... loading ...
وفاقی حکومت میں وزیر داخلہ کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ مگر صوبوں میں وزیر داخلہ کم ہی رکھا جاتا ہے۔ اکثر یہ محکمہ وزیراعلیٰ کے پاس ہوتا ہے۔ سندھ میں جب جام صادق وزیراعلیٰ بنے تو پہلی مرتبہ مشیر داخلہ کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور عرفان اللہ مروت مشیر داخلہ بنے۔ بعدازاں الیکشن میں کامیاب ہو کر وہ وزیر داخلہ بنے۔ اس دور میں راحیلہ ٹوانہ اور شہلا رضا کو گرفتار کرکے سی آئی اے سینٹر میں وحشیانہ تشدد کا نشانا بنایا گیا۔ وینا حیات سے بھی اسی دور میں بدسلوکی ہوئی۔ سمیع اللہ مروت اس وقت ڈی آئی جی تھے اور سی آئی اے سینٹر ان کے ماتحت تھا، جس میں سیاسی مخالفین کو تشدد کا نشانا بنایا جاتا تھا اور پھر پی پی کی دوسری حکومت میں بھی کوئی وزیر داخلہ نہ بنا اور مسلم لیگ (ن) کی دوسری مخلوط حکومت میں بھی کوئی وزیر داخلہ نہ تھا۔
2002 ء کے عام انتخابات کے بعد سندھ میں پہلے آفتاب شیخ مشیر داخلہ بنے۔ پھر چند ماہ کے لیے سید سردار احمد وزیر داخلہ ہوئے اس کے بعدعبدالر ؤف صدیقی وزیر داخلہ ہوئے اور بعدازاں وسیم اختر مشیر داخلہ بنے ۔وسیم اختر کے دور میں 12 مئی کا واقعہ ہوا۔ عبدالرئوف صدیقی کے دور میں بلدیہ ٹائون فیکٹری کو جلایا گیا جس میں 300 مزدور جل کر راکھ ہوگئے اور پھر عبدالرئوف صدیقی نے مبینہ طور پر دبائو ڈال کر فیکٹری کے مالکان سے کروڑوں روپے وصول کیے کہ جلنے والے مزدوروں کو وہ خود معاوضہ دیں گے۔
2008 میں پی پی حکومت بنی تو اس وقت بھی کسی کو وزیر داخلہ نہیں بنایا گیا۔ مگر 2013 کے الیکشن کے بعد جب دوسری مرتبہ پی پی کی حکومت بنی تو لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن میں منتخب ہونے والے سہیل انور سیال کو وزیر داخلہ بنایا گیا۔ تو اس وقت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کے فرزند بیرسٹر اویس شاہ اغوا ہوگئے ،اس وقت مسلم لیگ (ق) سندھ کے جنرل سیکریٹری بابو سرور سیال نے الزام عائد کیا کہ بیرسٹر اویس شاہ کے اغوا میں وزیر داخلہ سہیل انور سیال ملوث ہیں۔ اس دوران دوسرا اہم واقعہ اربوں روپے کی بے قاعدگیوں میں ملوث لاڑکانہ کے ٹھیکیدار اسد کھرل کی نیب، رینجرز اور حساس اداروں کے ہاتھوں گرفتاری تھی جس کو وزیر داخلہ کے بھائی طارق انور سیال نے مسلح افراد کے ساتھ آکر تھانے سے زبردستی چھڑالیا۔ ان دو واقعات کے بعد حکومت سندھ نے رینجرز پر ناراضی کا اظہار کیا اور پھر رینجرز کے اختیارات میں اضافے پر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ پھر جب مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے کسی کو وزیر داخلہ نہیں بنایا لیکن دو ماہ قبل وزیراعلیٰ ہائوس میں آئی جی سندھ پولیس ایک اجلاس میں گئے تو آصف علی زرداری اور فریال تالپر ناراض ہوئے اور سہیل انور سیال کو دوبارہ وزیر داخلہ بنوا دیا، تاکہ وہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے ساتھ لڑائی لڑسکیں۔ پہلے وزیر داخلہ نے آئی جی سے کہا کہ ان کو پولیس ہیڈ آفس میں ایک کیمپ آفس چاہیے ،جب ان کو بتایا گیا کہ پولیس ہیڈ آفس میں اسپیشل برانچ اور کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر ہیں ،یہ حساس دفاتر ہیں جہاں پر دہشت گردوں کی تفصیلات ہوتی ہیں، وزیر داخلہ سیاسی ہیں وہاں ان کے دفتر میں سیاسی لوگ آتے رہتے ہیں اس لیے حساس معلومات لیک بھی ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ انہیں پیشکش کی گئی کہ انہیں پولیس کے چار اہم دفاتر میں سے ایک دفتر دیا جاسکتا ہے۔ تب انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ پھر آئی جی سے کہا گیا کہ وہ کراچی سے باہر جائیں تو چیف سیکریٹری سے اجازت لے کر جائیں۔ پھر پولیس افسران سے کہا گیا کہ وہ ضلع اور ڈویژن سے باہر جائیں تو چیف سیکریٹری سے اجازت لیں لیکن ان احکامات پر عمل نہ ہوسکا تو یہ احکامات شرمساری میں واپس لیے گئے۔ پھر آئی جی سندھ پولیس سے ایس پی اور ایس ایس پی کے تبادلے کے اختیارات واپس لیے گئے لیکن تین روز بعد وزیراعلیٰ سندھ نے پارٹی قیادت کے دبائو پر یہ حیرت انگیز فیصلہ کر دیا کہ اب وزیر داخلہ کو گریڈ 20 کے ڈی آئی جی کے تبادلے کے اختیارات حاصل ہوں گے یعنی اب ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی کے تبادلے وزیر داخلہ کریں گے۔
سندھ کی تاریخ میں یہ پہلا حیرت انگیز فیصلہ ہے کیونکہ قانون کے مطابق کسی بھی وزیر کو گریڈ 18 تک تبادلوں کا اختیار حاصل ہوتا ہے لیکن وزیر داخلہ سندھ کو گریڈ 19 اور گریڈ 20 تک کے پولیس افسران کے تبادلوں کا اختیار حاصل ہوگیا ہے جو ایک حیرت انگیز بات ہے۔ کیونکہ گریڈ 19 اور گریڈ 20 کے افسران کے تبادلوں کا اختیار وزیراعلیٰ کا ہوتا ہے اب وزیر اعلیٰ کا اختیار وزیر داخلہ سندھ استعمال کریں گے اور وہ اپنی مرضی سے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی کی پوسٹنگ کریں گے۔ وزیر اعلیٰ صرف ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹنگ کریں گے۔ جو صرف 6پوسٹیں ہیں۔ اس طرح وزیر اعلیٰ سندھ پولیس میں صرف 6ایڈیشنل آئی جی کی تقرری کرسکیں گے وہ پولیس میں 6 افسرا ن کے وزیراعلیٰ بن کر رہ گئے ہیں اور باقی پولیس پر وزیر داخلہ سندھ کا احتیار ہوگا۔ یہ گڈ گورننس کی کیسی مثال ہے؟؟
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ عملاً پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کا اعتماد کھو چکے ہیں اور اُنہیں اب سیاسی مجبوریوں یا بہتر متبادل کی تلاش کے باعث اس منصب پر برقرار رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیرداخلہ سہیل انور سیال جو بوجوہ ڈاکٹر فریال ٹالپور اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا خاص اعتماد رکھتے ہیں، ان دنوں مسلسل سندھ حکومت میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتے جارہے ہیں۔ یوں مراد علی شاہ جو آئی جی کے معاملے میں اپنی پارٹی قیادت کا اعتماد تقریباً کھو چکے ہیں اب آہستہ آہستہ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے اختیارات بھی کھوتے جارہے ہیں۔
حکومت کی وصف کیا ہے؟ یہ تو سادہ سی بات ہے لیکن پر کسی کو علم نہیں کہ حکومت کس چیز کا نام ہے؟ اصل میں حکومت کی معنی کا بینہ ہوتی ہے لیکن حکومت کو چلانے کے لیے بیورو کریسی ہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ گریڈ 20 سے لے کر گریڈ 22 تک کے افسران ایسے ہوتے ہیں جو بادشاہ گر ہوتے ہیں۔ س...
2008ء سے جو پیپلزپارٹی نمودار ہوتی ہے اس نے تو قانون ‘ آئین اور حکمرانی کے اصول توڑنے کے ریکارڈ قائم کردیے ہیں پی پی نے 2008ء سے لے کر2017ء تک ایسے کارنامے انجام دیے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ پی پی نے وہ کام کیا ہے جو قانون کے زمرے میں نہیں آتا۔ کرپٹ لوگ تو پی پی پی کے پسندیدہ بن...
یوں تو بظاہر حکومت سندھ نے تاریخی بجٹ پیش کیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں اور جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ خوفناک ہیں۔ حکومت سندھ نے اس مرتبہ بجٹ میں جو اعلانات کیے ہیں وہ صرف کاغذ تک محدود ہیں کیونکہ وفاقی حکومت نے 77 ارب روپے کے بجائے صرف 18 ارب روپے فراہم کیے ہیں اس صورتحال نے ...
[caption id="attachment_44533" align="aligncenter" width="784"] چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کی عدالت میں لاڑکانہ کے لیے 90 ارب خرچ کرنے کے کیس میں تاریخی آبزرویشن دی کہ ڈائن بھی دو گھر چھوڑتی ہے‘ محکمہ ورکس اینڈ سروسز کو شرجیل انعام میمن دیکھتے ہیں،وہ بڑے صاحب سے بر...
نام بڑے اور درشن چھوٹے کا محاورہ وزیرا علیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ وہ بظاہر کافی سرگرم نظر آتے ہیں اور خود کو صاف ستھرا ثابت کرنے پر بھی تُلے رہتے ہیں۔ مگر اُن کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی سابق وزرائے اعلیٰ کی طرح ہی اپنی سیاست اور ’’دیگر امور‘‘ انجا...
جب محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم بنیں اور دو مرتبہ حکومت سندھ بنائی اور تین وزرائے اعلیٰ کا تقرر کیا جن میں قائم علی شاہ‘ آفتاب شعبان میرانی اور عبداللہ شاہ شامل ہیں‘ ان کی حکومت میں کوئی فرنٹ مین یا پس پردہ کھلاڑی نہیں ہوتا تھا۔ تھوڑی بہت لفٹ ناہید خان کو ہوتی تھی اور وہ...