبان میرانی اور عبداللہ شاہ شامل ہیں‘ ان کی حکومت میں کوئی فرنٹ مین یا پس پردہ کھلاڑی نہیں ہوتا تھا۔ تھوڑی بہت لفٹ ناہید خان کو ہوتی تھی اور وہ...

سندھ کی نئی حکومت بھی نادیدہ ہاتھوں سے چلائی جارہی ہے؟

مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر